"AYA" (space) message & send to 7575

جہالت کا علاج کیا؟

ہمارے دوست ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے پچھلے دِنوں ایک انگریزی معاصر میں چونکا دینے والا مضمون رقم کیا جس میں سوال اُٹھایا گیا کہ کئی اہم اعتبار سے بنگلہ دیش ہم سے کیسے آگے نکل گیاہے ۔ اعدادوشمار ڈاکٹرصاحب نے ایسے دئیے کہ اُنہیں پڑھ کے دل ودماغ ہل کے رہ جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں آگے ہیں ۔ ہمارے سٹیٹ بینک میں آٹھ نو بلین ڈالر پڑے ہیں اوروہ بھی مانگے تانگے کے ۔ جب سے اقتدار میں آئے ہیں وزیراعظم کو کشکول لیے پھرنے سے فرصت نہیں مل رہی۔ کبھی چین ، کبھی متحد ہ عرب امارات اورکبھی سعودی عر ب ۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر تئیس چوبیس بلین ڈالر ہیں ۔ اُن کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ کپاس ہم اُگاتے تھے اورٹیکسٹائل انڈسٹری بھی یہاں تھی‘ لیکن جیسے اور چیزوں کا بیڑہ غرق کیا ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی نیچے جاتی رہی اورآج نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی برآمدا ت تقریباً تیس بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں جس میں بھاری حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے ۔ 
جب میں فوج میں تھا، بنگالی افسران ہمار ے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔ ہم زبان سے کچھ کہتے تو نہ تھے لیکن روّیوں سے پتا چلتاتھا کہ ہم بنگالیوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ ہم پنجابی اورپٹھان تو عسکری روایات کے پاسبان تھے اور ہمارے روّیوں سے یہی پتا چلتاتھا کہ ہم بنگالیوں کو مارشل ریس نہیں سمجھتے۔ بنگالیوں نے اپنی جنگِ آزادی کس جذبے سے لڑی وہ داستان سُننا ہمیں گوارا نہیںکیونکہ ایسا کرنے سے پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں ۔ 1971ء کے سانحہ کا سارا ملبہ ہم ہندوستان پہ ڈالتے ہیں یہ بھول کے کہ ہماری شکست اورہندوستان کی فتح کے اسباب اُس ماحول سے پیدا ہوئے جو مُکتی با ہنی اور بنگالی قوم نے بنایا تھا ۔ مشرقی پاکستان سراپا بغاوت نہ ہوتا تو ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں کہاں پیشقدمی کرنی تھی ۔ لیکن یہ تلخ باتیں ہیں اوراُنہیں بھلا دینا ہی اچھاہے ۔ 
بہرحال ایک بات اچنبھے سے خالی نہیں ۔ مغربی پاکستان کی آبادی کم تھی اورمشرقی پاکستان کی زیادہ۔ ہم تو یہ پھَبتی کَستے تھے کہ بنگالیوں کو سوائے بچے پیدا کرنے کے اورکچھ آتانہیں ۔ اِس تناظر میں یہ حقیقت کسی کرشمے سے کم نہیں کہ بچے پیدا کرنے میں ہم نے بنگالیوں کو کہیں پیچھے چھوڑدیاہے۔ اَب اللہ کے فضل سے ہماری آبادی بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ ہے ۔ہم بیس بائیس کروڑ ہیں اور بنگلہ دیش والے چودہ پندرہ کروڑ۔شرح پیدائش میں بھی ہم نے بنگلہ دیشیوں کو پیچھے چھوڑ دیاہے ۔ فیملی پلاننگ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں مؤثر بنیادوں پہ چلائی جاتی تھی ۔ اُس کی تشہیر پورے ملک میں ہوتی تھی۔مولانا اورمولوی حضرات اِس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، خاطر میں نہیںلایاجاتاتھا۔ لیکن پھر زُہد وتقویٰ کی ایسی ہوائیں چلیں کہ فیملی پلاننگ کانام ہی کفر کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ آج حالت یہ ہے کہ فیملی پلاننگ نام کی پاکستان میں کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ آبادی اِس رفتارسے بڑھ رہی ہے کہ تیس سال میں موجودہ آبادی دُوگنی ہوجائے گی ۔ اِس بات پہ البتہ غور نہیں فرمایاجائے گا کہ جہاں شرح خواندگی ویسے ہی مملکت خدادادمیں کم ہے آبادی کی بے دریغ بڑھوتی سے اورکم ہو جائے گی۔ یہاں مسئلہ اور بھی ہے ، صرف خواندگی کا نہیں۔ ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہلوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے ، بظاہر پڑھے لکھے، جو ایسی ایسی باتیں اور تھیوریاں پیش کرتے ہیں کہ انسان کی عقل دَنگ رہ جاتی ہے ۔ 
رقبہ بنگلہ دیش کاکم ہے ۔ آبادی ہم سے کم بھی ہو پھر بھی آبادی کا زمین پہ پریشر نظر آتاہے ۔ چند سال پہلے بنگلہ دیش کے دورے کا موقع میسر آیا تو ڈھاکہ سے سلہٹ براستہ سڑک جاتے ہوئے اِس پریشرکو محسوس کیا۔ ایک گاؤں ختم ہوتا نہیں تھاکہ دوسرا شروع ہوجاتااوریہ سلسلہ سلہٹ تک رہا۔ ہم تو اِس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ 1947ء میں یہاں کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی اورعلاقہ اوررقبہ سمندر سے لے کر ہمالیہ پہاڑوں تک پھیلا ہوا اوروسیع تھا‘ لیکن ہم نے آبادی اورزمین کا یہ بیلنس برباد کرکے رکھ دیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکے، ساڑھے تین کروڑ سے ہماری آبادی اَب ماشاء اللہ اکیس بائیس کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے ۔
بربادی کا ایک خاص ہنر ہمارے پاس شاید موجود ہے ۔ انگریزوں نے ریل کا نظام دیا اور گو وہی نظام بہ اِحسن و خوبی ہندوستان میں چل رہا ہے، لیکن ہم نے اپنے والے ریلوے نظام کو مکمل بربادی تک پہنچا دیا۔ اَب سوائے بڑھکوں کے اِس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ۔ سعدرفیق بطور وزیرریلوے آتے ہیں تو اُن کی بڑھکیں سُننا پڑتی ہیںاورشیخ رشید آتے ہیں تواُنہوں نے تو بڑھکیں مارنے کی پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔درمیانی طرز ِ گفتگو کے وہ نہ قائل ہیں نہ قابل ۔اَب چین پہ ہم نے تکیہ کیا ہواہے کہ سی پیک کے ذریعے یہاں تیز ریلوے لائنیں بچھیں گی۔ ہم نے کچھ نہیں کرنا، اوروں نے ہی آکے ہماری قسمت سنوارنی ہے ۔ ریل تو دُور کی بات ہے ، بڑے شہروں کا کچرا اورکوڑا کرکٹ ہم خود سے اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ لہٰذا کوئی حیرانی نہیں کہ راولپنڈی اور لاہور کا کچرا اُٹھانے کا ٹھیکہ ایک ترکش کمپنی کو دیا گیاہے اورکراچی کا کوڑا کرکٹ ایک چینی کمپنی کے حوالے ہے۔ 
پی آئی اے ہمیں ورثے میں نہیں ملاتھا۔ وہ ہم نے خود بنایا اورائیر مارشل نور خان جیسے قائدین کے تحت دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں اُس کا شمار ہوتاتھا ۔یہ ماجراتب ممکن ہوا کہ انگریزوں کے ماحول میں پلنے والے اشخاص پاکستان میں موجود تھے ۔پاکستان کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کا کارنامہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے طبقات کے سر جاتاہے ۔ پہلی کھیپ بیوروکریٹوں اورجرنیلوں کی انگریز کی پیداوار تھی ۔ اِس کھیپ نے ہوش سنبھالی توانگریزوں کا راج تھا اور اِ ن لوگوں کی اِقدار وہیں سے آئیں ۔ جب تک نور خان جیسے لوگ زندہ رہے تو چیزیں چلتی رہیں۔ یہ کھیپ ریٹائرہوتی گئی اوردیسی خمیر اوپر آنے لگا تو زوال اور بربادی کا سفر ساتھ ہی شروع ہوگیا۔ پی آئی اے کی کہانی بھی اِس سلسلے کی ایک علامت ہے ۔ بہترین ائیر لائن کو ریلوے نظام کی طرح ہم نے برباد کردیا۔ جو اِس بدنصیب ائیر لائن کا نیا سربراہ آتاہے وہی گھسی پِٹی باتوں سے اپنے دور کا آغاز کرتاہے ۔ لیکن نتیجہ وہی صفر بٹہ صفر۔ 
روسیوں نے جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں ہمیں ایک سٹیل مل کا تحفہ دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سمجھا جاتاتھا کہ سٹیل کی پیداوار کے بغیر کوئی ملک ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جب یہ تحفہ ملا تو بہت خوشیاں منائی گئیں کہ پاکستان بھاری انڈسٹری کے سفر پہ چل نکلاہے ۔ شروع میں تو کام ٹھیک رہا لیکن پھر ہمارے بربادی کے ہنر نے کام دِکھانا شروع کیا اورسٹیل مل کا وہ حال ہوگیا جو اَب ہے ۔ بیچ میں جنرل صبیح قمرالزمان جیسے اَچھے سربراہ سٹیل مل میں آئے جنہوں نے حالات درست کردئیے اورمل اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوکے منافع کمانے لگی ۔لیکن بربادی کے ہنر کاایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہمیں اچھے لوگ راس نہیں آتے اورروح کوتسکین تبھی ملتی ہے جب اُنہیں باہر نکال دیاجائے ۔ آج نہ ریلوے ٹھیک ہورہی ہے، نہ پی آئی اے، نہ سٹیل مل ۔ کیا چینیوں نے ہی یہاں سب کچھ آکے کرناہے ؟تو کیوں نہ کچرے کی طرح 'سب کچھ‘ کو ہی ٹھیکے پہ دے دیاجائے ؟
دعوے تو ہم بہت کرتے ہیں اورنظریات بھی ہمارے کمال کے ہیں لیکن اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ملک امیروں اوراشرافیہ کیلئے بناہے ۔ اُنہی کا حکم چلتاہے اورکلیدی مراعات بھی اُنہی کے لیے ہیں۔لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ باہر گئے مزدوروں کا بھیجا ہوا زرِمبادلہ نہ ہو تو مملکت ِ خداداد کا کاروبارنہ چل سکے ۔ پھر فکر کس بات کی۔ کام چل رہاہے تو چلتا رہے گا ۔ہمارا کشکول بھی تو ہے ۔ اللہ اُسے سلامت رکھے۔ کشکول کو اورہمارے ایٹم بم کو۔ یہ دونوں چیزیں ہوتے ہوئے میلی آنکھ ہم پہ کون رکھ سکتاہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں