اتوار کی شام ہماری لاہور میں مزدوری ختم ہوتی ہے اور سوموار کو اگر کوئی اور ہنگامہ درپیش نہ آئے تو تیار ہوتے ہوتے دوپہر کے وقت چکوال کی طرف ہو لیتے ہیں۔ لیکن عظمیٰ نے پہلے WhatsApp پہ میسج دیا اور پھر اپنی سُریلی آواز میں فون کیا کہ بیٹے کا ولیمہ سوموار کی شام کو ہے‘ تو ضرور آنا۔ اس کے بعد بہانہ یا انکار کی گنجائش نہ تھی۔
سوموار کے روز کچھ خاص کرنے کو نہیں تھا۔ بس انگلینڈ سے ایک دوست آئے ہوئے تھے‘ اُن سے اچھی گپ شپ رہی۔ لیکن دل کی ویرانی کیلئے کوئی آمد نہ تھی۔ اوکھے سوکھے دن گزارا۔ شام سے پہلے باغ جناح میں چہل قدمی کی اور ایک بار پھر حیرانی اُٹھی کہ پاکستانی قوم میں وہ کون سی خصوصیت ہے کہ جہاں بھی لوگوں کی آمد رہتی ہے وہ گند سے خالی نہیں رہتی۔ اِن پلاسٹک کے شاپروں کا علاج اس ریاست میں تو نہیں ہے۔ ایٹم بم تو بن گیا لیکن پلاسٹک کے شاپروں کے سامنے تمام قوتِ ریاست بے بس ہے۔ باغ جناح اور ایسی سیر گاہیں بھی اس یلغار سے محفوظ نہیں۔ لوگ آتے ہیں اور شاید قومی غیرت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ پلاسٹک کی شکل میں گند پیچھے ضرور چھوڑ کے جائیں۔
بہرحال سیر سے لوٹے تو جس سرائے میں قیام ہوتا ہے‘ وہاں غسل کیا۔ سامان باندھا، گاڑی میں بیٹھے اور ماڈل ٹاؤن کی طرف چل پڑے جہاں عظمیٰ کے بیٹے کا ولیمہ طے تھا۔ مال سے ماڈل ٹاؤن کچھ وقت سفر میں لگ جاتا ہے۔ مناسب یہی سمجھا کہ ناتواں جسم کی بھلائی کی خاطر راستے میں کچھ دوا لے لی جائے۔ قصرِ نور پہنچے تو موڈ ٹھیک تھا۔ مہمانوں کی آمد کیلئے میزبان لائن میں کھڑے تھے۔ چند دلکش چہرے بھی تھے۔ عظمیٰ خود غضب کی لگ رہی تھیں، کیا ڈریس اور پرانی (یعنی خاندانی) جیولری۔
اندر گئے تو جیسا پاکستانی شادیوں میں ہوتا ہے چہروں پہ بوریت سجائے مہمان صوفوں پہ گویا لنگر انداز تھے۔ یہی ہماری شادیوں کا بڑا امتحان ہوتا ہے۔ وہاں کچھ اور حرکت تو ہو نہیں سکتی لہٰذا بوریت کا طاری ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ آدمی بیٹھے بھی تو کتنی دیر اور خالی پیٹ، مطلب ہے بغیر روحانی تقویت کے، کرے بھی کیا۔ عموماً تو ایسے موقعوں پہ بوریت زیادہ ہی ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ قدرے مختلف تھا کیونکہ دلکش چہروں کی بہار تھی۔ ہال کے درمیان سیلفیاں چل رہی تھیں اور گو دل بہت چاہا کہ خاص طور پر ایک دو سے آگے جا کر کچھ گفتگو کی جائے لیکن ہمت نہ پڑی۔ روحانی معاونت تھی لیکن خاطر خواہ مقدار میں نہیں۔ تو بس دور سے دیکھتے ہی رہے۔
ہمارے پرانے دوست شاہد کاردار نے ہلکے پھلکے انداز میں موجودہ حالات پہ کچھ تبصرہ کیا۔ موضوع جتنا بھاری ہو وہ خود کبھی بھاری نہیں ہوتے۔ سنجیدہ بات بھی کرتے ہیں تو مسکرا کے۔ ایک اور صاحب تھے جو پتا چلا ہمارے پرانے لارنس کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ بینکنگ سے تعلق ہے۔ کہنے لگے کہ اُن کے پاس بارہ تیرہ نادر نسخہ جات ہیں جس سے قومی معیشت کیا قومی تقدیر بدل جائے۔ کچھ لیکچرکے موڈ میں بھی تھے۔ میرا آدھا دھیان چہروں کی طرف تھا لہٰذا پوری توجہ اُن کی گفتگو پہ نہ دے سکا۔ وہ مُصر رہے تو میں نے کہا: ملاقات کریں گے اور آپ کے فرمودات تفصیل سے سُنیں گے۔
ایک پرانے کپتان پی آئی اے کے تھے، کیپٹن تجمل۔ چہرے پر مسکراہٹ اور بولنے کا انداز بھی اچھا۔ انہوں نے کوئی لیکچر نہ دیا۔ صرف اتنا کہا کہ شام گزارنی ہے، میزبانی میری ہو گی اور شام تمہاری پسند کی ہو گی۔ پسند کی شام والی بات اُنہوں نے دو تین مرتبہ کہی۔ میں مسکرا دیا‘ لیکن یہ سوچتا رہا کہ اُنہیں ہماری پسند کی شام کا کیسے معلوم۔ ہماری شام تو سادہ ہوتی ہے۔ بس کچھ روحانی تقویت کا سامان، البتہ اچھے درجے کا۔ اصول تو وہی پرانا ہے کہ جَھک مارنی ہو تو ڈھنگ کی۔ کچھ معیار تو برقرار رہنا چاہیے۔ اگر روحانی پیرائے کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی ہو جائے تو اُس میں کیا مضائقہ۔ کون کافر اعتراض کر سکتا ہے۔ کپتان صاحب سے ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ ہوا اور اِس اقرار سے وہ رخصت ہوئے کہ شام کی ملاقات جلد ہو گی۔
اِتنے میں عظمیٰ آئی اور فوٹو کھنچوانے آگے لے گئی۔ جوڑا بہت حسین اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ ساتھ گورنر پنجاب چوہدری سرور بیٹھے تھے۔ اُن کی عجیب سی مسکراہٹ ہوتی ہے‘ جو ہر موقع پہ سجائے رکھتے ہیں۔ مسکراہٹ تو چہرے پہ موجود لیکن اس کے پیچھے شاذ ہی کچھ ہوتا ہے۔ اس موقع پہ بھی ایسی ہی کیفیت نظر آتی تھی۔ فوٹو کھنچوا کے وہ باہر کی طرف چل پڑے اور پوری پلٹن فوٹو گرافروں کی اُن کے پیچھے ہو لی۔ پنجاب کے نئے نویلے وزیر اطلاعات صمصام بخاری بھی موجود تھے۔ وہ میر ے ساتھ قومی اسمبلی میں بھی رہے ہیں، لہٰذا خاصی شناسائی ہے۔ بڑے بھلے آدمی ہیں‘ لیکن رسم ملاقات میں تھوڑا زیادہ میٹھا ڈال دیتے ہیں۔ چہرے پہ بھینی سی مسکراہٹ اور کچھ عاجزی کا تاثر۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی سیاست دان کے چہرے پہ عاجزی کا تصور اُبھرے تو تمام نہیں زیادہ اثنا میں مصنوعی ہوتا ہے۔ مولوی صاحبان کچھ مقام پا جائیں‘ اُن کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ نمایاں مولوی صاحبان عاجزی سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن انکساری کا تاثر بھی ہو تو تھوڑی سی ہنسی آتی ہے۔ صمصام بخاری کہنے لگے: آپ بڑے بھائی ہیں، ملاقات ہو گی اور راہنمائی کرنی ہو گی۔ میں نے دل ہی میں کہا کہ شاہ صاحب پھر سے تھوڑا سا میٹھا زیادہ ڈال رہے ہیں۔
محفل میں بڑا حسین امتزاج تھا۔ جیسے پہلے عرض کیا‘ صوفوں پہ لنگر انداز بوریت۔ لیکن پاکستانی خواتین کو یہ داد جاتی ہے کہ جیسا بھی سماں ہو وہ اپنی مختلف دنیا بنا لیتی ہیں۔ کچھ یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر مردوں کے چہرے تقریباً خالی نظر آ رہے تھے... خالی یعنی جسے انگریزی میں blank یا vacuous کہتے ہیں... تو خواتین ہال کے درمیان میں خوش و خرم کھڑی سیلفیاں لینے میں مشغول تھیں۔ ہال میں لائٹیں تو تھیں لیکن اگر ہال جگمگا رہا تھا تو اُن چہروں کی وجہ سے۔ لباس بھی کیا کمال کے تھے۔ حکیم الامت نے کیا کیا باتیں نہیں کہیں لیکن اُن کا وہ مصرعہ جو تصویرِ کائنات میں رنگ کے بارے میں ہے‘ اُس سے بڑا سچ کوئی اور نہیں۔ عظمیٰ کا فنکشن حکیم الامت کی اس بات کی گواہی دے رہا تھا۔
بہرحال ہم نے وہاں اور کیا تیر مارنے تھے۔ جو چند جاننے والے تھے اُن سے علیک سلیک ہو چکی، محفل کے نظاروں سے کچھ دل خراب ہو گیا۔ روحانیت کا سامان گاڑی میں پڑا تھا۔ تو یہی بہتر سمجھا کہ اب چلا جائے۔ ایسے موقعوں پہ ہماری واردات یہی ہوتی ہے کہ باقاعدہ رخصت نہیں لیتے۔ اچھی بھی نہیں لگتی۔ بس چپکے سے نکل جاتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھے‘ کانوں میں موسیقی لگائی اور خراماں خراماں چکوال کی طرف چل پڑے۔
بس آسمانوں سے یہی دعا ہے کہ کوئی معجزہ ہو اور وہ دن قریب آئے جب پاکستانی محفلوں کی بوریت کم ہو سکے۔ آپ خود انصاف کیجیے کہ محفل اچھی ہو، مردانہ نہیں تو زنانہ چہرے خوشگوار ہوں، لیکن کوئی بھی پاکستانی تقریب ہو بوریت اس پہ حاوی رہتی ہے۔ پاکستانی سرزمین میں بسنے والے اُچھلنے کودنے اور بھنگڑا ڈالنے والے لوگ ہیں۔ اُن کا قدرتی مزاج رنگین ہے۔ اُن کی موسیقی اور شاعری‘ دونوں اِن خصوصیات کی عکاس ہیں۔ لیکن کون سا وہ منحوس وقت تھا‘ جب اس معاشرے کے اصل چہرے کو مسخ کیا گیا اور اُس پہ ایک مصنوعی اخلاقیات کا لبادہ اوڑھ دیا گیا۔
وارث شاہ کی شاعری، نور جہاں کی گائیکی اور میڈم نیلو جیسوں کے رقص اِس دھرتی کے صحیح عکاس ہیں۔ ہم کن راہوں پہ چل پڑے یا کن راہوں پہ ہمیں زبردستی چلا دیا گیا۔ نتیجتاً جو بوریت اور بد حواسی اِس دھرتی میں پیدا ہوئی‘ وہ اُس کا نہ اصل رنگ ہے نہ اُس کی اصل پہچان۔ ہم کن بھول بھلیوں میں پڑ گئے۔ اپنی معصومیت میں اس سارے عمل کو ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ اس سے زیادہ خطرناک آمریت ہو نہیں سکتی۔