"AYA" (space) message & send to 7575

اچھی نیت سے آگے بھی کچھ اور

پچھلے اتوار وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیارت کا موقع ملا۔ میٹنگ ہمارے دوست DGPR پنجاب راؤ امجد نے ارینج کی تھی ۔ میں نے کہا: رہنے دیں ،وزیراعلیٰ صاحب مصروف آدمی ہیں، لیکن اصرار ہوا تو اچھا موقع جانا نئے پنجاب کے بندوبست کو قریب سے دیکھنے کا۔ 
مین گیٹ پہ ہمارے آنے کی کوئی اطلاع نہ تھی‘ لیکن ضروری چیکنگ کے بعد اندر جانے دیا گیا ۔ سیون کلب کے مین گیٹ پہ بھی کوئی اطلاع نہ تھی۔ چیک کرنے والے پہچان تو گئے لیکن اپنے کاغذوں کی چھان بین کرنے لگے۔ نام موجود نہ تھا۔ میرا بیٹا شہریار میرے ساتھ تھا اور یہ صورتحال دیکھ کر اُس کی ہنسی نہ رُکے ۔ کہنے لگا: بابا یہاں بڑا بندوبست ہے ۔ چیک کرنے والے صاحب نے پریشانی کے عالم میں کہا: سر اندر ذرا فون کر لیں ۔ ہنس کے میں نے کہا ، بلایا مجھے گیا ہے میں کیوں فون کرتا پھروں۔ چند منٹ گزرے تو ہنستے ہوئے میں نے کہا کہ ہم واپس لوٹتے ہیں ۔ بیٹے کی ہنسی بدستور جاری تھی۔ قریب ہی مال پہ جس ہوٹل میں قیام رہتا ہے وہاں پہنچے تو گھبرائے ہوئے ایک افسر کا فون آیا کہ سر کہاں ہیں؟ میں نے کہا: ہماری عزت اتنی نازک نہیں پھر آ جاتے ہیں۔ واپس لوٹے ۔ پھر تو پھرتی سے اندر جانے دیا گیا لیکن گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو کوئی اشارہ کرنے والا نہیں تھا کہ جانا کہاں ہے ۔ ڈرائیور آگے چلتا گیا اور سی ایم کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں کھڑے سنتریوں نے بڑا پُرتپاک استقبال کیا اور قدرے حیرانی میں کہنے لگے کہ سر آج تو چھٹی ہے ، یہاں کوئی نہیں۔ پوچھا کہ چیف منسٹر صاحب کہاں تشریف رکھتے ہوں گے۔ اُنہوں نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ سامنے سیون کلب روڈ میں۔ وہاں کا رُ خ کیا اور چند منٹ بعد زیارت ہو گئی ۔ 
سردار عثمان نہایت خوش مزاج انسان ہیں اور حسِ مزاح بھی رکھتے ہیں ۔ مسکراہٹ اُن کے چہرے پہ بہ آسانی آ جاتی ہے ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد کہا کہ اوپر آسمانوں نے آپ کو موقع دیا ہے اور آپ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ گو اُن کے والد صاحب پہلے ایم پی اے رہے تھے‘ وہ خود پہلی بار ایم پی اے بنے اور بنتے ہی چیف منسٹر چن لئے گئے۔ یہ عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ۔ میں نے کہا: چند گزارشات ہیں۔ ایک تو جس صوبے کی حکمرانی آپ کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اُسے پلاسٹک شاپروں کی لعنت سے نجات دلا دیں ۔ فوراً بولے: یہ تو چند دنوں کی بات ہے ، بس اگلے ہفتے یہ نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا ۔ میں نے کہا: وزیر اعظم کو بھی انفارم کر دیں ۔ اُنہوں نے کہا: اِس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ حکم یہاں سے ہو سکتا ہے ۔ میں نے کہا: اچھی بات ہو گی کہ وزیر اعظم کے نوٹس میں آئے کہ آپ کو ماحولیات کا کتنا خیال ہے اور ساتھ ہی اُن سے یہ استدعا کریں کہ اسلام آباد کو بھی اِس لعنت سے چھٹکارا دلا دیں۔ اُنہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
دوسرا میں نے کہا: پنجاب بھر میں محکمہ جنگلات اور ہائی وے کو ہدایت جاری ہو جائے کہ یوکلپٹس نامی موذی درخت آئندہ کہیں بھی نہ لگایا جائے۔ اُنہوں نے اقرار کیا کہ پنجاب کی زمین کیلئے یہ درخت موزوں نہیں ، بہت پانی پیتا ہے ۔ میں نے کہا: اِس کے ساتھ ہی ایک اور جھاڑی ہے کونوکارپس (conocarpus) جو کہ اپنی تیز بڑھوتی کی وجہ سے محکمہ جنگلات اور ہائی وے کا نیا پسندیدہ درخت بن چکا ہے ۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا یہ جھاڑی بھی مضر صحت ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں اِس سے بھی الرجیز پیدا ہوتی ہیں اور یہ پودا سمندری ساحل کیلئے موزوں ہے‘ اوپر کے علاقوں کے لئے نہیں۔ اِس کے بارے میں اُنہوں نے کوئی ٹھوس وعدہ نہ کیا۔ (میر ی درخواست ہو گی کہ وہ مشہور رائٹر سلمان رشید کو ملاقات کیلئے وقت دیں اور اُن سے کونوکارپس کے بارے میں کچھ پوچھ لیں )۔
تیسرا میں نے کہا: ایک نئی بیماری اُن تیز دھار لائٹس کی پیدا ہو چکی ہے جو ہر کوئی موٹر سائیکلوں اور موٹر کاروں پہ آج کل لگا رہا ہے ۔ یہ لائٹیں آنکھوںکو پڑتی ہیں اور حادثے کا باعث بنتی ہیں ۔ چیف منسٹر صاحب نے مبہم سا جوا ب دیا۔ 
چوتھا میں نے کہا کہ یکساں نصاب تعلیم کی ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن اِس پہ ہوتا کچھ نہیں۔ آپ اِس پہ ایک ٹاسک فورس بنا دیں اور گو فوری فیصلہ تو نہ ہو سکے گا لیکن کچھ پیش رفت ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم (پتہ نہیں کون سا) کی سربراہی میں اس موضوع پہ ایک کمیٹی بنائی جا چکی ہے۔ یعنی کوئی ٹھوس جواب نہ آیا۔
پانچواں نکتہ اُٹھانے سے پہلے میں نے کچھ یوں تمہید باندھی کہ پاکستان میں دو ہی آزاد اور لبرل قومیں ہیں: بلوچ اور سندھی۔ یہ کھلے ڈلے آدمی ہیں اور تنگ نظری کا شکار نہیں ۔ مزید میں نے کہا کہ نظریہ پاکستان اور اِس قسم کی ملتی جلتی بیماریاں ‘یہ ہم پنجابیوں کو زیادہ لاحق ہیں۔ اِس پہ وہ ہلکے سے مسکرائے لیکن کہا کچھ نہیں۔ میں نے کہا: آپ اگر حدود آرڈیننس کا کچھ کر تو نہیں سکتے لیکن آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ میں نے مثال جام صادق علی کی دی‘ جب وہ 1990ء میں سندھ کے وزیراعلیٰ بنے ۔ جام صادق نے کراچی اور اندرونِ سندھ مخصوص دکانوں کے اتنے پرمٹ جاری کیے کہ مخصوص روحانی ادویات کا حصول سندھ میں کوئی مسئلہ نہ رہا۔ سردار عثمان نے منہ بالکل پکا رکھا اور اِس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ البتہ یہ کہا کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ گیسٹ ہاؤسوں اور دیگر ایسی جگہوں پہ خواہ مخواہ کے چھاپے نہ مارے جائیں۔ میں نے کہا: یہ بھی بڑی بات ہے کیونکہ پولیس کا بس چلے تو اپنے اصلی کام کی بجائے گیسٹ ہاؤسوں اور دیگر ایسی جگہوں پہ چھاپے مارتی رہے۔ 
باتوں باتوں میں اِس اَمر کا تذکرہ ہوا کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت جناب فیاض الحسن چوہان نے تھیٹرز کے بارے میں کچھ اقدام کیا‘ جو چیف منسٹر کے نوٹس میں آتے ہی منسوخ کر دیا گیا۔ گزارش ہے کہ اِس میں چیف منسٹر صاحب غلطی پہ ہیں ۔ وزیر ثقافت نے کسی ڈرامے یا ڈانس پہ پابندی نہیں لگائی گُو میڈیا میں یہ تاثر ضرور پھیلایا گیا کہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ حقائق اِس کے برعکس ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے صرف یہ کیا کہ الحمرا پہ عرصۂ دراز سے قائم چند مخصوص عناصر کی اجارہ داری ختم کر دی۔ اُن مخصوص عناصر کا گہرا تعلق نون لیگ سے ہے اور سالوں سے اُنہوں نے الحمرا کے ڈرامہ ہالز پہ قبضہ کیا ہوا تھا ۔ اُن کی مرضی سے سٹیج ڈرامے لگتے تھے ۔ میری معلومات کے مطابق جناب فیاض الحسن چوہان کو لالچ بھی دی گئی کہ اِس مسئلے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں لیکن وہ کسی چیز کو خاطر میں نہ لائے۔ اِس وجہ سے یہ مخصوص لابی اُن کے خلاف ایکٹو ہو گئی ۔ الحمرا کے ہالوں پہ کسی خاص گروہ کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے اور نئے آرٹسٹوں اور نئے پروڈیوسروں کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ اِس معاملے میں وزیر اطلاعات و ثقافت شاباش کے حقدار ہیں۔ 
بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ ، جمعرات کو چیف منسٹر صاحب نے اپنی پہلی باقاعدہ پریس کانفرنس منعقد کی۔ اُس میں بس کارروائی ڈالتے رہے کہ اتنی زمین واگزار کرائی ، مزید کرائی جائے گی اور پنجاب ہاؤس اسلام آباد کے ضمن میں سرکردہ نون لیگیوں کی جو رقوم واجب الادا ہیں وہ واپس لی جائیں گی۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ اُنہیں ایسا کرنے سے کون روک رہا ہے ؟ نوٹسز بھیجیں اور رقوم واپس کرائیں۔ بات تو عملدرآمد کی ہے‘ اعلان کی توکوئی ضرورت نہیں۔ لیکن یہاں روایت بن چکی ہے کہ دعوے کرتے رہو اور کچھ کرو نہیں۔ پریس کانفرنس میں پلاسٹک شاپرز کا کوئی ذکر نہ تھا‘ نہ مُضر صحت و ماحولیات درختوں کا۔ یہی بات وزیراعظم صاحب کے بارے میں کہی جا سکتی ہے ۔ بول بہت رہے ہیں اور دعوے کرتے رہتے ہیں ۔ عزت اور اقتدار جہاں سے بھی آئے ہوں ، اوپر سے یا کہیں اور سے ، جب اقتدار ہاتھ میں آئے کچھ کرکے دکھانا چاہیے۔ دعوے تو ہم بھی بہت کر سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں