اعظم سواتی صاحب جس حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں وہ بیوقوفی سے بھی آگے ہے۔ پنجابی کا محاوراہے 'چبل مارنا‘ اور یہی کچھ جنابِ سواتی نے کیا ہے۔
اِن سے کوئی پوچھے کہ گائے بھینسوں کا مسئلہ یا قبضے کی شکایت کبھی کسی انسپکٹر جنرل آف پولیس سے کی جاتی ہے، آئی جی پنجاب کا ہو یا اسلام آباد کا؟ ایسے معاملات تھوڑی سی سمجھ رکھنے والے آدمی یا تو پولیس کے پاس لے جاتے ہی نہیں‘ اگر لے بھی جائیں تو تھانوں تک محدود رکھتے ہیں۔ چھوٹی موٹی تکرار تھانے اور ایس ایچ او لیول کی بات ہوتی ہے اور جس طریقے سے ایس ایچ او صاحبان ایسے معاملات کو نمٹا سکتے ہیں وہ شاید عزت مآب سپریم کورٹ بھی نہ کر سکے۔
یہ تو سراسر بیوقوفی ہوئی کہ سواتی صاحب کے فرزندِ ارجمند نے غریب ہمسایوں سے کسی تکرار کے مسئلے پہ آئی جی اسلام آباد کو خط لکھ ڈالا۔ آئی جی صاحب نے ٹھیک کیا، درخواست کو ڈی آئی جی آپریشنز کے پاس بھجوا دیا۔ ڈی آئی جی صاحب نے بھی درست کیا کہ متعلقہ ایس پی کو درخواست مارک کر دی۔ ایس پی صاحب نے متعلقہ تھانے کو درخواست بھیج دی۔ سواتی صاحب تو سمجھدار آدمی ہیں۔ سیاست میں بھی کافی عرصے سے ہیں اور کاروباری تو بہت بڑے ہیں۔ اُن سے زیادہ کسی اور کو کیا معاملہ فہم ہونا چاہیے۔ اپنے کسی کارندے کو تھانے بھیجتے اور ایس ایچ او صاحب سے بات کرتے۔ وہیں معاملہ نمٹ جانا تھا اور میڈیا کی زینت نہ بنتا۔
لیکن سواتی صاحب نے نہ صرف درخواست آئی جی کو دی بلکہ اُس کے بعد بے صبری کے عالم میں آئی جی جان محمد کو فون کرتے رہے۔ جان محمد نے جب فون نہ سُنے تو جنابِ سواتی کی بے صبری اور اُلجھن بڑھتی گئی۔ پھر سیکرٹری داخلہ کو فون کر ڈالا۔ اخبارات میں یہ بات آئی ہے کہ سیکرٹری داخلہ نے بھی کہا کہ آئی جی فون نہیں سُن رہا۔ عقل سے کام لیتے تو معاملے کو یہیں دَبا دیتے۔ انسان کی عزت پہلے اپنے ہاتھ ہوتی ہے اور پھر اوروں کے۔ اپنے ہی ہاتھ سے اپنی عزت کو داؤ پہ لگا لیں تو اوروں نے کیا خیال کرنا ہے۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ جنابِ سواتی نے پھر وہ کیا جس کا اُن کو سوچنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ وہ وزیر اعظم کے نوٹس میں یہ واقعہ لائے اور خبروں کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی کہا کہ وہ بھی اِس واقعے پہ کچھ ایکشن لیں۔ ایک اخبار کی خبر کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بھی وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا۔ بعد میں کسی نے کیا کچھ کہا یا نہیں‘ آئی جی اسلام آباد کی تبدیلی کے آرڈر ہو گئے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ڈی پی او پاکپتن والے واقعے کو۔ اُسی سے پی ٹی آئی والوں کو کچھ سبق سیکھ لینا چاہیے تھا۔ اُنہیں یہ بھی ادراک ہونا چاہیے تھا کہ چیف جسٹس صاحب‘ جن کی نظریں بہت تیز ہیں اور اُن سے کوئی بات چھپی نہیں رہتی‘ اِس واقعے کا نوٹس لیں گے۔ لیکن نہ سواتی کو عقل آئی نہ وزیر اعظم صاحب نے کوئی احتیاط برتی‘ نہ اُن کے ماتحت افسران‘ جن کی ذمہ داری بنتی تھی‘ نے اُن کے ہاتھ روکے۔ پھر وہی ہوا جو اِس صورتحال میں ہونا تھا۔ چیف جسٹس صاحب نے واقعے کا نوٹس لے لیا، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ دونوں کی خوب کلاس لی۔ نہ ایک‘ نہ دوسرے کے پاس جواب تھا۔ انسان کی عقل دَنگ رہ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو کون سمجھائے۔
حکومت کو جو شرمندگی اِس بات پہ ہوئی وہ اپنی جگہ‘ لیکن بنیادی سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جو وزیر اتنی بھی فہم نہ رکھتا ہو کہ گائے بھینسوں اور معمولی قبضوں کی بات آئی جی لیول پہ نہ لے جائے، کیا وہ وزارت کے امور سنبھالنے کے قابل ہے؟ یہ تو ہمارے چکوال کے کسی یونین کونسل ناظم یا تھانوںکے معاملات جاننے والے سے پوچھ لیا ہوتا تو وہاں سے بھی صائب مشورہ آتا کہ ایسا نہ کریں، آپ کی پگڑی اُچھلے گی اور معاملہ اورگمبھیر ہو جائے گا، جیسے ہو گیا ہے۔ کوئی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے پوچھے کہ آپ کو وزیر اعظم کو خط لکھنے کی کیا پڑی تھی؟ ایک لحاظ سے تو چیف منسٹر عثمان بزدار نے پاکپتن کیس کے حوالے سے ٹھیک کیا کہ ڈی پی او اور دوسری طرف اقبال گجر کو اپنے پاس بلا لیا اور معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ صلح صفائی تک معاملہ رہتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ بات تب بگڑی جب ڈی پی او پاکپتن کا رات ایک بجے تبادلہ ہو گیا۔ وہاں سے چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیا اور چیف منسٹر صاحب کے حصے میں بھرپور شرمندگی آئی۔
اعظم سواتی نے بھی یہی کیا، معاملے کو اتنا اونچا لے گئے کہ پیچھے مڑنے اور عزت بچانے کا راستہ نہ رہا۔ کس احمق نے کہا تھا کہ آئی جی کو خط لکھو؟ گائے سے شروع ہونے والے مسئلے میں وزیر اعظم کو اُلجھانا تو بیوقوفی کی انتہا ہے۔ پنجابی کا ایک اور لفظ ہے، ' جَھلِت‘۔ پی ٹی آئی والوں کو پتہ نہیں کس نے سکھایا ہے کہ ایک جَھلِت کی بازگشت ختم نہ ہو تو دوسرے میں کود پڑیں۔ لمبے چوڑے خط لکھنا تو دُور کی بات، نامور وکیل اور اپنے وقت کے اٹارنی جنرل مرحوم شریف الدین پیرزادہ اپنے ہاتھ سے کچھ بھی نہ لکھتے تھے۔ اُن سے کوئی اُن کا ٹیلی فون نمبر پوچھتا تو کاغذ اور قلم آگے کرتے اور پوچھنے والے سے کہتے کہ لکھو۔ پیر زادہ صاحب تو بہت پہنچے ہوئے قانون دان تھے، تھوڑی سی سمجھ رکھنے والے وکیل بھی اپنے ہاتھ سے کچھ نہیں لکھتے۔
اعظم سواتی اور اُن کے بیٹے شکایت آئی جی اسلام آباد کو بھیج رہے ہیں اور وہ بھی کن کے خلاف، وزیرستان کے ایک غریب قبائلی خاندان کے خلاف جو بقول اُن کے سی ڈی اے کی کچھ زمین پہ ناجائز قابض ہے۔ مضحکہ خیز پہلو اِس سارے معاملے کا یہ ہے کہ مبینہ طور پہ وزیر صاحب نے بھی پانچ چھ کنال سی ڈی اے زمین پہ تجاوز کیا ہوا ہے۔ اخبار ی اطلاع کے مطابق وہاں باڑ بھی لگائی ہوئی ہے اور عذر سکیورٹی کا ہے۔ حضور والا، جب آپ خود قابض ہیں تو دوسروں کے قبضے کی کیا بات کرنی؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو بھی معاملے میں ملوث کر دیا۔ ہمارے دوست فواد چوہدری اب وضاحتیں دیتے رہیں گے‘ جیسا کہ پاکپتن والے معاملے میں ہوا کہ تب کے آئی جی پنجاب کلیم امام کو کہنا پڑا کہ ڈی پی او کے خلاف ایکشن ڈسپلن کی خلاف ورزی کی بنا پہ لیا گیا۔ ایسا ہی اب کہا جا رہا ہے کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کمزور اور سست روی کے مرتکب افسر تھے اور اِس بناء پر اُن کا تبادلہ ہوا۔
ملک کو درپیش چیلنجز بہت ہیں لیکن پی ٹی آئی والے اپنی جَھلِتوں سے ہی فارغ نہیں ہو رہے۔ پاکپتن والے معاملے کا نازک پہلو یہ تھا کہ کسی نہ کسی حوالے سے جنابِ وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ کا نام آ رہا تھا۔ لیکن اعظم سواتی کا ایک گائے سے شروع ہونے والا معاملہ مزاحیہ خاکوں کے کسی مجموعے میں شامل ہونے کے قابل ہے۔ میں تو اِس واقعے کی تفصیلات مختلف اخبارات میں پڑھ رہا ہوں اور میری حیرانی بڑھتی جا رہی ہے کہ جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ اُنہیں سمجھ بوجھ رکھنی چاہیے وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
تفتیشِ قبضہ تو بعد میں کی جائے۔ پہلے تو یہ دیکھنا مقصود ہو کہ سواتی صاحب اپنے منصب کے لائق ہیں یا نہیں۔ آئی جی جان محمد اتنے قابل ہیں یا نہیں، وزیر صاحب نے تو اپنی قابلیت بیچ چوراہے ہر گزرنے والے کی نظروں کے سامنے رکھ دی ہے۔ دو سزائیں بنتی ہیں ایک نا جائز قبضے کی، وہ جس نے بھی کیا ہو‘ غریب خاندان نے یا اعظم سواتی نے۔ اُس سے بڑی سزا بے وقوفی کی بنتی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ کسی پہ لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔