عربوں کا دورِ جہالت اسلام سے پہلے ہو گا لیکن ہمارا دورِ جہالت تب تھا جب راولپنڈی کال بُک کرنی ہوتی تو آپریٹر سے کہنا پڑتا۔ انگلستان کی کال دو یا تین دِن میں ملتی تھی ۔ اُس کے انتظار میں گاؤں والوں کو چکوال ایک دو دِن پڑاؤ کرنا پڑتا تھا۔
صحافت جب 1979-80ء میں شروع کی تو بہ اَمر مجبوری اسلام آباد شفٹ ہونا پڑا کیونکہ چھوٹے شہر میں رہ کے ترسیل کی وہ سہولیات ہی موجود نہ تھیں جن سے صحافت ممکن ہو سکے ۔ اسلام آباد سے لاہور میں ہفت روزہ 'View Point‘ میں اپنا کالم پی آئی اے کے ڈاک کے نظام سے بھیجنا پڑتا۔ کئی سال بعد جب فیکس مشینیں آئیں تو حیرانی کی انتہا اِس بات پہ رہتی تھی کہ یہ کیسی مشین ہے کہ ایک طرف سے کاغذ ڈالا اور سینکڑوں میل دور وہ تحریر باہر آئی۔ انٹرنیٹ اور پرسنل کمپیوٹرز کا تو تصور تک نہ تھا۔ یہ معجزے کسی دورِ قدیم میں نہیں بلکہ ہمارے سامنے ہوئے ہیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی بار جب گاؤں میں کالم لکھنا ہوتا تو پھر سپیشل اہتمام کرنا پڑتا کہ ٹائپ شدہ کاغذ لے کر بذریعہ گاڑی چکوال جائیں اور وہاں سے بذریعہ فیکس کراچی انگریزی اخبار میں بھیجیں۔ اَب گاؤں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے ۔ یہ اُردو کالم جو میں لکھتا ہوں‘ فون پہ ڈکٹیٹ کراتا ہوں ۔ WhatsApp پہ واپس ملتا ہے اور پھر فون پہ ہی تصحیح کرنی ہو تو ہو جاتی ہے ۔ ڈکٹیشن لینے والا ای میل کے ذریعے کالم اخبار کو بھیج دیتا ہے۔
یہ معجزے نہیں تو کیا ہیں ؟ سب کچھ چند سالوں میں ہوا ہے ۔ اَب یہ حالت ہے کہ جیسے سانس لینے کا آدمی کبھی سوچتا نہیں تو انٹرنیٹ کے بارے میں بھی نہیں سوچتا۔ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں‘ ہم اِسے Take for granted سمجھتے ہیں کہ جیسے سانس ایک ریفلیکس ایکشن ہے تو انٹرنیٹ بھی اُسی طرح زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے ۔ یہ سب کچھ آسمان سے نہیں اُترا ۔ اِنہیں انسانی دماغ نے ایجاد کیا ہے اور ایجاد کر کے ہماری زندگیاں بدل دی ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے سمارٹ فون کا کون تصور کر سکتا تھا؟ اَب آپ گاؤں جاؤ تو چرواہے بھیڑ بکریوں کو باہر لے جا رہے ہوں گے تو یا کان کے ساتھ یا جیب میں فون ضرور ہو گا۔ خواتین کا بھی یہی حال ہے ۔ بس سٹاپ پہ ہوں گی ، برقعہ پہنا ہو گا لیکن فون ضرور ہو گا۔ زیور کی خواہش تو خواتین کو ہمیشہ سے رہی ہے لیکن اَب شاید زیور سے بھی زیادہ خواہش سمارٹ فون کی ہوتی ہے ۔ ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ کسی سمجھدار اور تیز طرار خاتون نے ہم سے فون بٹور لیا تو نیا فون آتے ہی تقاضا شروع ہو گیا کہ ہمیں تو یہ چاہیے۔
بے حیائی کا رونا فضول بات ہے ۔ کسی کو کوئی مجبور نہیں کرتا کہ فون یا لیپ ٹاپ پہ عریانی والی فلمیں دیکھے ۔ یہ تو مرضی کی بات ہے کہ انٹرنیٹ کے خزانے کو آپ کس طریقے سے استعمال کریں ۔ دنیا کی بے حیائی بھی انٹرنیٹ پہ موجود ہے اور دنیا کی تمام کتب اور لٹریچر بھی ۔ جیسا کہ ہر ایک طالب علم کو پڑھنے کا شوق نہیں ہوتا ۔ چند ہی ہوتے ہیں جو لائبریریوں میں جا کے کتابیں نکلواتے ہیں ۔ ایسا ہی انٹرنیٹ کا حال ہے کہ کوئی اُسے کس انداز سے استعمال کرے ۔
یو ٹیوب بھی ایک معجزے سے کم نہیں ۔ نوجوانی میں ہمیں ٹرانزسٹر ریڈیو پہ گزارا کرنا پڑتا تھا۔ صبح کے سات بجتے تھے تو ہم ریڈیو سیلون پہ پرانی فلموں کے سنگیت کا پروگرام سُنتے تھے۔ اُسی پروگرام سے کندن لال سہگل کی لا جواب آواز سے شناسائی ہوئی کیونکہ ہر روز اِس پروگرام کا اختتام اُن کے کسی گانے پہ ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں چند ہی لوگ تھے جن کے پاس گرامو فون پلیئر ہوتے تھے ۔ باقی گزارہ ریڈیو پہ تھا۔ یو ٹیوب نے دنیا کی تمام موسیقی کا خزانہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ جو مَن میں آئے آپ سُنیں، پاپ میوزک سے لے کر کلاسیکی موسیقی تک ۔ نایاب سے نایاب گانا آپ کو وہاں مل جاتا ہے ۔ ایسی پرانی ریکارڈنگز یو ٹیوب پہ موجود ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں سے آئیں ۔ مثال کے طور پہ واگنر (Wagner) کی پرانی ریکارڈنگز ہیں ۔ فرٹ وانگلر (Furtwangler) کنڈکٹ کر رہا ہے اور پہلی صف میں ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوبلز بیٹھے ہیں۔ کنسرٹ ہال کی دیواروں پہ نازی پارٹی کا مخصوص نشان سواسٹکا (swastika) لگا ہوا ہے۔ کئی ریکارڈنگز 1930-35ء کی ہیں۔ ہندوستانی موسیقی میں آپ کی دلچسپی ہے تو ڈھونڈنے سے یو ٹیوب سے ہر چیز مل جاتی ہے ۔ بیٹھے آپ گاؤں میں ہوں، ساتھ گلاس اور برف بھی ہو اور وہ گزرے زمانے کے گانے سُن رہے ہوں ۔ فلمیں دیکھنی ہوں تو وہ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ بھی معجزہ نہیں تو کیا ہے ؟
لیکن الحمدللہ ان ساری ایجادات اور معجزوں میں ہمارا حصہ یعنی دنیائے اسلام کا حصہ صفر بٹہ صفر ہے ۔ ساری چیزیں ایجاد ہوئی ہیں تو اوروں یا یوں کہیے غیروں کے ہاتھوں ۔ کمپیوٹر اُنہوں نے بنائے ، مائیکرو چپس کو اُنہوں نے ترتیب دیا، انٹرنیٹ جیسی دماغ ہلا دینے والی چیز اُنہوں نے بنائی ، ہمارا حصہ اِس میں کچھ بھی نہیں ۔ بات ترجیحات کی ہے ۔ غیروں نے اِس دنیا کو آراستہ اور تبدیل کیا ۔ ہماری فکر کچھ اور ہے اور ہمارے محافظِ دین ہماری سوچ اور ہمارے خیالات کو اُسی طرف رکھنے میں ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں۔ مذہب دنیائے مغرب میں بھی ہے اور ہمارے ہاں بھی‘ لیکن عیسائیت ہوتے ہوئے بھی مغربی دنیا میں سوچ کی نئی راہیں تلاش کی گئیں۔ فلسفہ دان اور سائنسدان ایسے آئے جنہوں نے انسانی فکر کو نئی جہت عطا کی ۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا اِس بحث کو چھوڑئیے ۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ بہت سی باتیں کی بھی نہیں جا سکتیں ۔ یہ زمانہ قدیم کی کہانی نہیں، ہمارا آج کا حال ہے ۔ پاکستان بہت سے مسلمان ممالک سے کئی زاویوں سے بہتر حالت میں ہے ۔ جیسی بھی جمہوریت ہمارے ہاں ہے بیشتر دنیائے اسلام میں نہیں ملتی۔ جیسا ہمارا میڈیا ہے بیشتر اسلامی ممالک میں ایسا ممکن نہیں۔ لیکن اِس صورتحال کے باوجود بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پہ خاطر خواہ اظہارِ خیال سراسر ناممکن ہے ۔ ایسی کیفیت میں سوچ اور فکر کیسے پروان چڑھ سکتی ہے ۔
اِن سب کو لے لیجئے جنہوں نے مائیکروسافٹ ، گوگل ، فیس بک وغیرہ کو ایجاد کیا ۔ سارے کے سارے نوجوان امریکن یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے اور کئی ایک نے یونیورسٹی چھوڑ کے اپنا کام شروع کر دیا۔ لیکن اُن سب کو ایک خاص قسم کا ماحول میسر تھا جس میں وہ جو چاہیں کر سکتے تھے ۔ جہاں پر فکر پہ تالے لگے ہوں وہاں مائیکرو سافٹ اور گوگل ایجاد نہیں ہو سکتے ۔
شاعر نے تو کہا تھا کہ ہم کن تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ اصل مسئلہ ذرا مختلف ہے کہ ہم کن تاریک راہوں میں پھنسے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ بحث اَبھی تک جاری ہے کہ جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کا مفہوم کیا ہے ۔ وہ کس قسم کے پاکستان کی طرف اشارہ کر رہے تھے ؟ ہم اِن باتوں سے نکل ہی نہیں پا رہے تو اور ہم نے کیا کرنا ہے ؟
سوچنے کا مقام ہے ۔ الزامات جو بھی ہوں کمزور یا سنگین، کسی مہذب ملک میں کسی وائس چانسلر کو ہتھکڑی نہیں لگتی ۔ ہتھکڑی لگنے سے جناب مجاہد کامران کو وَقتی خِفت اُٹھانا پڑی ہو گی لیکن اِس حرکت سے پاکستان کے اجتماعی چہرے پہ طمانچہ پڑا ہے ۔ ایسا ملک مہذب نہیں کہلا سکتا۔ اِس سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ جمال خشوگی کی گمشدگی کا ہے ۔ جس طریقے سے وہ صفحۂ ہستی سے غائب ہوئے وہ صرف ایک ملک کیلئے نہیں بلکہ دنیائے اسلام کیلئے باعث شرم ہے۔