اخباری اطلاع ہے کہ چین سے واپسی پر خان صاحب نے اِس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ریاستِ مدینہ کی جستجو کیلئے وہ علمائے کرام اور شیخ العُظام سے قریبی رابطے میں رہیں گے‘ اور اُن کے مفید مشوروں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ گویا خان صاحب کی کیفیت میر تقی میر والی ہے جو اُسی خوبرو نوجوان (لونڈے کا لفظ یہاں اچھا نہیں لگتا) سے دوا لینے گئے جو اُن کی بیماری یا پریشانی کا باعث تھا۔
آج کے مفہوم میں ریاستِ مدینہ کا مطلب ایک جدید ریاست ہے، فرسودہ اور جاہلانہ خیالات سے پاک اور دنیا میں ترقی کے حوالے سے سب سے آگے کھڑی ہوئی۔ ہمارے بیشتر علمائے کرام کے پاس ایسی ریاست کا تصور ہی نہیں‘ نہ کوئی سمجھ۔ اُن سے بات کریں کہ آج کل کے دور میں ریاست کن بنیادوں پہ استوار ہونی چاہیے تو ایسی تاویلیں اور جلیبی جیسے نظریات پیش کریں گے کہ انسان دَنگ رہ جائے۔ خان صاحب اُن سے مشورے کرنے بیٹھیں تو جو ذہن میں رہی سہی کسر ہے وہ بھی پوری ہو جائے۔
علمائے کرام کو فروعی اور فرقہ وارانہ مسائل سے فرصت نہیں۔ ایک مسلک کے علماء ہوں تو پھر بھی کوئی بات ہے۔ یہاں تو مسلک ہی اتنے ہیں کہ آسانی سے گنے نہ جا سکیں۔ ایک مسلک کے مولوی صاحب دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار نہیں۔ وہ اتفاق رائے پہ مبنی تصورِ ریاست کیسے پیش کر سکتے ہیں؟ یہ تو پرانی بات ہے جب 1953ء میں پہلے احمدی فسادات کے بعد منیر انکوائری کمیٹی بیٹھی اور انہوں نے مختلف مسلکوں کے مولوی صاحبان سے سوالات کیے۔ رپورٹ مرتب ہوئی تو اُس میں یہ سُنہری الفاظ تھے کہ کسی ایک مولوی صاحب کی بات مانی جائے تو دیگر تمام مولوی صاحبان خارج از اسلام ہو جاتے ہیں۔ اگر خان صاحب اپنے ارادے پہ قائم رہتے ہیں تو غور کرنے کا مقام ہے کہ وہ منظر کیسا ہو گا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کو دعوت دیتے ہیں اور اُن سے تصورِ ریاست مدینہ پہ بات شروع ہوتی ہے۔ ایسی مضحکہ خیز بحث ہو گی کہ خان صاحب پھر ایسی غلطی نہ دہرائیں۔
دورِ عصر میں ریاستِ مدینہ کا مطلب ہے کہ ایسی آزاد مملکت جس میں کسی قسم کا امتیاز نہ ہو، نہ نسلی نہ مذہب کی بنیاد پر۔ محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر میں ایسی ہی ریاست کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ کتنے کھلے الفاظ میں اُنہوں نے کہا کہ آپ آزاد ہیں، جائیں اپنے مندروں میں، مسجدوں میں، اِس کا کوئی تعلق کاروبارِ ریاست سے نہیں۔ دین ہر ایک کا اپنا اپنا مسئلہ ہے لیکن حکمرانی میں اُس کا دَخل نہیں ہونا چاہیے (یہ الفاظ نہیں مفہوم یہی ہے)۔ لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور ہے۔ جو ایک تقریر بیشتر علمائے کرام کو آگ بگولہ کر دیتی ہے یہی جناح صاحب کی ہے۔ علمائے کرام کو یہ الفاظ سنائیں تو یوں لگتا ہے منہ سے جھاگ اُٹھنے والی ہے۔ یہ تجربہ کبھی آزما لیا جائے کہ ہماری ڈنڈا بردار تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کے ہونہار نوجوانان کو اِس تقریر کا متن سُنایا جائے۔ ختم ہونے سے پہلے اُن کے ہاتھ اپنے مؤثر اور کیل کانٹوں سے لیس ڈنڈوں کی طرف جائیں گے۔
ہمارے ہاں تو اسلامی ریاست کا تصور یہ ہے کہ نیو ائیر نائٹ پر کوئی اکٹھ کرنے کی جرات نہ کرے۔ وقت ضائع کرنے والی کانفرنسیں ہوں جس میں ایسے ایسے موضوعات اُٹھائے جائیں‘ جن کا روزمرہ زندگی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
ریاستِ مدینہ کا مطلب ہے کہ شہر اور دیہات صاف ہوں۔ ایسا ماحول ہو جس میں اِس حکم کو سامنے رکھا جائے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ تعلیم مفت ہو اور سکولوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کا جانا لازمی ٹھہرے۔ پورے ملک میں نصاب ایک ہو۔ خیبر سے کراچی تک ایک ہی نصاب اور ایک ہی طرح کی کتابیں۔ نہ امیروں کیلئے انگلش میڈیم سکول ہوں نہ غریبوں اور لاچاروں کیلئے ایسی درسگاہیں جنہیں ہم مدرسہ کہتے ہیں۔ ہمارے منارہ گاؤں، جو کہ چکوال میں واقع ہے، کے مولانا محمد اکرم مرحوم کہا کرتے تھے کہ یہ کیسے مدرسے ہیں جن میں نہ کوئی سائنسدان‘ نہ انجینئر پیدا ہوتا ہے۔ اُن کی ایک تقریر یو ٹیوب پہ موجود ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ بیشتر مولوی صاحبان اپنی روزی کا بندوبست کر نہیں سکتے، اُنہوں نے اور کیا کرنا ہے؟ اگر وزیر اعظم عمران خان نے ایسے لوگوں سے مشور ہ کرنا ہے تو پھر ریاستِ مدینہ بن گئی۔
تصورِ ریاستِ مدینہ کے کوئی قریب ہے تو مغربی ممالک، جاپان اور چین۔ جو ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں۔ جو خلا میں سیارے بھیجتے ہیں اور خلاؤں کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ ہم مانگے تانگے کے لوگ، کشکول اٹھائے ہوئے اور اگر تیل کی بہتات ہے اور کشکول کی ضرورت نہیں تو پھر بھی مغربی ممالک کے محتاج ہیں۔ ٹینک بھی وہاں سے آنے ہیں، ہوائی جہاز بھی۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز کیلئے ہم بے بس اور لاچار ہیں۔ لیکن دعوے اور بڑھکیں ایسی کہ خدا کی پناہ۔
عراق پہ حملہ ہوتا ہے تو ریاستِ مدینہ کے دعویدار بے بس۔ لیبیا میں انتشار پیدا کیا جاتا ہے تو اسلامی دنیا کچھ کر نہیں پاتی۔ شام میں مغربی ہتھکنڈوں کی وجہ سے خانہ جنگی چھڑتی ہے تو بجائے مثبت کردار ادا کرنے کے ریاستِ مدینہ کے مختلف دعویدار آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ریاستِ مدینہ ایسے نہیں بنتی کہ دورۂ سعودی عرب میں آپ مدینہ پہنچیں تو جوتے اُتار دیں۔ پھر کیمرے آپ کی فوٹو لیں یہ دکھانے کیلئے کہ آپ کتنے عقیدت مند ہیں۔ مزاروں پہ حاضری سے نجات ملتی تو ہم امریکہ، چین اور روس سے کہیں آگے ہوتے‘ کیونکہ جتنے مزار ہماری سرزمین پہ ہیں اور کہیں نہیں۔ محنت نام کی چیز کہاں سے آئے گی؟ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عالمی لیول کی تعلیم اور تحقیق کب پیدا ہو گی؟ ریاستِ مدینہ کا مطلب ہے کہ تعلیم عام ہو... سو فیصد خواندگی کے بغیر تصورِ ریاستِ مدینہ ناممکن ہے۔ کوئی بھوکا نہ سوئے، طب کی سہولت ہر ایک کی پہنچ میں ہو۔ جہاں غربت ختم نہ ہو کیونکہ مکمل غربت ختم کہیں نہیں ہوئی لیکن اونچ نیچ کا اتنا فرق تو نہ ہو۔ ریاستِ مدینہ میں تو ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں چل سکتیں جن میں اتنے بڑے اور عالیشان گھر ہوں اور غریبوں کے سر کے اوپر چھت نہ ہو۔
لیکن ریاستِ مدینہ کا تصور وہاں بھی ناممکن ہے جہاں دولت پیدا کرنے کی فراوانی نہ ہو‘ کیونکہ ہسپتال اور سکول پیسے کے بغیر نہیں بن سکتے اور ایک جاہل معاشرہ جہاں نہ تعلیم ہو نہ تحقیق وہاں دولت کے مواقع بھی محدود ہی رہتے ہیں۔
ایک تصورِ قدیم میں ہم گم صُم ہیں۔ آج کے حالات کے تقاضوں سے نا بلد اور بے خبر۔ ہمارے جیسے معاشروں میں شرعی بحثیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہم نے ترقی کیا کرنی ہے؟ محرم ہو آدھا ملک بند۔ رمضان ہو تو جس قوم کو کام سے ویسے ہی چڑ ہے مکمل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔
علم کی شمع ایک ہی قسم کی ہوتی ہے۔ علم یہودیوں کے لئے بھی وہی جو عیسائیوں اور مسلمانوں کیلئے۔ ریاضی اور طبیعات کے فارمولے مذہب کی بنیاد پہ تقسیم یا استوار نہیں ہوتے۔ علم کی شمع ایک وقت میں یونانیوں کے ہاتھ میں تھی۔ جس علم سے ہم آشنا ہیں اُس کی بنیادیں یونان میں رکھی گئیں۔ یہ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ پھر کچھ عرصے کیلئے علم کی شمع مسلمان ہاتھوں میں آئی جب عباسیوں کا بغداد دنیا کا محور تھا۔ پھر یہ کیفیت بدل گئی اور علم کی شمع مغربی ہاتھوں میں منتقل ہو گئی اور وہاں سے اب تک نہیں لوٹی۔ جاپان اور چین ترقی کی راہ پہ تبھی گامزن ہوئے جب اُسی علم کی شمع سے استفادہ لینے کیلئے کوشاں ہوئے۔ چینی سیار ے جو خلا میں جاتے ہیں‘ وہ وہی طبیعات کے فارمولے استعمال کرتے ہیں‘ جو امریکی سائنسدانوں کے کام آتے ہیں۔ ہمارا اِس علم کی شمع سے لینا دینا کچھ نہیں۔ جاہل ہونا تو ایک چیز ہے لیکن ہمارا سانحہ ہے کہ ہم اپنی جہالت میں خوش ہیں۔ اور اِس سے نکلنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہم دیگر معاملات اور بحثوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔ خان صاحب پہ قربان جائیں کہ اِسی تاریکی اورکنفیوژن سے استفادہ لینا چاہتے ہیں۔