ہماری جاننے والی ایک سمجھ دار خاتون، جن پہ لال ساڑھی بہت جچتی، چڑ جاتیں اگر ہم خالی ہاتھ آتے۔ کیوں نہ پچھلے ہفتے ہی آئی فون لے کر دیا ہوتا یا ثناء سفیناز کے تین چار سوٹ، لیکن خالی ہاتھ ہوتے تو کہے بغیر نہ رہتیں، ''انکل یہ جو دو ہاتھ اور دو پاؤں لے کے آ جاتے ہو اچھا نہیں لگتا‘‘۔
خاندانی لوگ اِسی اصول پہ چلتے ہیں ۔ ثقافت کے میدان میں خاندانی لوگ مفت میں کام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ ہمارے مرحوم دوست سلمان تاثیر ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ اُن کے ایک جاننے والے‘ جن کی دوستی سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب بازار میں ہو گئی تھی‘ فخر سے کہتے تھے کہ پیار کا معاملہ ہے‘ لینا دینا کچھ نہیں۔ سلمان تاثیر نے کہا کہ ایسا ہو نہیں سکتا، یہ خاندانی روایات کے برعکس ہے۔ لیکن اُن کے جاننے والے مُصر رہتے کہ لینا دینا کچھ نہیں؛ البتہ تمہاری بھابھی کے بھائی کا پچھلے دنوں امریکی ویزا لگوایا تھا اورکبھی کبھار لبرٹی مارکیٹ سے چالیس پینتالیس ہزار کی شاپنگ ہو جاتی ہے۔ لیکن لینا دینا کچھ نہیں۔
کرایے کے ٹٹو تو نہیں کہنا چاہیے، قومی عزت کا سوال ہے‘ لیکن اپنی ستر سالہ قومی زندگی میں خدمت گاری کا کوئی موقع ہم نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ امریکہ کے اصرار پہ اور کچھ خود اپنے دل کے کہنے پہ ہم امریکی دفاعی معاہدوں میں شامل ہو گئے۔ کچھ فوجی امداد ملی اور اُس پہ ہم پھولے نہیں سمائے۔ لیکن جب 65ء کی جنگ کا امتحانی مرحلہ آیا تو جو امداد آتی تھی بند کر دی گئی ۔ ہم نہتے رہ گئے۔
افغانستان کی شورش میں ہم نے بھرپور خدمت گاری کی انتہا کر دی‘ لیکن ہمیشہ کی طرح تابعداری کی صحیح قیمت نہ لگوا سکے کیونکہ نام نہاد افغان جہاد امریکہ کے لئے بہت اہم تھا‘ ہم اپنی خدمات کے عوض کچھ بھی مانگ سکتے تھے‘ لیکن چند بلین ڈالر پہ اکتفا کیا اور F16 کا مسئلہ آیا تو ہم نے کہا کہ با غیرت قوم ہیں، جہاز لیں گے تو اُن کی قیمت ادا کریں گے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اِس بے تُکی غیرت کے اظہار پہ امریکی بھی ششدر رہ گئے۔ ہمیں تقاضا تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ افغانستان میں مدد چاہتے ہو تو F16 مفت میں دو‘ لیکن جو کچھ ملا جنرل ضیاء الحق اُسی پہ خوش ہوئے۔ اُن کی عالمی تنہائی ختم ہو رہی تھی اور کچھ پیسے بھی خزانے میں آ رہے تھے ۔ اِسی کو انہوں نے بہت سمجھا۔
جنرل ضیاء الحق کے حمایتی البتہ یہ کہتے ہیں کہ افغان جہاد کی آڑ میں ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا۔ یہ کامیابی ضرور تھی لیکن اِس سے ہمیں کون سے سُرخاب کے پَر لگ گئے۔ ایک ہاتھ میں ایٹم بم دوسرے میں کشکول اور کشکول ایسا کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ کاش ایٹم بم کے ساتھ ساتھ ہمارے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے لیکن اُن میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی سستا سودا کیا۔ افغانستان میں دوبارہ خدمت کے عوض پھر کچھ پیسے ملے اور کچھ فوجی امداد‘ لیکن نہ جنرل ضیاء الحق ملکی قرضے معاف کرا سکے نہ جنرل مشرف۔ سٹاف کالج کوئٹہ میں‘ جہاں عسکری امور پہ کورسز چلتے ہیں‘ وہاں ایک مضمون خدمت کی صحیح قیمت لگانے کا بھی ہونا چاہیے۔ کسی نہ کسی بہانے خدمت ہماری جاری رہے گی۔ کچھ وصولی تو ڈھنگ کی کرا لیا کریں۔
پہلی گلف جنگ میں جب صدام حسین نے کویت پہ حملہ کیا تھا تو امریکہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے مصر کے صدر حسنی مبارک نے یہ شرط عائد کی کہ سات بلین ڈالر کا قرض جو اُنہوں نے امریکہ کو ادا کرنا ہے وہ ختم کیا جائے۔ امریکہ نے شرط مان لی اور دیگر امداد کا بھی وعدہ کیا۔ ہم اُسی سے کچھ سیکھ جاتے۔ اس کی بجائے جب F16 پورے طور پہ نہ دئیے گئے تو صدر کلنٹن کے دور میں امریکہ نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے رُکے ہوئے پیسے واپس کیے جائیں گے۔ کچھ پیسے نقد میں ملے اور کچھ پیسے سویا بین تیل کی شکل میں۔ خدمت گاری کا یہ صلہ تھا۔
پہلے دورۂ سعودی عرب سے عمران خان واپس آئے تو وہی دو ہاتھ اور دو پاؤں کے ساتھ لوٹے۔ اَب حالات قدرے مختلف ہیں، ہمارے نہیں سعودی عرب کے۔ جمال خشوگی کے قتل سے سعودی بادشاہت شدید دباؤ میں ہے۔ شہزادہ محمد کی بلائی گئی ریاض انویسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت کیلئے بڑے بڑے ناموں نے معذرت کر لی تھی۔ بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے سربراہ نہیں آ رہے تھے۔ امریکی خزانہ سیکرٹری نے معذرت کر لی۔ آئی ایم ایف کی پریذیڈنٹ کرسٹین لیگاڈ نے انکار کیا۔ حاضری پُر کرنے کیلئے آخری وقت پر پاکستان کو دعوت دی گئی اور شکر کر کے وزیر اعظم عمران خان عازمِ ریاض ہوئے۔ اَب کی بار لوٹے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کے ساتھ نہیں، سعودیوں نے کچھ دیا بھی۔ ایک بلین ڈالر ایک سال کیلئے ہمارے خزانے میں رکھیں گے اور تین سال کیلئے تیل اُدھار پہ ہمیں مل رہا ہے۔ یعنی ہمیں ادائیگی بعد میں کرنی ہو گی ۔ یہ ٹوٹل پیکج ہے جو وہاں سے ہاتھ پاؤں سمیت وزیر اعظم صاحب لے کر آئے ہیں۔ ہماری مسکینی کا یہ عالم ہے کہ اِس پہ بھی ہم خوش ہیں۔
امریکہ کو چھوڑیں جس پہ سعودی عرب اپنے دفاع اور وجود کیلئے انحصار کرتا ہے۔ کئی امریکی سٹارٹ اَپس ہیں جن میں سعودی عرب نے بے تحاشا انویسٹمنٹ کی ہے ۔ ٹیکسی سروس اوبر کو ہی لے لیں جس میں سعودی عرب نے ساڑھے تین بلین ڈالر انویسٹ کیے ہیں ۔ اور بھی ایسی سٹارٹ اَپس ہیں۔ جاپان کے سافٹ بینک میں سعودی عرب نے پینتالیس بلین ڈالر انویسٹ کیے ہیں۔ پھر بھی اُس کا چیئرمین ریاض کانفرنس سے دور رہا۔ لیکن جب ہمیں بُلاوا آیا تو ہم کیسے دور رہ سکتے تھے۔
پرانے زمانے کی کیا باتیں کریں لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے اَدوار تک اسلامی دُنیا میں ہماری کوئی عزت تھی۔ ہماری بات سُنی جاتی تھی۔ پھر جو سال آئے ہم نے ضائع کر ڈالے۔ پہلے جنرل ضیاء الحق کا تباہ کن دور جس میں پاکستان کی شکل مَسخ ہو کے رہ گئی اور اُس کے بعد دورِ جمہوریت جس میں ملک کا تو کچھ نہ بنا لیکن ہمارے جمہوری لیڈران دُنیا کے امیر ترین اشخاص میں شامل ہو گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا مالی ورثہ باپ کے نام کی زمین اور دو تین بنگلے تھے، ایک لاڑکانہ اور دو کراچی میں۔ نہ اسلام آباد میں کوئی پلاٹ لیا نہ لاہور میں کوئی گھر بنایا۔ اُن کے داما د کو دیکھیے، شوگر ملیں ہی گنیں تو ہاتھ کی اُنگلیاں کم پڑ جائیں۔ کتنی غیر ملکی جائیدادیں ہیں ۔ جاتی امرا مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے شریفوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایک ضبط شدہ کارخانہ اتفاق فاؤنڈری تھی۔ اب پاکستان اور بیرون ملک میں جائیدادوں کی نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔
بل گیٹس کی دولت پہ کوئی حیران نہیں ہوتا۔ وہ اُس کی دماغی صلاحیت کی پیداوار ہے۔ سیلیکون ویلی نوجوان ارب پتیوں سے بھری پڑی ہے۔ لوگ اُن پہ رشک کرتے ہیں کہ ہونہار تھے اور پیسے بنائے۔ ہمارے جمہوری لیڈروں سے کوئی پوچھے کہ اُن کی کونسی دماغی صلاحیت کی بنا پہ اُن کے دولت کے انبار لگے؟
رونا یہ ہے کہ مانگے تانگے پہ ہی گزارا کرنا ہے تو پیشہ ور بھکاریوں سے ہی پوچھ لیں یا سردار ہیرا سنگھ کے بازار کے رہنے والوں سے۔ کم از کم مانگنے کا اسلوب تو ٹھیک ہو جائے اور خدمت گزاری پہ صحیح قیمت لگے۔ ہلکان ہو کے بھاگے پھرتے ہیں اور نتیجے میں وہی دو ہاتھ اور دو پاؤں۔ اَب ہم کہہ رہے ہیں: چین سے امداد لے کر آئیں گے۔ پہلے وہ معاہدہ تو ٹھیک کر لیں جس کے سبب پاکستانی انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے اور ہماری دُکانیں ہر قسم کے چائنہ مال سے بھری پڑی ہیں۔ وہ ہوتا نہیں تو اورکون سے پہاڑ ہم نے کھودنے ہیں۔