ہم جیسے تو عرصۂ دراز سے کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات نارمل ہونے چاہئیں۔ نہ خواہ مخواہ کا پیار نہ خواہ مخواہ کی لڑائی۔ یہ بات ہم جیسے تب کہتے تھے جب محبِ وطن حلقوں میں ایسا کہنا بُرا لگتا تھا۔ لیکن نارمل تعلقات کی خواہش ایک طرف، یہ بار بار کی ہندوستان کو التجا کہ وہ بات چیت شروع کرے‘ اچھی نہیں لگتی۔ ایساکرنے سے وہی جواب مل سکتا ہے جو ہندوستان دے رہا ہے۔ یعنی ہر اشارے کو حقارت سے ٹھکرا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے فرانس اور جرمنی کا حوالہ تو دیا ہے لیکن جن جنگوں سے نڈھال ہو کے فرانس اور جرمنی بہتر تعلقات کی طرف آئے ایسی صورتحال سے ہندوستان اور پاکستان دوچار نہیں ہوئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں بھی ایسی جنگیں برپا کرنی چاہئیں جو یورپ کے میدانوں میں سجی تھیں۔ کہنے کا صرف یہ مطلب کہ حالات کا اپنا جبر ہوتا ہے اور حالات جب ایسے پیدا ہوں گے تو تب ہی ہندوستان اور پاکستان میں بہتری کی توقع کی جا سکے گی۔ محض اعلانات اور نیک خواہشات سے ملکوں کے درمیان بہتری نہیں آتی۔
اِس وقت دونوں ممالک کے درمیان جمود کی صورتحال ہے۔ بہتری کی طرف کہیں سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ انتظار اور صبر کرنے کا وقت ہے ۔ جب صورتحال میں تبدیلی آئی تو جو پہل وزیر اعظم عمران خان کرنا چاہتے ہیں رنگ لا سکے گی ۔ اِس انتظار کے دورانیے میں دونوں ممالک کو اشتعال انگیزی سے پرہیز کرنی چاہیے اور اگر ہندوستان کچھ گرم بات کرتا بھی ہے تو ہم میں اِتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ ہم اسے اِگنور (ignore) کر سکیں۔ ایک اور بات پہ بھی دھیان کی ضرورت ہے ۔ ہماری اقتصادی حالت کمزور ہے ۔ موجودہ ہندوستان کی حکومت میں ایسے شہسواروںکی کمی نہیں جن کی سوچ ہو گی کہ پاکستان مشکلات میں ہے تو اُس کی مشکلات کو بڑھنے دینا چاہیے‘ اور کوئی ایسی چیز نہیں کرنی چاہیے جس سے پاکستان کیلئے آسانیاں پیدا ہوں ۔ اگر یہ ہندوستانی سوچ ہے تو یہ ہندوستانی حکمران حلقوں کی مرضی۔ ہمیں اپنے معاملات پہ دھیان دینا چاہیے اور ہر دوسرے دن ہندوستان کی جانب اَمن کی فاختائیں نہیں اڑانی چاہئیں۔
ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ہندوستان کے معاملے میں پاکستان میں یکسوئی نہیں دیکھی گئی۔ اِس مسئلے پر سویلین اور عسکری حکام کی مختلف سوچیں رہی ہیں۔ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے سے یہ اُمید لگائی جا سکتی ہے کہ ماضی کی یہ صورتحال بدل جائے گی۔ وزیر اعظم عسکری اداروں سے اِس مسئلے پہ بات کر سکتے ہیں اور اُنہیں اپنی سوچ کی طرف قائل کر سکتے ہیں۔ اوروں پہ غداری اور نرمی کا الزام لگے، عمران خان اُس سے مبرّا ہیں۔ اُنہیں کہیں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ یا کسی کی آشیر باد لینے کی ضرورت نہیں ۔ اِس حوالے سے پاکستان میں یہ نئی صورتحال ہے ۔ یہ نہیں ہو گا کہ وزیر اعظم اگر ایک قدم بڑھانا چاہیں تو کوئی اُن کی ٹانگ کھینچے ۔ لیکن اِس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ موسم کے آثار دیکھے بغیر عمران خان ہر وقت ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دیتے پھریں۔ بین الاقوامی اُمور میں ایسی اپروچ جچتی نہیں۔ دونوں اطراف سے خواہش ہو تو ہی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں حکمران بی جے پی والے ویسے ہی پاکستان کے ویری ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہر پاکستانی دعوت کو کمزوری کی نشانی سمجھا جائے۔
ایک سوال کا جواب البتہ پاکستان کو یکطرفہ ہی دینا پڑے گا۔ وہ یہ کہ آیا موجودہ عالمی تناظر میں جنگجو تنظیموں کا وجود ہمارے فائدے میں ہے یا نہیں؟ ہندوستان والے جو بھی اپنے منہ سے شعلے برسائیں اورجو صورتحال بھی مقبوضہ کشمیر میں ہو اِس بات کی طرف اَب ہمیں مائل ہونا چاہیے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں نِرا گھاٹے کا سودا ہے۔ جنگجویانہ طرز عمل تب صائب سمجھا جاتا ہے جب اُس کے سامنے واضح مقاصد ہوں۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد کا مقصد کیا ہے ؟ ہم اُن سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ تو کوئی منطق نہ ہوئی کہ جنگجویانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر میں پانچ سے سات لاکھ فوج تعینات کرنا پڑتی ہے ۔ اِس استدعا کو مان لیا جائے تو پھر بھی وہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ اِس سے ہمیں حاصل کیا ہو رہا ہے؟ یا تو ہم کہیں کہ بزور شمشیر کشمیر کو آزاد کرایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اَب تو تمام اطراف سے یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ ہم نے جنگیں لڑیں لیکن کشمیر نے آزاد کیا ہونا تھا، ہمارا کشمیر پہ مؤقف کمزور ہوتا گیا اور کشمیریوں کی مشکلات بڑھتی گئیں۔ اَب بھی جو لہرِ آزادی مقبوضہ وادی میں پائی جاتی ہے اُس سے حاصل کچھ نہیں ہو رہا۔ مسلمان آبادی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور نوجوان بڑی تعداد میں شہید ہو رہے ہیں۔ جنگجویانہ روشیں اِس صورتحال کا حل نہیں بلکہ اِسے مزید بگاڑ رہی ہیں۔
کشمیریوں کے حق میں آواز اُٹھانا اور چیز ہے اور یہ ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔ مقبوضہ وادی میں بربریت رائج ہو تو ہمارا چُپ رہنا جرم بنتا ہے۔ لیکن کوئی شائبہ ہو کہ جنگجویانہ تنظیموں کو پاکستان میں پذیرائی بخشی جا رہی ہے، یہ ایسی بات ہے جو ہمارے گلے پڑتی ہے ۔ عالمی نگاہیں ہندوستانی بربریت سے مڑ کر کہیں اور جا پہنچتی ہیں ۔ لہٰذا یہ اَب سوچنے کا مقام ہے کہ آیا اِن تنظیموں کو ایسے ہی رہنے دیا جانا چاہیے یا اِن کے سامنے ہاتھ جوڑ کے اپیل کی جائے کہ وہ بندوق چھوڑ کے انسانی خدمت کے وہ راستے اپنائیں جس میں پہلے بھی کم ازکم لشکر طیبہ کی خدمات جلی حروف میں لکھی جا سکتی ہیں۔
پاکستان لبنان نہیں اور لشکر طیبہ اور جیش محمد حزب اللہ نہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل سے ٹکر لے کر ایک سے زیادہ بار کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ صورتحال یہاں موجود نہیں۔ اِس لئے نئی سوچ کی ضرورت ہے ۔ جنگجویانہ روشیں یا اُن کے شائبے کو ختم کر کے ہم ہندوستان پہ کوئی مہربانی نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ ہماری اپنی بہتری اِسی میں ہے ۔ چین بھی ایک زمانے میں بہت ساری نام نہاد آزادی کی تحریکوں کی امداد کرتا تھا۔ لیکن جب ڈنگ یاؤ پنگ کی قیادت میں چین ترقی کے نئے راستوں پہ گامزن ہوا تو ایسی سرگرمیاں یکسر بند کر دی گئیں۔
ہمارے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ تاریخ کے اوراق نئے سرے سے نہیں لکھے جا سکتے ۔ لیکن اَب سمجھنے کا وقت آ گیا ہے کہ خواہ مخواہ دشمنی کا رویہ جو ہمارے بعض حلقوں میں پایا جاتا ہے اُس سے کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اور ہمارے اُن سے مسائل رہیں گے ۔ تعلقات نارمل ہوں تو دونوں ممالک کے فائدے میں ہے‘ لیکن ہمارا فائدہ ہندوستان سے زیادہ ہے ۔ وہ تو ایک معاشی طاقت بن چکا ہے اور ہمارے بغیر بھی اُس کا گزارہ چل سکتا ہے۔ ہماری مشکلات اور قسم کی ہیں۔ ہمیں اَمن کی زیادہ ضرورت ہے۔ کتنے محاذوں پہ ہم پہرہ دے سکتے ہیں؟ افغانستان کے بارڈر پہ بھی ہماری فوجیں تعینات ہیں اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول بھی گرم ہے۔ اتنا لمبا ٹینشن کا شکار بارڈر شمالی اور جنوبی کوریا کا ہے یا ہندوستان اور پاکستان کا ۔ بارڈر زیادہ کھلنا چاہیے ۔ آمدورفت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اِس میں کشمیریوں کا بھی فائدہ ہے ۔ لائن آف کنٹرول ایک سافٹ بارڈر بنے گا تو کشمیریوں کی تکالیف میں کمی آئے گی ۔ دو سو سال بعد کیا ہوتا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ لیکن فی الحال کشمیریوں کے لئے آسانیوں کا یہی واحد راستہ ہے۔
مظفر آباد سری نگر روٹ زیادہ کھلنا چاہیے ۔ سندھ اور راجستھان کے درمیان روابط بڑھنے چاہئیں ۔ واہگہ اٹاری میں اتنا کچھ ہو سکتا ہے کہ لاہور کی معیشت بدل جائے ۔ تھوڑا سا بارڈر کھلے تو اِتنے سکھ لاہور آئیں کہ لاہور کے ہوٹل کم پڑ جائیں ۔ مذہبی ٹورازم اتنی بڑھ سکتی ہے کہ ہم ہینڈل نہ کر سکیں ۔ اِس سے کیا ہماری بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں گی ؟ کیا ہم اِتنا ناتواں ملک ہیں؟ کیا سکھ اور ہندو آئیں گے اور پہاڑوں اور وادیوں میں سے گزرتے ہوئے ہمارے ایٹمی ہتھیار چُرا کے لے جائیں گے؟ ہمیں اپنے پہ بھروسہ کرنا چاہیے ۔ ماضی کی باتیں ماضی میں رہیں۔ آگے کو دیکھنا چاہیے اور اپنے پہ اعتماد کرتے ہوئے فرسُودہ خیالات سے آزادی حاصل کرنی چاہیے۔