اِس بار تو بہار واقعی عجیب گزری ہے۔ بارشوں نے ستیا ناس کر دیا ہے اور پورا فروری کا مہینہ اِن کی نذر ہو گیا۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں‘ چونکہ اُن کے حکمران نیک ہیں اِس لئے اس سال کی بارشیں آسمانوں کی طرف سے نعمت کے طور پہ برس رہی ہیں۔ اُن کا کہنا درست ہو گا لیکن اَب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ التجا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اپنی نیکیوں کو ذرا تھامیے تاکہ گندم کی فصل پکنے کیلئے بادلوں کے پیچھے سے آفتاب کی شعاعیں زمین پہ آ سکیں۔ نیکی اور رحمت بہت ہو چکی اَب تھوڑی دھوپ کی ضرورت ہے۔
اِن حکمرانوں کی زبانوں پہ ایک موضوع چڑھا ہوا ہے، نچلے طبقے کیلئے سستے گھر۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ عندیہ کیا‘ نعرہ لگایا تھا۔ ایک جھونپڑی تک بن نہیں سکی لیکن آئے روز کسی نہ کسی شکل میں یہ موضوع اِن کی زبانوں پہ آ چڑھتا ہے۔ ٹھیک ہے، خوابوں کے محل ضرور بنائیے، کون روک سکتا ہے، لیکن جو آبادیاں بنی ہوئی ہیں اُن کی طرف تو ایک نظر ڈالیے اور اُنہیں بہتر کرنے کی کوشش کیجیے۔ آدھا سال اِن کے اقتدار کو ہو چلا ہے۔ ان کے مداح کسی ایک ہی اقدام کا ذکر کریں جس سے مخلوقِ خدا کی بھلائی ہوئی ہو۔ وہی آبادیاں جو پہلے تھیں ویسی ہی ہیں۔ صفائی کی حالت بھی وہی پرانی۔ وہی چینی اور ترکی کمپنیاں راولپنڈی، لاہور اور کراچی کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر رہی ہیں۔ مانا کہ چاند پہ جانے کی صلاحیت اِس ملک میں اَبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن بڑے شہروں کے کوڑا کرکٹ کی طرف تو کچھ دھیان چلا جائے۔ ایک اور نعرہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ نظام پتہ نہیں کس سیارے سے ڈھونڈ کے نافذ کیا جائے گا۔ اِس محاذ پہ بھی نعروں سے زیادہ کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
اسی لیے بارہا عرض کیا کہ کچھ کر نہیں سکتے تو معاشرے کے چہرے کو خراب کرنے والی چند قباحتیں ہی ختم کر دیجیے۔ پلاسٹک کی لعنت کو تو کسی کنٹرول میں لائیے۔ درخت لگانے کی مصنوعی مہموں کا تواتر سے ذکر ہوتا ہے۔ لیکن جو چیز سامنے ہے اور ہر ایک کو نظر آتی ہے اُس کے بارے میں ہاتھ پاؤں رُکے ہوئے ہیں۔ کون سا آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے یا سکیورٹی کونسل کی قرارداد جس کے بعد پلاسٹک کے شاپروں پہ پابندی لگ سکے؟ روز فرضی کاموں پہ میٹنگز بلائی جاتی ہیں۔ کوئی ایک مؤثر میٹنگ اِس لعنت کے حوالے سے بھی بلا لی جائے۔ پچاس لاکھ گھر بن جائیں گے شاید جب سمندر پہاڑوں تک پہنچ جائے یا ہمالیہ کے پہاڑ سمندروں کی طرف چل پڑیں۔ لوکل باڈیز نظام بھی بن جائے گا‘ فی الحال تو شاپروں پہ ہی اکتفا کر لیجیے۔ وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ اُنہیں ماحولیات کا ایک بہت بڑا ایکسپرٹ مانا جائے۔ یقینا وہ ہوں گے۔ لیکن اِس مسئلے کی طرف اُن کی آنکھیں کیوں نہیں جاتیں؟
دوسرا سوال وہی ہے جو بار بار ذہن کو جھنجھوڑتا ہے کہ جو پابندیاں ضیاء دور میں لگی تھیں اور جن سے یہ اُمیدیں وابستہ تھیں کہ اِن کے نافذ ہونے سے یہ ملک پارسا بن جائے گا‘ اور نیکیوں کے میدان میں ہر دوسری قوم کو پیچھے چھوڑ دے گا‘ اُن سے اِس ملک کو فائدہ کیا پہنچا؟ ضیاء الحق کا دور ایک لکیر ہے۔ اُس سے پہلے ایک پاکستان تھا جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم جیسے گناہگاروں کیلئے تھا۔ ایک مختلف معاشرہ اُس طویل دور کی وجہ سے معرض وجود میں آیا‘ جس میں نیکی اور پارسائی کی باتیں عام ہو گئیں، اسلام کی سر بلندی کا بہت ذکر ہوا اور باریش ہونے کی روش مولوی صاحبان سے ہٹ کر معاشرے میں عام ہوئی۔ نام نہاد افغان جہاد میں ملوث ہونے کی وجہ سے بھی ایسی روش کو تقویت ملی۔ افغانستان میں ہم نے کیا تبدیلی لانی تھی۔ پاکستانی معاشرہ افغانستان کے سانچے میں ڈھل گیا۔
ہونا تو چاہیے تھا کہ اِن روشوں اور تبدیلیوں کی بدولت پاکستانی معاشرہ اصلاح کی طرف جاتا۔ غلط کاریاں کم ہوتیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری نظر آتی۔ جھوٹ، مکاری اور رشوت ختم نہ ہوتے لیکن کم تو ہوتے۔ سرکاری دفاتر میں کرپشن کی شرحِ نمود کمی کی طرف جاتی۔ لیکن ایسی تو کوئی چیز نہیں ہوئی۔ اگر ترازو سے پیمانوں کا حساب لیا جائے تو وہ ماضی کے سایوں میں گم گناہگاروں کا پاکستان آج کے پارسائی کے دعویدار ملک سے کئی حوالوں سے بہتر تھا۔ دولت کی ریل پیل سیاست میں اِتنی نہ تھی۔ کرپشن تھی، صدیوں سے کرپشن ہمارے معاشرے کا حصہ ہے‘ لیکن یہ جو میگا کرپشن کی داستانیں آج عام ہیں یہ ایوب یا بھٹو دور میں نہ تھیں۔ مار دھاڑ ہوتی تو چھوٹے پیمانے پہ اور پھر معاشرے میں اُس کا منفی ردِ عمل بھی ہوتا۔ ایوب خان کے بیٹے نے فوج میں کپتانی کا عہدہ چھوڑا اور اپنے سسر کے ساتھ گاڑیاں بنانے کے کاروبار میں لگ گیا۔ تب میڈیا تو نہیں تھا اخبارات ہی تھے۔ اُن پہ بھی پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن پھر بھی صدر صاحب کے بیٹے کا میدانِ کاروبار میں قدم رکھنا ایک قومی موضوع بن گیا اور اِس حوالے سے صدر ایوب خان کو بہت لعن طعن سہنا پڑی۔
مغربی پاکستان کے مطلق العنان گورنر نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان تھے۔ اُن کے بارے میں اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن کرپشن کا کوئی الزام اُن کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا۔ یہی حال ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ ناقدین اُن کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتے‘ لیکن اُن کی طرف کرپشن کی کوئی اُنگلی نہیں اُٹھ سکتی۔ اور تو اور وہ ایوب خان کی کابینہ میں بہت طاقتور وزیر تھے‘ لیکن اسلام آباد میں ایک معمولی سا پلاٹ تک نہ لیا۔ نہ لاہور میں کوئی جائیداد بنائی۔ وہی کلفٹن کراچی میں دو گھر تھے اور لاڑکانہ میں آبائی زمین۔
کہنے کا مطلب یہ کہ اُس گناہگاروں کے پاکستان میں نائٹ کلب بھی کھلے تھے اور میخانے بھی‘ لیکن سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ اخلاقی اقدار اِتنی نہ گری تھیں جتنی کہ آج دیکھنے میں آتی ہیں۔ تو پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں رائج پابندیوں سے ہمیں ملا کیا؟ کیا ہم بہتر انسان ہو گئے ہیں، جھوٹ کم بولتے ہیں، رشوت کے لین دین میں کمی آئی ہے؟ ہاں ایک چیز میں اضافہ ہوا ہے۔ منافقت پہلے بھی تھی۔ ہر انسانی معاشرے میں کسی نہ کسی مقدار سے ہوتی ہے‘ لیکن ضیاء الحق کے پاکستان میں قول و فعل کا تضاد اِتنا بڑھ گیا کہ منافقت ایک قومی قدر بن کے رہ گئی۔ لبوں پہ الفاظ ایک طرح کے اور ہاتھوں سے تراشے ہوئے اعمال بالکل اور نوعیت کے۔ اِس بڑھتے ہوئے تضاد کی وجہ سے یہ ایک بیمار معاشرہ بن چکا ہے۔ ہر وہ معاشرہ بیمار ہو جائے جس میں اِتنا جھوٹ اور فریب پایا جائے۔
مسئلہ البتہ یہ ہے کہ حکمران اور فیصلہ کرنے والے کمزور ہوتے ہیں۔ چیزوں کو دیکھ تو سکتے ہیں اُن کے بارے میں کچھ کر نہیں سکتے۔ اقتدار پہ قبضہ کرنے کے بعد دو سال تک جنرل پرویز مشرف کو کسی مخالفت کا سامنا نہ تھا۔ نون لیگ زیر عتاب تھی اور پیپلز پارٹی دستِ تعاون بڑھانے کی خواہشمند۔ وہ چاہتے تو معاشرے کی اَز سر نو تشکیل کر سکتے تھے۔ ضیاء الحق دور کے کیے گئے اقدامات کو واپس کر سکتے تھے۔ فوج کے کمانڈر اِنچیف تھے اور مسلح افواج اُن کے پیچھے تھیں۔ لیکن وہی پرانا مسئلہ کہ اِتنی ویژن نہ تھی۔ وہ جسے انگریزی میں امیجینیشن (Imagination) کہتے ہیں‘ وہ اُن میں نہ تھی۔ بس وقت گزارا، کوئی ٹھوس کام کر نہ سکے۔ ہاں، پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کو آنے کی آزادی دی جس سے صحافتی قبیلے کی بھلائی ہوئی۔ لیکن یہ الگ موضوع ہے۔ ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ معاشرے کو ضیاء الحق دور کے اَثرات سے آزاد کرایا جاتا۔ وہ یہ نہ کر سکے۔ گناہ اُن کا نومبر 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کرنا نہ تھا۔ تاریخ کے کٹہرے میں اُن کا گناہ یہ سمجھا جائے گا کہ اپنا آٹھ سالہ اقتدار اُنہوں نے ضائع کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کا ذہنی اُفق اِتنا وسیع ہے کہ اُنہیں گورنر ہاؤس لاہور جیسے سطحی موضوعات پڑی رہتی ہے۔ ایسی باتوں سے باہر وہ نکل نہیں پاتے۔ بہت کچھ کرنے کو ہے۔ بس تھوڑی سی نظر چاہیے اور ہاتھ میں ذرا سی توانائی۔