اِس عنوان سے برٹرینڈ رسیل (Bertrand Russell) کا ایک مضمون ہے جس میں اُنہوں نے کئی چیزوں کا ذِکر کیا ہے کہ خوشی کی زندگی گزارنا ہو تو یہ چیزیں ہونی چاہئیں۔ ایک بات پہ اُنہوں نے زور دیا کہ انسان کا نظامِ ہاضمہ ٹھیک ہو کیونکہ اگر یہ کمزور یا خراب ہو تو اور آپ لاکھ جتن کر لیں، دنیا کی سیر کریں، ہائیڈ پارک کے قریب مہنگے فلیٹ خریدیں، اگر بھوک نہ لگے اور کھانا ہضم نہ ہو تو دنیا کی تمام دولت بیکار ہے۔
میں نے کبھی کسی جھگی میں رہنے والے کو ناخوش نہیں دیکھا۔ جس حالت میں بھی ہوں، کھانا مانگ کے کھاتے ہوں، لیکن خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی مانگ بہت محدود ہوتی ہے کہ کہیں جھگی لگانے کی جگہ مل جائے۔ گدھا اچھا ہو کیونکہ اُس کے ذریعے جھگی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانی پڑے تو اُس کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اِس بات پہ بھی زور ہوتا ہے کہ خاتون کیلئے مرد اچھا ہو اور مرد کیلئے بیوی۔ پھر گزر ہو جاتی ہے۔ نہ بجلی کی فکر نہ گیس کی۔ پکے مکان میں روح بے چین ہو جاتی ہے۔ آسودگی ملتی ہے تو جھگی میں اور کھلے آسمان تلے۔ فضول کی بحث میں جھگی والے کبھی نہیں پڑتے اور مذہب جیسے ثقیل موضوع پہ بحث سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔
مشہور لکھاری سردار خشونت سنگھ کے والد دلی کے بڑے ٹھیکیدار تھے اور نئی دلی میں بہت سارا تعمیراتی کام اُنہوں نے کیا۔ دلی میں آج بھی اُن کے نام سے منسوب سوجان سنگھ پارک ہے۔ خشونت سنگھ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مرد اور عورت مزدوروں کو شام ڈھلے دیکھتا‘ جب اُنہوں نے دِن بھر کا کام ختم کیا ہو تو حیران ہوتا کہ وہ ہر وقت ہنستے رہتے۔ دیہاڑی ہو گئی، رات کے کھانے کا بندوبست ہو گیا تو آنے والے کل کی فکر نہ ہوتی تھی۔ یہ تو میں نے کئی بار لاہور میں دیکھا ہے کہ گرمیوں کے دن عین جب سورج آسمان پر چڑھا ہو تو مال کے درمیان والے حصے میں کوئی آدمی سو رہا ہے اور نیند اُس پہ ایسے آئی ہے کہ انسان رشک کرے۔ یہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کا مسئلہ ہے کہ ہمیشہ کسی نہ کسی فکر میں گھِرے رہتے ہیں۔ نوجوانی میں نوکری کی فکر، اُس کے بعد شادی کی فکر اور بچے ہو جائیں تو بچوں کی فکر۔ بے فکر یا تو جھگی والے یا میخانے کا راستہ ڈھونڈنے والے ہوتے ہیں۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ ہماری نیک مملکت میں میخانے کے دروازے ہم نے بند کر دئیے اور معاشرے کو منافقت کے ہاتھوں میں دے ڈالا۔
جتنے یہاں وعظ اور نصیحت کرنے اور بخشش کی راہ دکھانے والے ہیں‘ پاکستان کو تو خوشحال ملک ہونا چاہیے اور اِس کی آبادی ہنستی کھیلتی رہنی چاہیے‘ لیکن عمر کے اس پیرائے میں دیکھتا ہوں کہ ہر جگہ افسردگی چھائی ہے اور اگر ہمارا کوئی مشغلہ ہے تو رونا دھونا۔ میرے جیسے آدمی کی زندگی کا لازمی حصہ اخبارات ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب اخبارات سے چڑ ہونے لگی ہے۔ رونا دھونا ہوتا ہے اور شاذ ہی پڑھنے کو کوئی ایسی چیز ملتی ہے‘ جس سے سُوکھے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ جائے یا اکیلے میں کسی بات پہ ہنس پڑیں۔ ایک زمانہ تھا کہ گھنٹے سے زائد وقت اخبارات کے مطالعے پہ لگتا تھا۔ اَب ہیڈ لائنوں اور جلدی صفحہ پلٹنے سے گزارا ہو جاتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں پڑھنے کا ایک آدھ مضمون ملتا ہے یا بھلا ہو نیویارک ریویو آف بکس کا جو میرے پاس آتا ہے اور اُس میں پڑھنے کا خاصا مواد ہوتا ہے۔
صحافت اَب تو مزدوری بن کے رہ گئی ہے۔ اُس کے بغیر چارہ نہیں، نہیں تو کئی بار دِل میں خیال آتا ہے کہ ہر چیز کو ایک طرف پھینک کر کندھے پر گٹھڑی اُٹھائے سڑک پہ نکل جانا چاہیے۔ روٹی مانگ کے کھائی جائے اور دور دراز مزارات کی زیارت کی جائے۔ 35-30 سال پہلے سیہون شریف گیا تھا‘ اور پھر یہ آرزو ہی رہی کہ وہاں دوبارہ جایا جائے۔ بدھ مت کا یہ تقاضا ہے کہ پچاس سال کی عمر تک انسان بال بچوں کی نسبت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر لے اور کشکول اُٹھائے لمبے راستے پہ نکل پڑے۔ تھائی لینڈ جانے والوں نے دیکھا ہو گا کہ پیلے رنگ کی چادر میں ملبوس ہاتھ میں کشکول اُٹھائے بدھ مت کے پیروکار زندگی کی آسائشوں سے بے نیاز سڑک پہ چل رہے ہیں۔ بسوں میں اُن کے لئے الگ جگہ مختص ہوتی ہے تاکہ اُنہیں سفر میں دِقت نہ ہو۔ سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چہروں پہ فکر کی ایک لکیر نہیں ہوتی۔ بنکاک جیسے شہر میں ایک طرف ریڈ لائٹ ایریاز ہیں‘ اور دوسری طرف یہ بدھ مت کے بھکشو۔ ہمارے ہاں بھی جو ریڈ لائٹ ایریا تھے وہاں بھی ایک طرف گھنگھروؤں اور طبلے کی آواز آتی تھی‘ اور دوسری طرف فقیر پھر رہے ہوتے تھے‘ اور اُن کا بھی گزارہ ہو جاتا تھا۔ نصیحت اور وعظ کی وبا ہمارے ہاں بعد میں آئی۔ نصیحت کے گاڈ فادر کوئی تھے تو جنرل ضیاء الحق اور نصیحت کا میدان کسی چیز نے سجایا تو نام نہاد افغان جہاد نے۔ کوئی زیادہ ہنستا کھیلتا معاشرہ ہمارا پہلے بھی نہ تھا‘ لیکن جو ہماری روح و جسم کو افغان جہاد نے زخم لگائے وہ الگ داستان ہے۔
ایک معاشرے کو تشکیل پانے میں ہزارہا سال لگتے ہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ کچھ آب و ہوا کا اثر، کچھ تاریخ کا عمل اور پھر صدیوں کے نشیب و فراز کے بعد ایک معاشرہ اپنی مخصوص خصوصیات کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ برصغیر کے معاشرے کی بھی اپنی خصوصیات تھیں۔ طرح طرح کی فوجیں آئیں، فاتح آئے اور یکے بعد دیگر ے مختلف مذاہب نے برصغیر کے پہاڑوں، وادیوں اور میدانوں میں اپنا راستہ بنایا۔ جو برصغیر کا کریکٹر اور مزاج ہے اُس کا کچھ اَثر ہندومت کا ہے اور پھر اسلام اور انگریزوں کا۔ پاکستانی معاشرہ کسی ایک چیز یا اَثر کا پراڈکٹ نہیں۔ مختلف اجزا اور تاریخی تجربات نے پاکستانی کریکٹر کو تشکیل دیا۔ ہمارے ہاں اسلام بھی تھا‘ انگریز دور کا اثر بھی۔ یعنی قدیم روایات کا حصہ تھا اور ماڈرن تجربات کا بھی۔ معاشرے میں ایک بیلنس اور رواداری تھی۔ وہ کیفیت جو غالب کے اِس شعر سے ظاہر ہوتی ہے: ''مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے‘‘۔ جنرل ضیاء الحق کا راج آیا اور نام نہاد افغان جہاد اور یہ سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو گیا۔ منافقت اور نقلی دین داری کی ایسی ہوائیں چلیں کہ ہم نہ گناہگاروں میں رہے نہ بخشش پانے والوں میں۔
ایک تو ہم نے 65ء کی جنگ کا ایڈونچر مول لیا۔ پاکستانی تاریخ کے بڑے جھوٹوں میں ایک جھوٹ یہ ہے کہ مکار دشمن نے ہم پہ یہ جنگ مسلط کی۔ ایسا ہرگز نہ تھا۔ اِس واردات کی شروعات ہم سے ہوئیں۔ اُس وقت کے حکمران خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان صحیح سوچ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔ اِس جنگ کا انہوں نے باقاعدہ فیصلہ نہ کیا تھا بلکہ اِس میں پھسلتے چلے گئے اور پھر ایک دن آنکھ کھولی تو بین الاقوامی بارڈر پہ ہندوستان حملہ آور ہو چکا تھا۔ جنگ کا نتیجہ اور جو بھی ہو پاکستان ایک عسکری ریاست بن گیا۔ ریاست کا بنیادی فلسفہ یہ ہو گیا کہ دائمی بنیادوں پہ پاکستان کو مکار ہندوستان سے خطرہ ہے۔
ہمار ے صدموں کیلئے وہی ایک جنگ کافی تھی‘ لیکن افغانستان کی سرزمین نے اپنے صدمے پیدا کیے اور بجائے اِس کے کہ اُن صدموں سے ہم دُور رہتے اور اُن کے خلاف ایک بند باندھتے ہم نے اُن کو گلے لگا لیا۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کی نصیحتیں تھیں اور دوسری طرف مولوی صاحبان کی یلغار۔ پاکستانی معاشرے کا بیلنس ٹوٹ گیا۔ صدیوں سے جو اِس خطے کے لوگوں کا مزاج اورکریکٹر بنا اُس میں نقصان دہ رجحانات داخل ہو گئے۔
آج کا پاکستان دو عوامل کا پراڈکٹ ہے، ایک 65ء کی جنگ اور دوسرا نام نہاد افغان جہاد۔ اِن دو چیزوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور کوئی اَتا تُرک یہاں پیدا نہیں ہونا جو اِن دو منفی اثرات کی جڑوں کو کاٹ سکے۔ پاکستان کی سرزمین اور آب و ہوا سے کوئی اَتا تُرک نہیں اُٹھ سکتا اور بغیر کسی اَتا تُرک کے ہماری بیماریوں کا علاج ممکن نہیں۔