بہت عرصے بعد ملک میں سیاسی استحکام کی اُمید پیدا ہوئی ہے، وہ بھی دیرپا بنیادوں پر۔ یہ صرف اس لئے ممکن ہوا ہے کہ کئی دہائیوں بعد منتخب حکومت اور عسکری ادارے ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ اِن میں کوئی دراڑ نہیں ، کسی بھی بات پہ اختلاف نہیں۔
اِسی استحکام اور ہم آہنگی کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر برپا ہونے والی شورش پہ بہ آسانی قابو پا لیا گیا۔ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کے طول و عرض میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ لگتا تھا‘ ایک مخصوص طبقے کے مولوی صاحبان کی دھمکیوں کے سامنے ریاست بے بس ہو گئی ہے۔ پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ نہ صرف اداروں کو للکارا گیا بلکہ باقاعدہ معاشرے میں فتنے کی دعوت دی گئی۔ لیکن اُس خوفناک صورتحال کے کچھ دِن بعد ہی جب اُسی طبقے کے مولوی صاحبان نے احتجاج کی کال دی تو حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور نہ صرف اُس طبقے کے سرکردہ مولوی صاحبان کو اُٹھا لیا گیا بلکہ احتجاج کی کوشش کو مکمل طور پہ کچلا گیا۔
یہ تب ہی ممکن ہوا جب منتخب حکومت اور مقتدر ادارے ایک ساتھ کھڑے تھے ۔ جس سے یہ عندیہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ ایسی ہم آہنگی برقرار رہی تو ملک میں دیرپا سیاسی استحکام کی اُمید باندھی جا سکتی ہے ۔ حالیہ دہائیوں میں ہمارا المیہ ہی یہ رہا کہ منتخب حکومتیں ایک طرف دیکھتی تھیں اور مقتدر ادارے دوسری طرف۔ میاں نواز شریف تو اِس اَمر کا خاص ہنر رکھتے تھے کہ مقتدر اداروں سے اُن کی ہمیشہ بگڑ کے رہے۔ وہ کسی فوجی سربراہ کے ساتھ قدم ملا کے کبھی نہ چل سکے ۔ جو سربراہ آیا کسی نہ کسی بنا پہ اُس سے جنگ چھیڑ دیتے تھے ۔ وہ اِس بات پہ بھی مطمئن ہوتے کہ اُن کے پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان جیسے کسی نہ کسی وجہ سے مقتدر اداروں کے حوالے سے آگ بھڑکائے رکھتے ۔ پرویز رشید اِس فن کے ماہر تھے ۔ مزہ تو تب آتا کہ وہ اَب بھی ویسی ہی مشق جاری رکھتے ۔ لیکن جہاں رائیونڈ کے شیروں کی دھاڑ سنائی نہیں دے رہی‘ وہاں یہ بھی جانچنا مشکل ہے کہ پرویز رشید اور اُن جیسے کہاں گم ہو گئے ہیں۔
1985ء کے دسمبر‘ جب جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا‘ سے لے کر آج تک سول اداروں اور جنہیں ہم مقتدر ادارے کہتے ہیں کے درمیان جنگ نہیں تو ٹینشن کسی نہ کسی وجہ سے برقرار رہی ۔ ایجنسیوں نے گملوں میں رکھ کر نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کی آبیاری کی اور سیاسی طاقت بخشی تھی۔ لیکن گملوں میں پیدا ہونے والے پودے ہی سب سے بڑے جنگجو نکلے۔ جس کی وجہ سے سیاسی استحکام پنپ نہ سکا اور اصلی یا نقلی دانشوروں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ سول ملٹری تعلقات ہی پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے وہ طویل باب یکایک ختم ہو گیا ہے ۔ عمران خان میں لاکھ خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن اُن کے دشمن بھی نہیں کہہ سکتے کہ اعتماد کی اُن میں کمی ہے ۔ جہاں نواز شریف کو فوج سے ہمیشہ مسئلہ رہا اور وہ احساس کمتری کے شکار رہے‘ عمران خان کو یہ مسئلہ لاحق نہیں۔ اُنہیں فوج کے حوالے سے کوئی احساس کمتری نہیں اور عسکری سربراہان سے بات کرتے ہیں تو برابری کی بنیادوں پہ۔ نہ ماتھے پہ بل لانے کی اُنہیں ضرورت ہے نہ بے جا اکڑ دکھانے کی۔ اُن کے پھبتیاں کَسنے والے وزرا کا نشانہ نون لیگ ہوتی ہے‘ افواج نہیں ۔ پی ٹی آئی میں نالائقوں کی کمی نہ ہو گی لیکن خوش آئند بات ہے کہ اِن میں کوئی پرویز رشید یا مشاہد اللہ خان جیسا جنگجو نہیں‘ جو کاغذی چاند ماری پہ ہمیشہ لگے رہیں۔
چند روز قبل جب یوں لگا کہ حکومت نے مخصوص انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں تو ملک کے وسیع حصوں میں ایک مایوسی کی لہر پھیل گئی تھی۔ خاص طور پہ اس بنا پر کہ چین کے دورے پہ روانہ ہونے سے پہلے وزیر اعظم نے بڑی دَبنگ تقریر کی‘ جس کا حاصل تھا کہ انتہا پسندوں کی اس ملک میں کوئی جگہ نہیں‘ لیکن اُس کے فوراً بعد گھٹنے ٹیکنے کا منظر سامنے آیا؛ تاہم حالیہ واقعات سے اُس کمزوری کے مظاہرے کاحساب چکا دیا گیا ہے۔ روزمرہ زندگی میں ذرہ برابر بھی خلل نہ آیا۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ ہزار خامیوں کے باوجود ہماری ریاست کمزور ریاست نہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کا خطرہ اِن مولویوں سے کہیں زیادہ تھا۔ اُس تنظیم اور اُس کے لیڈران نے شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں میں تقریباً آزاد ریاست قائم کر لی تھی۔ اُس تسلط کو توڑنے کیلئے باقاعدہ جنگ کرنا پڑی‘ لیکن افواج نے چیلنج قبول کیا‘ اور ٹی ٹی پی کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ دہشت گردی کے اثرات اَب بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن 2014ء سے پہلے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا جو زور تھا‘ وہ ٹو ٹ چکا ہے۔ اِس جنگ میں فوجی جوانوں اور افسران نے بے پنا ہ قربانیاں دیں۔ پاکستان ائیر فورس کا بھی مثالی کردار رہا۔ اگر فاٹا میں مذہبی دہشت گردی کا زور تھا تو کراچی میں ایم کیو ایم کی سیکولر دہشت گردی قائم تھی ۔ ہم جیسے لوگ کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم کو شکست دینا آسان کام نہیں لیکن جب رینجرز اور فوج نے تہیہ کیا تو اُس خوفناک تنظیم کو بھی شکست ہوئی۔ یہ سب کو یاد ہو گا کہ جب الطاف حسین ٹی وی پہ تقریر فرماتے تھے تو تمام چینلز مجبور ہوتے کہ اُن کی لمبی تقاریر کی لائیوکوریج کریں۔ اور یہ تو سراسر ناممکن تھا کہ کوئی بہادر صحافی کھلے عام ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بات کرے۔ وہی الطاف حسین آج کہاں ہے؟
اگر اِتنی بڑی چیزیں ہو گئیں، اِتنی بڑی جنگیں ریاستِ پاکستان جیت چکی، تو یہ شر پھیلانے والے کون ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ کوئی گھٹنے ٹیکنے پہ آئے تو چند شرپسند بھی قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ بات عزم اور ہمت کی ہے۔ جب بھی ریاست پیچھے ہٹی تو شر اور فتنہ پھیلانے والوں نے اُس کا فائدہ اُٹھایا۔ لال مسجد واقعے کو ہی دیکھ لیں۔ جب لال مسجد والوں نے مسجد سے ملحقہ علاقوں پہ قبضہ کرنا شروع کیا تو ایس ایچ او آبپارہ حرکت میں آتے تو مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن جب ایکشن لینا تھا تو نہ لیاگیا، جس کے نتیجے میں فتنہ پھیلتا گیا اور بالآخر فوجی آپریشن کرنا پڑا‘ جس کے اپنے نقصانات تھے۔ جو بعد میں ملک میں دہشت گردی کی لہر پھیلی اُس میں لال مسجد آپریشن کا علامتی حصہ بہت تھا۔
سوات میں بھی یہی ہوا تھا۔ پہلے صوفی محمد کو شہ دی گئی تاکہ وہ دوسرے مولویوں کے خلاف کام آئیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ صوفی محمد اپنے بنانے والوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اپنی ذات میں ایک بڑا فتنہ بن گیا۔ پھر سوات میں بھی وہی کرنا پڑا جو کہ لال مسجد والوں کے خلاف ہوا، یعنی فوجی آپریشن۔ ایجنسیوں میں ہمارے سیانے کبھی سبق نہیں سیکھتے۔ چھوٹے چھوٹے مقاصد کیلئے اپنی حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہیں‘ بغیر یہ سوچے کہ اُن کہ عقلمندی کے دیرپا اثرات کیا ہوں گے۔ مسز اندرا گاندھی نے بھی بھنڈراں والا کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا۔ پہلے اُس کا قد بڑھایا تاکہ وہ اَکالی دَل کے خلاف کام آ سکے۔ پھر وہی بھنڈراں والا مصیبت بن گیا اور گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کو حملہ کرنا پڑا۔ اُس کے بعد کے ردِعمل میں مسز گاندھی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایم کیو ایم کو کس نے پذیرائی بخشی وہ ہم جانتے ہیں۔ اُس ہنر مندی کے کیا نتائج نکلے وہ بھی ہم جانتے ہیں۔
لہٰذا کچھ سبق سیکھنے چاہئیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ وہی چیز دہرائی جائے جس کے نتائج ہم کئی بار بھگت چکے ہیں؟ انتہا پسندی جس قسم کی بھی ہو اُس کے سامنے کمزوری دکھانا یا گھٹنے ٹیکنا ایک خطرناک عمل ہے۔ اُس کے کبھی اچھے نتائج نہیں نکلے‘ نہ نکل سکتے ہیں۔ شکر کا مقام ہے اور آئندہ کیلئے نیک شگون کہ اِس بار منتخب حکومت اور دیگر اداروں نے کمزوری نہیں دکھائی۔