ہمارے حکمران طبقات قوتِ فیصلہ سے محروم ہیں۔ سوچ بھی محدود ہے۔ باتیں بہت ہوتی ہیں ، نعرے بھی لگتے ہیں لیکن کچھ کرنے کی ہمت نسبتاً کم ہے۔
اخبارات پڑھنے سے ڈپریشن طاری ہو جاتا ہے ۔ آئے روز لکھا ہوتا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں اور اتنے محدود ہو چکے ہیں کہ ضروری ادائیگیوں کیلئے بھی ناکافی ہیں ۔ اس لئے کہیں نہ کہیں کشکول تھامے رجوع کرنا پڑے گا۔ چین اور سعودی عرب سے خیرات کی باتیں ہوتی رہی ہیں‘ حالانکہ جس قسم کی خیرات کے ہم متمنی ہیں‘ وہ نہ چین‘ نہ ہی سعودی عرب سے آ سکتی ہے ۔ رہ گیا آئی ایم ایف تو اَب یہ تصویر کھینچی جا رہی ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف جانا ہی پڑے گا کیونکہ جو دَس سے بارہ بلین ڈالر ادائیگیوں کیلئے درکار ہیں وہیں سے مل سکتے ہیں۔
باتوں کا ہنر ہماری حکومتوں کو ہے لیکن مشکل فیصلے لے نہیں سکتیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اپنے انقلابات کے بعد چین، روس اور پھر کیوبا کیسے زندہ رہے۔ ان تینوں ممالک نے کہیں سے قرض نہ لیا ۔ پیٹ پہ پتھر باندھا اور مشکل حالات کا سامنا کیا ۔ ہم جادو یا معجزے کے منتظر ہیں ۔ پیٹ بھی نہ کاٹیں ، عیاشیاں کم نہ ہوں اور تکلیفیں دور ہو جائیں۔
دو اقدام تو فوراً ہونے چاہئیں۔ ایک وہ جس کے بارے میں لکھ لکھ کے تھک چکا ہوں ۔ عمران خان اپنے آپ کو بڑی قوتِ فیصلہ رکھنے والے انسان سمجھتے ہیں ۔ پلاسٹک شاپروں کا تو کچھ کر نہیں سکتے‘ اور آسمان سے کون سے تارے توڑ کے لانے ہیں ؟ اگر اُن میں ہمت ہو تو قومی اسمبلی میں جا کے یہ اعلان کریں کہ آج سے بالکل اِسی وقت سے اِس ابلیس کی ایجاد یعنی پلاسٹک شاپروں پہ فوری پابندی لگ گئی ہے‘ اور اِس کا استعمال فوجداری جرم سمجھا جائے گا۔ قانون سازی وہیں کی جائے اور اِس جرم کو ضابطہ فوجداری میں شامل کیا جائے ۔ اِس ایک اقدام سے پورے ملک میں آدھے سے زیادہ صفائی کا مسئلہ فوراً حل ہو جائے گا۔ انتظامیہ کو نصیحتیں نہ کی جائیں ۔ اُن کے کان کھینچے جائیں تاکہ پلاسٹک شاپروں کو ختم کرنے کی قومی مہم میں وہ صفحہ اول کا کردار ادا کریں۔
دوسرا اقدام یہ کہ جنرل ضیاء الحق کا نافذ کردہ حدود آرڈیننس‘ جس سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر منافقت پھیلی ہے، کو ختم کیا جائے ۔ ممنوعہ اشیاء کے بارے میں وہی قوانین نافذ ہوں جو 1977ء سے پہلے نافذالعمل تھے ۔ اِس ایک فیصلے سے معاشرتی منافقت میں کمی آئے گی ، پولیس کی من مانیاں کم ہوں گی اور قومی خزانے کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے اپنا معاشرہ غیر فطری بنیادوں پہ اَستوار کیا ہوا ہے ۔ حدود آرڈیننس کے خاتمے سے معاشرے کے غیر فطری پن میں کمی آئے گی۔
تیسرا اقدام قومی خرچے کے بارے میں ہے۔ اگر خرچے پورے نہیں ہو رہے اور کشکول بھی خالی ہے تو ظاہر ہے ہنگامی بنیادوں پہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ تو پٹرولیم کی مصنوعات ضروری ہیں مثلاً بجلی کے کارخانے چلانے کیلئے اور دفاعی ضروریات کے حوالے سے ۔ لیکن بہت سا پٹرول موٹر کاروں میں استعمال ہوتا ہے اور اِس بارے نئی سوچ پیدا کی جا سکتی ہے ۔ ہماری سڑکیں موٹر کاروں سے کھچا کھچ بھری رہتی ہیں۔ جنرل مشرف سے پہلے اتنی موٹر کاریں ملک میں نہیں تھیں ۔ پھر کیا کرشمہ ہوا کہ تمام بینک آسان شرائط پہ گاڑیاں لیز پہ دینے لگے اور راتوں رات ملک کے طول و عرض میں سڑکیں موٹر کاروں سے بھر گئیں ۔ تب کے معاشی جادوگروں نے نعرہ بلند کیا کہ کاروں سے بھری ہوئی سڑکیں ترقی کی نشانیاں ہیں۔
خزانہ خالی ہے‘ رقم کہیں سے مل نہیں رہی تو پھر ہمت دِکھا کے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے ۔ تا حکمِ ثانی پورے ملک میں موٹر کاروں کیلئے پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل بند کی جائے ۔ غریب و امیر آمد و رفت کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں ۔ انتظامیہ کے کان اِس بات پہ بھی کھینچے جائیں تاکہ وہ ٹرانسپورٹ مافیا کو من مانیاں کرنے سے روک سکے ۔ جو کوئی ناجائز کرائے بڑھائے تو اُن ٹرانسپورٹ والوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جائے‘ جو فلپائن میں وہاں کے صدر خلاف ورزیاں کرنے پہ موٹر کاروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہاں ایسا دیکھنے میں آیا کہ خلاف ورزیاں کرنے پہ مہنگی گاڑیوں کو بلڈوزروں کے نیچے کچل دیا گیا ہے۔ یہاں بھی چند ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تاکہ قانون کا خوف ذہنوں میں بیٹھے اور ٹرانسپورٹ مافیا اپنی حرکتوں سے باز آ جائے۔
یعنی کچھ عرصے کیلئے ملک کی سڑکوں سے موٹر کاریں غائب ہو جائیں اور عوام پبلک ٹرانسپورٹ پہ انحصار کریں۔ ضرور تکلیف ہو گی ، چیخ و پکار ہو گی ، لیکن مضبوط اور سخت حکومت کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ احتجاج بھی ہو تو حکومت کو میدان میں اُترنا چاہیے ۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ ہمیں کھوکھلے نعرے لگانے کی بجائے دیگر اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ جو ممالک مشکل حالات سے گزرے ہیں‘ اُنہوں نے بہت تکلیفیں سہیں جن کا ہمیں قطعاً کوئی ادراک نہیں ۔ فوج کے تعاون سے، اور یہ تعاون ناگزیر ہے، موجود ہ حکومتیں یہ مشکل فیصلے کریں اور ہر ردِ عمل کے لئے تیار رہیں ۔ لیکن مزید بھیک نہ مانگی جائے اور اپنا کشکول توڑنے کی کوشش کریں ۔ کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ وقتی طور پہ بین الاقوامی قرضوں کی واپسی روک دی گئی۔ ارجنٹینا نے ایسا کیا۔ اُس ملک پہ کوئی آسمان نہیں ٹوٹا ۔ وَقتی طور پہ ادائیگیاں روک دی گئیں ، معیشت کو ٹھیک کیا اور پھر اِس پوزیشن میں ارجنٹینا ہوا کہ اپنے بین الاقوامی قرضہ جات کو واپس کرے ۔ یہ اور بات ہے کہ ارجنٹینا کی آج کل حالت اَچھی نہیں لیکن اُس کی وجوہات اور ہیں۔
موجودہ حکومت کو ووٹ ملے اور غیبی امدا د بھی میسر آئی تاکہ وہ مشکل فیصلے لے سکے ۔ اَبھی تک اُنہوں نے سرکس ہی سجایا ہے ۔ بھینسوں کی نیلامی ، گاڑیوں کی آکشن کا تماشہ اور گورنر ہاؤسز عوام کے لئے کھولنے کے شوشے ۔ اِن کی نظر میں یہ مشکل فیصلے ہیں ؟ اَب تک تو اِن کے سامنے کوئی نقشہ ہونا چاہئے تھا‘ جس پہ عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہوتا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی والے بھی باقی سیاسی جماعتوں جیسے ہی ہیں ۔ اِن میں کیا مختلف بات ہے؟ اِس کے ممبران اور وزراء کون سا انقلابی تجربہ رکھتے ہیں ؟ کون سی اکیڈمیوں سے فارغ التحصیل ہیں؟ جن اقدامات کی یہاں نشاندہی کی جا رہی ہے‘ کیا کوئی اِن مخدوموں اور ترینوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ایسا کر سکیں؟
عمران خان کا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ میں ذاتی طور پہ دیانتدار ہوں اور میری ذات پہ کسی مالی بد عنوانی کا دَھبہ نہیں ۔ پاکستانی سیاست میں دیانتدار بہت لوگ رہے ہیں ۔ جناح صاحب کے کسی قریبی ساتھی پہ بھی مالی بد عنوانی کا کبھی کوئی شُبہ نہ رہا ۔ لیاقت علی خان نواب تھے‘ اپنا سارا کچھ ہندوستان میں چھوڑ آئے اور یہاں پانچ مرلے کا کلیم بھی نہ کیا۔ سیاست میں کرپشن بہت بعد میں آئی لیکن دیکھا جائے تو محمد خان جونیجو ذاتی طور پہ نہایت ہی دیانتدار انسان تھے ۔ کرپشن پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن واحد مسئلہ نہیں ۔ حکمرانوں کا دیانتدار ہونا ضروری ہے لیکن کافی نہیں ۔ سوچ اور قوت فیصلہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
پاکستان حقیقی معنوں میں ایک معاشی بحران کا شکار ہے ۔ لیکن جو فیصلے قوم کو لینے چاہئیں ، جن فیصلوں کی باگ ڈور حکومتوں کو اپنے ہاتھ میں لینی چاہئے، وہ کہاں ہیں ؟ عمران خان سے بھینسوں کی نیلامی نہیں کچھ اور کی توقع تھی ۔ بھٹو صاحب جب اقتدار میں آئے تو چند دِنوں میں ہی یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ چیزیں بدل رہی ہیں ۔ موجود ہ لوگ جو ہیں وہ کیا کر رہے ہیں ؟ فروعی باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، سامنے کوئی مربوط اور جامع حکمتِ عملی کا نقشہ تو ہو۔ موجودہ سکوت تو ٹوٹے ۔ جمے ہوئے پانیوں میں ہلچل پیدا ہو ۔ تاریخِ چین یا ویت نام تو کسی نے پڑھنی نہیں ۔ سو اِس کی نصیحت کرنا بیکار ہے ۔ لیکن کچھ تو بیسویں صدی کے انقلابوں کا جائزہ لیا جائے اور اُن سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ میں کچھ ہمت پیدا کی جائے۔