ایڈورڈ گِبن (Edward Gibbon) کی لازوال تاریخ ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر کے کچھ حصے پڑھے ہیں پوری کتاب نہیں۔ ٹی ای لارنس جسے ہم لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتے ہیں کلاسیکی سکالر تھا۔ یعنی یونانی اور لاطینی زبان میں اُس نے ڈگری لی اور پھر ہومر (Homer) کی لا فانی تصنیف اوڈیسی (Odyssey) کی انگریزی میں ٹرانسلیشن بھی کی۔ گو لارنس آف عریبیہ کا مطالعہ بہت تھا لیکن انہوں نے اقرار کیا کہ گِبن کی کتاب پوری طرح نہیں پڑھ سکے۔ بہت ساری تمنائیں ہمارے دل میں جگہ رکھتی ہیں، اُن میں سے ایک یہ کہ عمر کے اِس حصے میں گِبن کی کتاب کو پھر سے اُٹھایا جائے اور شروع سے آخر تک پڑھا جائے۔
کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن کو مکمل نہیں پڑھ سکے۔ اِن میں رومن رائٹرٹیسیٹس (Tacitus) کی کتابیں ہیں۔ لکھنے کا انداز اُن کا بہت عمدہ تھا اور گو انگریزی ٹرانسلیشن میں لاطینی زبان کی خوبصورتی مکمل طور پہ گرفتار کرنا مشکل ہے پھر بھی کچھ ذائقہ اصلی زبان کا ملتا ہے۔ یہ ارادہ بھی ہے کہ گِبن کے ساتھ ساتھ ٹیسیٹس کو بھی بغور پڑھا جائے۔
بطور لیڈر اور سیاست دان ونسٹن چرچل پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اِس سے انکار ممکن نہیں کہ مطالعے کا اُنہیں شوق تھا۔ اُنہوں نے صرف O لیول یا ہماری میٹرک تک کی تعلیم حاصل کی تھی اور مشہورِ زمانہ ہیرؤ (Harrow) سکول میں کوئی اِتنے نمایاں طالب علم نہ تھے۔ لیکن جب فوج میں کمیشن لے کر ہندوستان میں پوسٹ ہوئے تو اُن کی امریکن ماں جینی چرچل نے اُنہیں کتابوں کا ایک ڈھیر بھیجا اور ہندوستان کے مختلف موسموں میں چرچل نے اپنی بالغ تعلیم کا آغاز کیا۔ تاریخ اور لٹریچر کی کتابوں سے شغف رکھتے تھے۔ مصدقہ شواہد کی بنا پہ کہا جاتا ہے کہ چرچل کو شیکسپیئر کے آٹھ دس ڈرامے زبانی یاد تھے۔
مشہور ایکٹر رچرڈ برٹن (جن کی ایکٹنگ کے علاوہ ایک وجۂ مشہوری الزبتھ ٹیلر سے شادی تھی) ایک دفعہ ویسٹ اینڈ لندن کے کسی تھیٹر میں ہیملٹ (Hamlet) کا رول ادا کر رہے تھے۔ ونسٹن چرچل پہلی قطار میں بیٹھے پرفارمنس دیکھنے آئے تھے اور اِس وجہ سے رچرڈ برٹن خاصے نروس تھے۔ رچرڈ برٹن بیان کرتے ہیں کہ جب اُنہوں نے اپنا رول شروع کیا تو پہلی قطار سے عجیب سی آواز آنے لگی۔ کچھ لمحوں بعد اُنہیں احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ ساتھ ونسٹن چرچل بھی ہیملٹ کے ڈائیلاگ ادا کر رہے ہیں۔ رچرڈ برٹن کہتے ہیں (یہ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں تھا) کہ اُنہوں نے چرچل کی مداخلت سے جان چھڑانے کیلئے کبھی اپنی لائنیں آہستہ ادا کیں اور کبھی تیز‘ لیکن چرچل اپنی بھاری آواز میں بولتے رہے۔ وقفے میں رچرڈ برٹن اپنے ڈریسنگ روم میں گئے اور سوچا کہ ونسٹن چرچل سے جان چھوٹ گئی ہو گی۔ اِتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی۔ ونسٹن چرچل کھڑے تھے۔ وہ جھکے اور کہا ''مائی لارڈ ہیملٹ، میں آپ کا ٹائیلٹ استعمال کر سکتا ہوں؟‘‘
ایسا ہی ایک قصہ مشہور امریکی ایکٹر آرسن ویلز (Orshon Welles) بیان کرتے ہیں‘ کہ ایک لندن تھیٹر میں آتھیلو (Othello) کا رول ادا کر رہے تھے‘ اور چرچل فرنٹ سیٹوں پہ بیٹھے ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہی ہوا، آرسن ویلز نے اپنی لائنیں شرو ع کیں اور فرنٹ قطار سے ایک غرغراہٹ آنے لگی۔ چرچل بھی ڈائیلاگ بول رہے تھے۔ وقفے میں چرچل آرسن ویلز کے ڈریسنگ روم میں گئے اور اُنہیں بتایا کہ تم فلاں فلاں لائن نہیں بولے۔ لارڈ بائیرن (Lord Byron) کی شاعری پہ بھی چرچل کو عبور حاصل تھا اور بہت سی اُن کی نظمیں زبانی یاد تھیں۔ چرچل کی اپنی لکھائی میں اِس قسم کے انگلش لٹریچر کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے چرچل کو ایک موقعہ پرست اور شو مین قسم کا سیاست دان سمجھا جاتا تھا۔ عظمت کا مقام اُنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں لیڈر بن کے حاصل کیا‘ لیکن جیسے اوپر عرض کیا‘ مطالعہ سے اُنہیں حقیقی شوق تھا۔
ہمارے لیڈروں میں سے جناح صاحب کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہی مطالعے کے شوق کے لحاظ سے جانے جاتے ہیں۔ دیکھی نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ لائبریری اُن کی بہت شاندار تھی۔ ایک اُن کی‘ ایک سردار شیر باز مزاری کی جسے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ خوبصورت شیلفوں میں قطار دَر قطار سجائی ہوئی کتابیں۔ کراچی صدر میں ٹامپسن اینڈ ٹامپسن کُتب گھر واقع ہے جہاں پرانے دِنوں میں اچھی کتابیں میسر ہوتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب اور شیر باز مزاری کی کوشش ہوتی کہ نئی کتاب پہلے اُن کے پاس آئے۔ آج کے پاکستان میں یہ شوق پائے جاتے ہیں؟
جس انداز کے کُتب گھر اُن زمانوں میں تھے اَب پاکستان کے بڑے شہروں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ بھلا ہو اسلام آباد میں سعید بک بینک کا کہ اچھی کتابیں وہاں مل جاتی ہیں۔ لاہور گلبرک کے مین بلیوارڈ پہ ریڈنگز واقع ہے جو شاید لاہور میں اچھی کتابوں کا واحد مرکز ہے۔ ایک زمانے میں ریگل چوک کے گرد خاصی تعداد میں کتب خانے ہوتے تھے اور وہاں کتاب خریدنے کی استطاعت نہ بھی ہوتی تو کتاب کھول کے چند اوراق پڑھ لیتے اور کوئی یہ آواز سُنائی نہ دیتی کہ کیا کر رہے ہو۔ رونا یہی ہے کہ وہ زمانہ گیا۔ نہ ریگل چوک کے کتب گھر رہے نہ مال روڈ کے چائے خانے۔ شاعر چند مخصوص ریستورانوں میں پائے جاتے اور وکلا اور اِس قسم کے پروفیشنل شیزان اور لارڈز جیسی جگہوں پہ۔ شیزان کی جلوہ گری جہاں ہوتی تھی اب شاید وہاں جوتوں کی دکان ہے۔ سڑک پار ایک بورڈ آویزاں ہے یہ بتانے کیلئے کہ یہاں لارڈز تھا، نیچے البتہ جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں ہیں۔ پتہ نہیں ماضی سے ہمیں کیا چڑ رہی ہے۔ زندگی کو نفیس بنانے والی ہر چیز کو ہم نے تباہ کر دیا۔ یہ باتیں لاہور کی ہو رہی ہیں جو تقسیم سے پہلے بھی شمالی ہندوستان کا کلچرل دارالخلافہ سمجھا جاتا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بادشاہی مسجد سے لے کر ٹھوکر نیاز بیگ تک اور دوسری طرف سیکرٹریٹ سے لے کر نئے ائیرپورٹ تک اِس سارے وسیع علاقے میں صرف ایک ہی ڈھنگ کا کتب گھر ہے۔ کسی اور معاشرے میں یہ رونے کا مقام سمجھا جائے لیکن ہم بادشاہ لوگ ہیں، ایسی چھوٹی چیزوں کی ہمیںکیا پروا؟
لاہور کا سنٹر یا امریکی مفہوم میں ڈاؤن ٹاؤن (downtown) مال روڈ ہوا کرتا تھا۔ آج لاہور کا سنٹر کوئی رہا نہیں۔ بے ہنگم طریقے سے شہر پھیلا جا رہا ہے اور یہی حال دوسرے شہروں کا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں میں کچھ عقل ہوتی تو مال روڈ کی پرانی کیفیت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ ساتھ ہی جو علاقہ آواری ہوٹل کے پیچھے سے شملہ پہاڑی یا پریس کلب تک جاتا ہے‘ اُس کو اِس لحاظ سے ڈویلپ کرنے کی کوشش کی جاتی کہ وہ ایک ثقافتی مرکز کے طور پہ اُبھرتا۔ کیفے یا ریستوران ہوتے، کتب خانوں کی جگہ ہوتی اور ایسے میوزک ہال ہوتے جہاں معیاری موسیقی سُنی جا سکتی۔ لیکن یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ یہاں کون ایسا کرنے دے گا؟ جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی پابندیوں سے ہمیں چھٹکارا حاصل نہیں ہو رہا۔ وہ پابندیاں ختم ہوں تب ہی کچھ نئی قسم کی ثقافتی نشوونما ہو سکتی ہے۔ ایک بسنت کا مناسب اہتمام کر نہیں سکتے‘ اورگل ہم نے کیا کھلانے ہیں؟
چند روز پہلے ایک انگریزی اخبار کے اتوار ایڈیشن میں پڑھا کہ لاہور میں ڈانس سیکھنے کا شوق پیدا ہو رہا ہے اور اِس کے لئے مختلف جگہیں بن چکی ہیں۔ لیکن کوئی اَتا پتہ نہیں تھا کہ ایسی جگہوں کو کہاں ڈھونڈا جائے۔ دنیا کے دوسرے شہروں میں جائیں تو آپ کو ایسے اخبار اور رسالے ملیں گے‘ جن میں ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں بھرپور معلومات موجود ہوتی ہیں۔ یعنی کلاسیکی یا ماڈرن ڈانس پرفارمنس کہاں ہو رہی ہیں۔ کلاسیکی یا ماڈرن میوزک کن کن تھیٹرز میں سُنا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں۔
کون یہ بات سمجھائے کہ آرٹ، ثقافت، کلچر، تعلیم اور دنیاوی ترقی ایک دوسرے سے ملی ہوئی چیزیں ہیں۔ جو معاشرہ ثقافتی لحاظ سے زوال پذیر ہو وہ سائنسی یا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی پذیر نہیں ہو سکتا۔ جو قومیں ترقی کے لحاظ سے آگے ہیں وہ ثقافتی اعتبار سے بھی آگے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی اتفاق نہیں کہ اگر بیشتر مسلم ممالک ثقافتی لحاظ سے پیچھے ہیں تو ترقی کی دوڑ میں بھی صفِ محتاج و مساکین میں کھڑے ہیں۔