کچھ چیزوں کا اظہار ممکن ہے۔ کچھ پہ کھل کے بات نہیں کی جا سکتی کیونکہ حساسیت آڑے آ جاتی ہے اورصاف بات کرنا ممکن نہیں رہتا۔
بہرحال وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا ضروری ہے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد حاضرین کی وہ فوٹو‘ جو جاری کی گئی‘ نہ کی جاتی تو بہتر تھا۔ ایسے کاموں میں کچھ خیال رکھنا اور احتیاط ‘ ضروری ہوتے ہیں۔ اسی لیے پروفیشنلز کو ایسے کاموں پہ مامور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے لیکن پھر بھی ایسی چیزوں کا کچھ خیال رکھنا چاہیے۔
پھر کچھ ٹائمنگ کا بھی مسئلہ ہے۔ جماعۃ الدعوۃ سے منسلک فلاحی تنظیم پر دوبارہ یا سہ بارہ پابندی کا اعلان کرنا تھا‘ تو کیا یہ اُسی دن ضروری تھا جس دن قومی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا؟ یہ تو ایک حد تک اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ باہر کے ممالک اور خاص طور پہ ہمارے ناقدین ہم پہ دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے اُنگلی اُٹھاتے ہیں۔ کچھ کرنا تھا تو پہلے کرتے۔ جب پلوامہ حملے کے تناظر میں مختلف اطراف سے پاکستان پہ پریشر آ رہا ہے تو عین اُس وقت ایسا اعلان دانش مندی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ جب پریشر آ ہی رہا ہے تو پھر عزم اور ہمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر اپنے گھر کی بھی کچھ صفائی ضروری ہے تو اُسے سنجیدہ انداز میں کرنا چاہیے نہ کہ ہر بار ایسا واقعہ ہو تو مصنوعی سی کارروائی کر دیں اِس اُمید کے ساتھ کہ دنیا ہم پہ یقین کر لے گی۔ جماعۃ الدعوۃ پر پہلے ہی خاصی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔
امریکہ نے کیا ارادہ ظاہر کیا کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں وسیع حلقوں کی طرف سے، اور خاص طور پہ دانشورانِ کرام کی طرف سے، اِس بات کا اظہار ہونے لگا کہ دنیا پاکستان کی اہمیت دوبارہ پہچاننے لگی ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں ہمارا شاید واحد ملک ہے جس میں یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ ہمارے محل وقوع کی بڑی اہمیت ہے۔ یعنی ہم جو بھی کریں ہمارا محل وقوع اِتنا اہم اور سٹریٹیجک ہے کہ دنیا باقی ہر چیز کو در گزر کر دے گی۔ ایسے جاہلانہ طرز عمل کا کیا علاج ہے؟
روسی فوج نے جب افغانستان سے انخلا کیا تو روس کی شکست کا سہرا ہم نے اپنے سر باندھا۔ اَب امریکی افغانستان سے جانا چاہتے ہیں اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔ اگر ہم میں عقل ہو تو اِس موقع پہ طالبان پہ اور زور ڈالیں کہ اشرف غنی حکومت سے بھی بات کریں۔ افغانستان پہ تسلط کے خواب ہم بہت دیکھ چکے۔ ہمارا بھی اِس میں فائدہ ہے کہ افغانستان میں اِمن ہو۔ لیکن یہ کہ صرف طالبان کی حکمرانی ہو‘ وہ ہمارے کسی مفاد میں نہیں۔ طالبان کی حکمرانی سے ہمیں پہلے بھی نقصان پہنچا، اور اب بھی نقصان پہنچنے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جن حالات و واقعات کا افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے شکار ہے‘ ان میں سیاسی استحکام اسی صورت میں آ سکتا ہے ‘ جب طالبان سمیت ملک میں موجود تمام سیاسی دھڑوں پر مبنی حکومت قائم ہو اور سب مختلف قومی معاملات پر اتفاق رائے کے ساتھ کام کریں۔ داخلی انتشار کا شکار ممالک میں حالات کو معمول پر لانے‘ وہاں پائیدار امن قائم کرنے‘ ایک دیرپا سیاسی عمل کو فروغ دینے اور اسے بتدریج استحکام بخشنے کا یہی مسلمہ عالمی اصول یا طریقہ کار ہے۔ افغانستان پر بھی اسی کو لاگو کرنا پڑے گا۔
ایک اور چیز: یہ کیا ہوا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی عسکری اداروں کو کہہ رہی ہے کہ اگر ہندوستان کی طرف سے جارحیت ہو تو اُس کا مؤثر جواب عسکری ادارے دیں؟ جارحیت کسی بھی شکل میں ہو اُس کا جواب کیا ہونا چاہیے اور کس انداز میں‘ یہ حکومت کا کام ہے۔ جواب کے خدوخال حکومت کو طے کرنے ہیں اور اُنہی تیارکردہ خدوخال پہ عسکری اداروں کو چلنا چاہیے۔ امریکہ میں یہ پینٹاگون یا عسکری اداروں پہ نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ افغانستان میں کیا کریں۔ پالیسی صدر بناتا ہے اور اُس پالیسی کے دائرے میں عسکری اداروں کو آزادی ہوتی ہے کہ عملدرآمد کیسے کریں۔
کئی بحران سرد جنگ میں ایسے آئے کہ امریکی جرنیلوں کی بات مانی جاتی تو روس کے ساتھ نیوکلیئر جنگ چھڑ جاتی۔ کیوبن میزائل کرائسز میں امریکی دفاعی اداروں میں ایسی آوازیں اُٹھیں جن کی خواہش تھی کہ کیوبا پہ بمباری کی جائے۔ صدر کینیڈی نے ایسا نہ کیا اور وہ اقدام اُٹھائے جن سے امریکہ اُس بحران میں سُرخرو ٹھہرا۔ کورین جنگ میں امریکی کمانڈر جنرل میکاتھر (McArthur) چاہتے تھے کہ چین پہ نیوکلیئر حملہ کیا جائے۔ صدر ٹرومین نہ مانے اور جنرل میکاتھر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
فرض کیجیے ہندوستان فضائی حملہ کرتا ہے تو اُس کا فوراً مقابلہ کیا جائے گا۔ یعنی وہاں سے جہاز اُڑیں اور بارڈر کراس کریں تو ہمارے جہاز بھی فضا میں ہوں گے۔ یہ تو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) ہے۔ شور کوٹ، میانوالی یا مرید ائیر بیس پہ حملہ ہو تو کسی نے پی ایم ہاؤس فون کرکے یہ نہیں پوچھنا کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘ لیکن اُس کے بعد پاکستان کا کیا ردِعمل ہوتا ہے‘ وہ فیصلہ سویلین اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔
جنون کی جو کیفیت ہندوستان میں ہے، ہمیں اِس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنے قوم سے مختصر خطاب میں جو کچھ وزیر اعظم عمران خان نے کہا‘ بالکل درست کہا کہ ہم جنگ کے خواہاں نہیں لیکن کچھ ہوا تو اُس کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ دیگر کڑیاں جو اِس اچانک اُٹھنے والی صورتحال سے جڑی ہوئی ہیں‘ اُن پہ بھی ہم غور کریں۔ ہم لبنان نہیں اور ہماری جن داخلی تنظیموں کے بارے میں دنیا انگلیاں اٹھاتی ہے (اُن کا نام کیا لینا) وہ حزب اللہ نہیں۔ حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ کی ضرورت ہے اور اُس خطے میں وہ اسرائیل سے اُس انداز سے برسر پیکار ہے جس انداز کی ہمت باقی عرب ممالک میں نہیں۔ ہمارے عسکری ادارے مضبوط ہیں اور ہم ایٹمی قوت بھی ہیں۔ ہندوستان سے درپیش کسی خطرے سے نمٹنے کیلئے ہمیں کسی حزب اللہ کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی افواج پاکستانی سرحدوں کا دفاع کر سکتی ہیں۔ ہمیں مریدکے یا بہاولپور میں بیٹھی کسی قسم کی تنظیموں کی ضرورت نہیں۔ اِس پہ غور ہونا چاہیے۔ یہ ہندوستانی یا بین الاقوامی پریشر کی بات نہیں۔ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ حتمی فیصلہ اِس بارے ہم کیوں نہیں کرتے؟
یہ سب نام نہاد افغان جہاد کے اثرات ہیں۔ ہم کیا اُس آگ میں کودے کہ اپنے ہاتھ پاؤں اُس میں جلا دئیے۔ مجاہدانہ سرگرمیاں اُس نام نہاد جہاد کے شعلوں میں شروع ہوئیں اور تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ ہم کہتے تھکتے نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے اِتنا نقصان اُٹھایا۔ واقعی اُٹھایا لیکن اِس سارے فلسفے سے کیوں نہیں جان چھڑاتے؟
عمران خان کیلئے یہ تاریخی موقعہ ہے۔ فی الحال تو اُن کی نظریں ہندوستان کی طرف سے کسی ممکنہ خطرے کے اُٹھنے پہ ہونی چاہئیں۔ لیکن جب یہ بحران تھمے، اور یہ تھم جائے گا، تو پھر وسیع تناظر میں اِس سارے مسئلے کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ اِن سے پہلے وزیر اعظم کمزور لوگ تھے۔ وہ ایسی باتیں نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کا زیادہ وقت مال اور جائیدادیں بنانے میں لگا رہتا تھا۔ عمران خان ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ اُنہیں وہی کچھ کرنا چاہیے جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہو۔
جنون کی جو کیفیت ہندوستان میں ہے، ہمیں اِس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنے قوم سے مختصر خطاب میں جو کچھ وزیر اعظم عمران خان نے کہا‘ بالکل درست کہا کہ ہم جنگ کے خواہاں نہیں لیکن کچھ ہوا تو اُس کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ دیگر کڑیاں جو اِس اچانک اُٹھنے والی صورتحال سے جڑی ہوئی ہیں‘ اُن پہ بھی ہم غور کریں۔