عذاب کا تو تب پتہ چلتا ہے جب اُس سے پالا پڑے یا کسی اور زاویے سے اُس کی جھلک نظر آئے۔ گزرے ہوئے کل لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں جانا ہوا اور وہاں کے شعبۂ میڈیسن کے پروفیسر نصرت اللہ چوہدری ایم آر سی پی سے ملاقات ہوئی۔ نجی ہسپتال سے تو اب منسلک ہیں، ساری سروس اُن کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی رہی‘ جہاں پہ وہ پروفیسر آف میڈیسن تھے۔ ہیپاٹائٹس کے موذی مرض پہ اُنہوں نے بہت کام کیا۔ پاکستان میں اِس مرض کے پھیلاؤ کے بارے میں بڑے متفکر رہتے ہیں اور اُنہوں نے جو اعداد و شمار بتائے‘ میں ہل کے رہ گیا۔
ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام وسیع پیمانے پہ پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ بیس کروڑ آبادی میں سے دس فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ ذرا غور کیجیے، دس فیصد۔ لیکن کسی کو کچھ پریشانی ہے؟ حکمران اپنے اللوں تللوں میں لگے رہتے ہیں اور ہم میڈیا والے بھی پتہ نہیں کن کن موضوعات پہ اپنے قلم گھسیٹتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پہ دو سو اشخاص ہیپاٹائٹس بی اور سی سے مر رہے ہیں۔ دہشت گردی یا گولی سے واقع ہونے والی موت ایک لحاظ سے رحمدل موت ہوتی ہے۔ ایک لمحے میں موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہیپاٹائٹس والی موت تو سسک سسک کے ہوتی ہے۔ پانچ سے دس سال آدمی روزانہ جیتا اور مرتا ہے۔ لیکن کوئی حکومتوں سے پوچھے کہ ہیپاٹائٹس کا مقابلہ یا تدارک کسی کی ترجیح ہے؟
رونا یہ ہے کہ یہ دس فیصد کا تناسب زیادہ تر نچلے یا غریب طبقات سے جڑا ہوا ہے۔ امیر علاقوں یا امیر آبادی میں یہ اموات واقع ہوں تو چیخ و پکار آسمان تک جائے اور ایک نیشنل ایمرجنسی نافذ ہو جائے۔ لیکن اس ریاست میں نچلے طبقات اِس عذاب میں ہوں تو کسی کو کیا پروا؟
اس بیماری کے پھیلاؤ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک دفعہ استعمال ہوئی سرنج یا انجکشن کا دوبارہ استعمال ہونا، یعنی سرنجیں استعمال ہوئیں اور اُنہیں کوڑا دان میں تو پھینکا گیا لیکن اُنہیں تلف نہ کیا گیا۔ کوڑا کرکٹ کی چھان بین کرنے والے اِن سرنجوں کو نکالتے ہیں‘ اور مکروہ انسان... پتہ نہیں انہیں انسان کہنا بھی چاہیے... ان سرنجوں کو دوبارہ پیکج کر کے مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں۔ ایسے مکروہ دھندے کی گولی بھی سزا ہو تو کم ہے۔ لیکن یہاں کوئی ٹس سے مس نہیں۔ سرکاری یا مہنگے نجی ہسپتالوں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں سرنجوں کی صحیح ڈسپوزل ہوتی ہے لیکن یہ جو دو نمبر قسم کے ہسپتال ہیں جو ہماری سرزمین پہ پھیلے ہوئے ہیں وہاں ایسا ہوتا ہے۔ سرنج استعمال کی اور پھر کوڑے میں پھینک دیا۔
دوسرا ذریعۂ پھیلاؤ حجام کا اُسترا ہے۔ ایک استرا جو اس بیماری کے وائرس سے آلودہ ہو وہ ہزاروں کو اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ لیکن پھر وہی بات، کسی کو کیا پروا؟
یہ نہیں کہ اس دھرتی پہ کام ہو نہیں سکتا۔ انتظامی مشینری گو زنگ آلود ہو چکی ہے پھر بھی کچھ کرنا ہو تو اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انگریز کا نظام ہم نے بگاڑ کے رکھ دیا‘ لیکن اَب بھی وہ مکمل طور پہ تباہ نہیں ہوا۔ ڈینگی کے مرض کو ہی لے لیجیے۔ پروفیسر نصرت اللہ چوہدری نے مجھ سے کہا کہ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے‘ جس نے ڈینگی پہ کنٹرول کر لیا۔ اور وہ اس لئے ہوا کہ چیف منسٹر شہباز شریف نے ڈینگی کا مقابلہ سیاسی ترجیح بنائی تھی۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو پوری انتظامی مشینری حرکت میں آ گئی۔ اس حرکت کا سہرا شہباز شریف کو جاتا ہے۔ دیگر ان کے جو بھی گناہ یا ان پہ جو بھی الزامات ہوں‘ یہ ایک کامیابی بہت سی خامیوں کو مٹا دیتی ہے۔
تو بات بنتی ہے سیاسی ارادے کی۔ سیاسی ارادہ ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن جہاں نہ سوچ ہو نہ ارادہ‘ وہاں کھوکھلی باتیں اور بے معنی نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔ ڈینگی ختم کرنے کی مہم میں کون سا آئی ایم ایف کا پروگرام درکار تھا؟ کس ورلڈ بینک نے اس کے لئے پیسے دیے تھے؟ ارادہ تھا اور ہر ضلعی انتظامیہ کی گردن مروڑی گئی۔ ہم جو بھی کہیں گردن مروڑنے کی صلاحیت شہباز شریف رکھتے تھے۔ یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ پاکستان کے حالات ایسے بن چکے ہیں کہ انتظامیہ کی گردن نہ مروڑی جائے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد‘ گو اِن کے ارادے نیک ہیں‘ کچھ بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ ڈنڈا وزیر صحت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہمارا نظام ہی ایسا ہے کہ یہ کام وزیر اعلیٰ ہی کر سکتا ہے۔ جہاں وزیر اعلیٰ نہ اپنے بارے میں کچھ جانے نہ دنیا کی پہچان رکھے‘ وہاں ارادے اور نیت اپنی جگہ لیکن عملی کام کچھ نہیں ہو سکتا۔ پلاسٹک کے شاپروں کی بیماری کو ہی لے لیجیے۔ اِن کی بدولت ملک میں تباہی پھیل رہی ہے۔ دیہات کی گلیوں سے لے کر شہر کے کوچوں تک پلاسٹک شاپروں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں۔ انہیں کوئی اٹھا کے لے بھی جائے تو بیماری ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ کمبخت چیز ہی ایسی ہے کہ سینکڑوں کیا ہزاروں سال ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کا آدھا گندگی کا مسئلہ ختم ہو جائے اگر پلاسٹک کے شاپروں پہ مؤثر پابندی لگ جائے۔ میں تو توقع رکھتا تھا کہ کم از کم عمران خان صاحب میں اتنی سمجھ ہو گی کہ پہلے دن ہی وہ ایسا قدم اٹھاتے۔ لیکن پہلے والے دن پتہ نہیں کن بھول بھلیوں میں گزار دئیے۔ اپنے بارے میں خیال اونچا رکھتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان بنیادی مسائل پہ اُن کی نظر بالکل نہیں۔ اگر شہباز شریف ڈینگی پہ قابو پا سکتے تھے تو عمران خان پلاسٹک کے شاپر کیوں نہیں ختم کر سکتے؟
پاکستان کا مسئلہ پیسوں اور معیشت کا تو ہے ہی۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ بد انتظامی اور انتظامی بد حالی کا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا مقابلہ، ہسپتالوں کو بہتر کرنا، استعمال شدہ سرنجوں کا پھر سے استعمال نہ ہونا اور پلاسٹک کے شاپروں پہ پابندی کے لئے نہ تو سعودی عرب سے رقم درکار ہے نہ چین سے۔ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو گا تو کیا اُس سے ہماری بد انتظامی بہتر ہو جائے گی؟ کیا نئی سڑکیں بننے سے ہمارے سیاسی ارادے زیادہ پختہ ہو جائیں گے؟ سوچ اور ویژن پہلے ہونے چاہئیں۔ سڑکوں اور پلوں سے سوچ نہیں بنتی۔
لیکن کیا کریں یہ سب باتیں ہی ہیں۔ ہم اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ اثر اس کا کسی پہ نہیں ہوتا۔ ہمارے دوست واصف ناگی ہر ہفتے شعبہ صحت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں۔ ہسپتالوں کے بارے میں لکھ لکھ کے تھک گئے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں پہ کوئی زیادہ پڑھتے بھی نہیں۔ سرکار اور طاقت کی زبان انگریزی ہے۔ اردو کے الفاظ زیادہ پڑھے جاتے ہیں لیکن اثر کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اردو طاقت اور اقتدار کی زبان نہیں۔
ایران میں عمران خان نے کیسی بے تُکی بات کہی کہ پاکستان میں بھی امیر غریب کا فرق کم ہو سکتا ہے اگر ایران جیسا انقلاب آئے۔ یہاں حالات کوئی انقلاب کے ہیں؟ یہاں ایسی لیڈرشپ ہے؟ نواز شریف بھی انقلاب کی بات کرتے تھے اور اس سے بڑا مذاق ہو نہیں سکتا۔ اب یہ ساری باتیں جو اس کالم میں کہی ہیں اس کا عثمان بزدار پہ کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اُن کو اپنی جان کی نہیں تو کرسی کی پڑی ہوئی ہے۔ اُن کی بلا جانے کہ ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ کتنا ہے۔ اور جہاں تک اس بیماری کی وجہ سے پنجاب میں روزانہ دو سو اموات کی بات ہے‘ یہ اُنہوں نے کبھی سُنی بھی نہ ہو گی۔