مولوی صاحبان کے پاس دوچیزیں تھیں ‘لاؤڈسپیکر اور مخصوص تنگ نظری ۔ اقتدار کے قریب وہ بھٹکے نہیں ۔ پاکستان کی تقدیر میں جو بڑے فیصلے ہوئے انگریزی دانوں نے کیے۔ پاکستان موومنٹ بھی اُنہوں نے چلائی اورنئی ریاست جب معرضِ وجود میں آئی تو اُس کے خدوخال بھی انگریزی تعلیم سے آراستہ لیڈران نے ترتیب دئیے۔ جناح صاحب روشن خیال انسان تھے ۔ اُنہوں نے اپنے آپ کوسیکولر کبھی نہ کہا لیکن جیسا کہ اُن کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر واضح کرتی ہے اُن کے سیاسی افکارسیکولر تھے ۔ وہ زندہ رہتے توقرار دادِ مقاصدجیسا ڈاکومنٹ آئین ساز اسمبلی میں کبھی پیش نہ ہوتا۔ چہ جائیکہ وہ پاس ہوتا اوراُس کے اثرات پاکستان کی تاریخ پہ ہوتے ۔ جو محافظانِ دین اِس امر پہ خوشی کااظہار کرتے ہیں کہ قراردادِ مقاصد اب آئین کا حصہ ہے بھول جاتے ہیں کہ قرار داد ِ مقاصد کے حق میں سب سے مؤثر اورمدلل تقریر آئین ساز اسمبلی میں سرظفر اللہ خان کی تھی ۔ سرظفر اللہ خان کا تعلق احمد ی مسلک سے تھا۔ محافظانِ منبر اگر سوچ کی یکسانیت رکھتے ہوں توقراردادِ مقاصد کو اسی بنا پہ اُنہیں مسترد کردینا چاہیے کہ اُس کے حق میں ایک احمد ی نے کتنے پُراَثردلائل دئیے ۔ ہندوممبرانِ آئین ساز اسمبلی نے اُس بحث میں جناح صاحب کا حوالہ دیا کہ اُن کے ہوتے ہوئے ایسی قرارد اد کبھی نہ پیش ہوتی۔ ظاہر ہے اُن کی چیخ وپکار بہرے کانوں پہ پڑی ۔ جناح صاحب کی وفات سے لے کر جنرل ایوب خان کے مارشل لا تک تمام سیاسی اقدامات انگریزی دانوں کے تھے۔ پاکستان اگر امریکہ نواز دفاعی معاہدوں میں گیا‘ تووہ فیصلہ بھی انگریزی دانوں کاتھا۔
لیاقت علی خان کی موت کے بعد فیصلہ کن سیاسی طاقت چار ہاتھوں میں رہی : گورنر جنرل غلام محمد ‘ بیوروکریٹ چوہدری محمد علی ‘ ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا‘ جو بعد میں صدر جمہوریہ بن گئے اور جنرل ایوب خان جوفوج کی کمان کے ساتھ ساتھ وزیردفاع بھی بنادئیے گئے (اُ ن ابتدائی سالوں کے بارے میں ڈاکٹر ناظر محمود کاانتہائی عمدہ مضمون ایک انگریزی معاصرمیں چھپا ہے)۔ یہ سب انگریزی دان تھے اوراگر 1956ء کے آئین میں اسلام کا ذکر بہتات سے ہوا تو اُس کی وجہ چوہدری محمد علی تھے‘ جن کے چہرے پہ ڈاڑھی تونہ تھی لیکن اندر چھپی داڑھی بہت لمبی تھی ۔ اس دوران مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نعرے لگاتے رہے ‘لیکن اُن کے پاس سیاسی طاقت نہ تھی۔ 1953ء کی احمدیہ مخالف تحریک بظاہر تو مولویوں نے چلائی ‘لیکن پیچھے پنجاب کے چیف منسٹر میاں ممتاز محمد خان دولتانہ تھے‘ جن سے بڑا انگریزی دان اُس زمانے میں کوئی نہ تھا۔ لائبریری اُن کی وسیع تھی اور مغربی کلاسیکی موسیقی کابھی اُنہیں شوق تھا‘ لیکن پاکستان کے انگریزی دانوں کا المیہ رہاہے کہ باہر سے روشن خیال بھی لگتے ہوں تواندر سے قدامت پسند ہی نکلے۔ اس زمرے میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی لے لیجئے۔ انگریزی دان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو پروگریسیو کے طورپہ بھی پیش کرتے تھے ۔ سوشلزم کا نعرہ اُنہوں نے عام کیا ‘ لیکن جب امتحان آیا تو مصلحت کے تابع اُنہوں نے مذہب سے کھیلنے کی کوشش کی اِس خیال سے کہ ہمیشہ کے لئے اسلام کے ہیرو مانے جائیں گے ۔ اسلامی ہیرو اُنہوں نے کیا بننا تھا یا اُنہیں کون تسلیم کرتا ‘ جب 1977ء میں الیکشن دھاندلی کے نام پہ اُن کے خلاف تحریک اُٹھی تواُس کی قیادت نام نہاد اسلام پسند قوتیں کررہی تھیں‘پھر جب اُس تحریک کی پاداش میں اُن کی حکومت کو اُلٹایا گیا اورفوج نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو نئے بندوبست کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اپنا منشور ہی اسلام کو بنایا۔ اپنی اسلامائزیشن پالیسی کے تحت اُنہوں نے ایسے ایسے اقدامات کئے کہ پاکستان کی ہیئت تبدیل ہوکے رہ گئی ۔افغانستان میں شورش برپا ہوئی تو موقع کو غنیمت جان کے جنرل ضیا الحق اُس میں کود پڑے۔ حاصل پاکستان نے کیا کرنا تھا‘ اس چھلانگ سے پاکستان افغان ر نگوں میں ایسا رنگا گیا کہ اُس کے اثرات چہرے سے آج تک نہیں دُھل سکے ۔
کہنے کا مطلب یہ کہ انگریزی دان حکمرانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے پاکستان ایک پروگریسیوملک ہونے کی بجائے قدامت پسندی کی ہواؤں کا شکار ہوتاگیا۔ جو فتنے اور فساد ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ کسی خلا میں پیدا نہیں ہوئے ۔ یہ ایک تسلسل ہے جو کمزور شروعات سے اُٹھ کر انگریزی دانوں کی نالائقیوں کی وجہ سے زور پکڑتاگیا۔ اَب حالت یہ ہے کہ ٹیڑھے مسائل پہ کھل کے بات بھی نہیں کی جاسکتی ۔ معنی بیان کرنا ہو تو گول مول اندازسے کرنا پڑتاہے۔ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنا لازمی ہوچکاہے اس ڈر سے کہ کہیں سے فتویٰ نہ لگ جائے اورخوامخواہ کی آگ نہ بھڑک اُٹھے ۔ حالیہ شورش میں بھی ‘ جس میں ملک کی بیشترسڑکیں تین دن بند رہیں ‘ مخصوص مسلک کے مولوی صاحبان نے کوئی اتنا بڑا حملہ نہ کیا جتنا کہ حکومت نے انجانے خوف سے پسپائی اختیار کی۔ حکومت کن ہاتھوں میں ہے ؟انگریزی دانوں کے ‘کیونکہ ہر ادارے کی قیادت وہ کررہے ہیں‘ سیاست اورنوکر شاہی سے لے کر عسکری اداروں تک ۔ ہمت تو دور کی بات ہے ‘ صحیح لائحہ عمل بھی اختیار نہ کرسکے ۔ بجائے اس کے کہ واقعات کی نوعیت پہ غور کرتے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے مولوی صاحبان سے مشورہ کریں گے ۔ یوں تو وزیراعظم صاحب برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ‘ لیکن دیکھاجائے تو چکوال کے کئی ہمارے دوست ہیں ‘جوایچی سن کالج لاہو رکے پڑھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اُن کو دیکھ کر گمان ہوتاہے کہ ایچی سن کالج اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکا‘ اِسی طرح کبھی کبھی وزیراعظم عمران خان صاحب کے بارے میں خیال اُبھرتاہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی اُن کا کچھ زیادہ بگاڑ نہیں سکی ۔
عمران خان کو اپنی اسلام پسندی کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ۔ مدینہ منورہ میں قدم رکھتے وقت وہ جوتا پہنتے ہیں یا نہیں سب جانتے ہیں؛حتیٰ کہ اُن کے ناقدین بھی کہ وہ ایک اسلام پسندقسم کے آدمی ہیں ۔ اُن کے کزن حفیظ اللہ نیازی جو اب اُن سے منحرف ہیں‘ مشہورڈنڈا بردار تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کے سُرخیلوں میں ہوتے تھے ۔ جب پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی گئی تو شائبہ ہوتا تھا کہ اسلامی سوچ رکھنے والوں کا اس میں بہت اثر ہے ‘ لہٰذا جو ہمارے معاشرے میں نازک معاملات سمجھے جاتے ہیں اُن میں کم ازکم عمران خان کو کسی دفاعی پوزیشن پہ جانے کی ضرورت نہیں ۔ اُن پہ وہ فتوے نہیں لگ سکتے جو کہ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی اوراُس کی قیادت پہ لگتے تھے ‘ لیکن اس کے باوجود دیکھا جائے ‘تو عمران خان ڈرے ڈرے پھر رہے ہیں کہ پتا نہیں یہ کریں گے تو کیا ہوجائے گا ۔ اُن کو دیکھ کے اُن کے نیچے لوگ بھی طرح طرح کی بے تُکی باتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ شہر یارآفریدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ہوامیں اُڑتے ہوئے پرندوں کو بھی پتا ہے کہ حالیہ شورش کی قیادت کون کررہے تھے اوربغاوت پہ اُکسانے کی تاویلیں کون دے رہاتھا ‘لیکن آفریدی صاحب کہتے ہیں کہ شورش میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکن شامل تھے ۔
بات ایک شورش کی نہیں ‘ان سے جیسا نمٹا گیا یا سچ تو یہ ہے کہ نہ نمٹا گیا اُ س سے یہ تاثر اُبھرتاہے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں تو آگئی‘ لیکن اس کے پاس زیادہ دانے نہیں ۔بے عملی کا میدان پاکستان میں سجا ہواہے اورہم سیکھنے جارہے ہیں چین سے ۔جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو چین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا ۔کہیں اوردیکھنے کی بجائے ہمیں اندر جھانکنے کی ضرورت ہے ۔ ادارے اورقوانین ہم نے نہیں بنائے‘ انگریز ہمیں دے کے گئے تھے۔ ایسے ہی قوانین اور اداروں کی وجہ سے ملائیشیا اورسنگاپور ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے ۔ ہانگ کانگ نے ترقی کی تو انگریزکی وراثت کی بنیادپر ۔ ہم ہیں کہ اپنا تو کچھ تھا نہیں‘ جو وراثت میں ملا اُسے بربادکرتے گئے ۔ چین ہمیں کچھ نہیں سکھا سکتا ۔ نہ یہاں کوئی لانگ مارچ ہوئی ‘نہ یہاں کوئی چیئرمین ماؤ ہے ۔ ہم نے سیکھنا ہے تو اپنی بربادیوں سے ۔