وقت وقت کی بات ہے۔ جب آسیہ بی بی کی بریت سپریم کورٹ سے ہوئی تو مخصوص عناصر کی طرف سے کتنا شور و غوغا اُٹھایا گیا۔ چند جگہوں پہ ہنگامے بھی ہوئے۔ نارمل زندگی دو تین دنوں کیلئے مفلوج ہو کے رہ گئی۔
ایسا اس لئے ہوا کہ حکومت یا جسے ہم ریاست کہتے ہیں تذبذب کا شکار رہی۔ انجانے خوف نے ذہنوں کو گھیرے میں رکھا ہوا تھا۔ اس لئے کہ جو حوصلہ دکھانا چاہیے تھا وہ کہیں نظر نہ آیا اور اِس کا فائدہ مخصوص عناصر نے اُٹھایا۔ اِن کو گویا کھلی چھٹی مل گئی کیونکہ یہ جو اَفراتفری پھیلانا چاہتے تھے اِس میں اُنہیں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی۔ لیکن جب حکومت یا ریاستی اداروں نے سٹینڈ لینے کا فیصلہ کیا‘ اور مخصوص عناصر پہ ہاتھ ڈالا تو دیکھتے ہی دیکھتے شَر اور افراتفری کی فضا یکسر ختم ہو گئی۔ جس سے سبق یہ نکلتا ہے کہ شَر کے سامنے کمزوری دکھانا خطرناک کھیل ہے اور مزید شَر کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
کل اس کیس میں بریت کے خلاف ریویو پٹیشن کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ بینچ کی صدارت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے تھے اور اُن کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل تھے۔ تفصیلی سماعت کے بعد ریویو پٹیشن کو مسترد کر دیا گیا۔ یعنی آسیہ بی بی کے طویل امتحان کا ڈراپ سین مکمل ہوا۔ ریاستی اداروں نے حفاظتی تدابیر تو لے رکھی تھیں‘ لیکن جو افراتفری کا ماحول اور سامان پہلے تھا وہ اَب موجود نہ تھا۔ ریاستی اداروں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ کسی قسم کی گڑبڑ کی گنجائش نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا وہ سماں ہی نہ تھا جس کی وجہ سے افراتفری پھیلانے والوں کو کھلا میدان ملا۔
یہ کیس صرف ایک غریب اور لاچار عورت کے خلاف نہ تھا۔ اِس سے پاکستان کا امیج مجروح ہوا۔ اِس کیس کے حوالے سے ملک کی عزت بحال ہوئی تو سپریم کورٹ کے ہاتھوں۔ بریت کرنے والے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے۔ ریویو پٹیشن کی سماعت نئے چیف جسٹس نے کی۔ دونوں صاحبان نے ملک کی عزت بچا لی۔ اِس حوالے سے ملک کی تاریخ میں یہ اہم فیصلہ تھا اور اِسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ المیہ البتہ یہ رہے گا کہ نیچے سے لے کر اُوپر تک تمام مراحل میں غلطیاں ہوتی رہیں اور بد نصیب عورت کی مصیبتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلی کمزوری اور نا اہلی شیخوپورہ کی مقامی پولیس کی تھی۔ اُس وقت کے ڈی پی او میں ہمت ہوتی تو مناسب تفتیش ہوتی اور آسیہ کے خلاف پرچہ ہی نہ کاٹا جاتا۔ لیکن جب کمزور اور نا اہل لوگ اہم پوسٹوں پہ براجمان ہوں تو ایسی ہی کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں جو مذہب کے نام پہ عجیب جذباتی ماحول بنانے کا فن رکھتے ہیں۔ اِس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مذہبی معاملات کو ہمارے ہاں حساس ہی سمجھا جاتا ہے اور جب ایسی کیفیت پیدا ہو تو متعلقہ حکام عقل اور ہمت سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر وکلا ایسے ماحول میں شدت پیدا کرنے کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔ نچلی عدلیہ کے جج بھی ایسے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں انصاف کے تقاضوں کے ساتھ جو ہوتا ہے‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ریاستِ مدینہ جیسی اصطلاحوں کا استعمال اِتنی آسانی سے کیسے کرتے ہیں؟ بحیثیت مجموعی معاشرے کا طرزِ عمل کچھ اور ہے لیکن دعوے اور زبانی باتیں ہماری کہیں اور جا رہی ہوتی ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا بنیادی تقاضا تو یہ ہے کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو خاص کر کے کسی غریب اور لاچار کے ساتھ۔ انسانوں کی تو دُور کی بات ہے۔ جس معاشرے میں جانوروں کے ساتھ ظلم ہو وہ بھی ریاستِ مدینہ نہیں کہلا سکتی۔ بات تو وہ ہے جو خلیفہ عمر ؓنے کہی کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر کتا بھی بھوکا پھر رہا ہو تو روزِ محشر مجھ سے سوال کیا جائے گا۔ دوسری بات علیؓ ابن ابی طالب کی ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم پہ مبنی حکومت نہیں۔ اِن دو اقوال کو لیا جائے تو پورا اسلام اِن میں سمو جاتا ہے۔ اس معاشرے میں ریاستِ مدینہ کا ذکر تو بیکار کی بات ہے‘ جس میں ظلم کی روایت برقرار رکھی جائے۔ اِس کیس میں سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے اور ریویو پٹیشن کے بارے میں فیصلے سے صاف عیاں ہے کہ بیچاری غریب عورت سے زیادتی ہوئی اور اِس زیادتی میں کتنے ہی طبقات ملوث پائے جاتے ہیں۔ پھر ساہیوال کے سانحے کو ہی لے لیجیے۔ جس معاشرے میں ایسی بربریت سرزد ہو وہ اِس قابل ہے کہ ریاستِ مدینہ کی باتیں کی جائیں؟ ریاستِ مدینہ میں کوئی ایسا واقعہ ہوتا تو خلیفہ وقت موقعہ پہ پہنچتا اور اُس کی تلوار سے مظلوموں کی داد رسی اور انصاف کے تقاضے پورے ہوتے۔ ہماری عجیب ''ریاستِ مدینہ‘‘ ہے کہ جھوٹ پہ جھوٹ بولا جا رہا ہے‘ اور جنہیں منصب عطا ہوئے ہیں‘ وہ بے بس تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
آسیہ کو بھی کس نے پوچھنا تھا۔ ہائی کورٹ سے بھی جب سزا کی توثیق ہو گئی تو سب خاموش ہو کے بیٹھ گئے۔ یہ تو شکر کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ موجود ہے اور اُس میں ایسے جج موجود ہیں جنہوں نے یہ نازک اور حساس فیصلے کیے۔ نہیں تو جہاں اتنا ظلم اور اتنی بے حسی ہے اُس میں ایک اور باب کا اضافہ ہو جاتا تو کسی کی نیند میں کوئی خلل پیدا نہ ہوتا۔
سپریم کورٹ کے ان دو بینچوں نے ہمیں اِس قابل بنایا ہے کہ کم از کم آسیہ کے کیس کی حد تک ہم سر اُٹھا کے چل سکیں۔ ورنہ یہاں ایک غریب آسیہ کیا پورے ملک کو یرغمال بنا لیا گیا تھا اور جسے ہم ریاست کہتے ہیں بالکل بے بس کھڑی تھی۔ یہ بھی ہوا، اور اِس حقیقت سے ہمیں آنکھیں چرانی نہیں چاہئیں کہ شروع شروع میں ریاست کی بے بسی مصلحت کا نتیجہ تھی۔ جب مخصوص عناصر کی طرف سے فیض آباد میں پہلا دھرنا ہوا تو بجائے سخت سٹینڈ کے ریاستی اداروں نے مخصوص عناصر کو شہ دی کیونکہ تب شاید مصلحت یہ تھی کہ نواز شریف کو سبق سکھایا جائے۔ سبق تو شاید وہ سیکھ گئے اور تب کے وزیر قانون کو قربانی کا بکرا بھی بننا پڑا‘ لیکن اُس مصلحت پسندی کا نقصان بہت ہوا۔ مخصوص عناصر کی ہمتیں بڑھ گئیں۔ لیکن چلیں دیر آید دُرست آید۔ اَب ریاستی اداروں کے ارادے درست ہیں اور اسی لئے ریویو پٹیشن کے مسترد ہونے کے بعد بھی کسی افراتفری کی بجائے ملک میں مکمل سکون ہے۔ کوئی گڑ بڑ کہیں نہیں ہوئی۔
بہت سی چیزیں کرنے کو ہیں۔ معاشرے کے مجموعی مزاج میں اَب بھی بہت خرابیاں ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے ہی اصلاح ہو سکے گی۔ آسیہ بی بی کے کیس میں فیصلہ اِسی لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا کیونکہ اِس میں اگر انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں تو اُمیدکی جا سکتی ہے کہ اور معاملات میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو سانحہ ساہیوال کی بہت اہمیت ہے۔ یہ ایسا گھناؤنا واقعہ ہوا ہے کہ اِس میں اگر انصاف نہیں ہوتا تو ہمیشہ کیلئے معاشرے کے چہرے پہ یہ بد نُما داغ رہے گا۔ صحیح راستوں پہ چلنے والی مملکت بننی ہے تو اُس کی شروعات جب تک سانحہ ساہیوال سے نہ ہوں‘ باقی سب باتیں فضول کی ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کی ذمہ داری نہیں۔ وزیر اعظم کیلئے یہ ٹیسٹ کیس ہے اور آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب کیلئے بھی۔ جو ساہیوال میں ہوا ایسا تو کربلا میں ہوا تھا۔ کوئی امام یا اُن کے لواحقین ساہیوال میں نہ تھے لیکن معصوم جانیں تو تھیں۔ اور معصوم جانوں کا لہو بہنا‘ اِسی کو کربلا کہتے ہیں۔