نون لیگ بیوقوفیوں سے مبرّا نہیں لیکن بے وقوفیاں کرتی ہے تو اقتدار میں۔ گردن میں سریا تب اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ ہوش سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں یہ کہاوت تو پرانی ہے کہ تیر اُوپر سے جا رہا ہو تو اِن کا جی تلملاتا ہے کہ چھلانگ لگا کے اُسے پکڑ لیں اور پیٹھ میں گھونپ دیں۔ لیکن یہ سب باتیں اقتدار کی ہوتی ہیں۔
حالات خراب ہوں تو سریا یکسر پگھل جاتا ہے اور پھر اِن سے سیانا اور حالات کا ادراک رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جنرل مشرف کو جُل دے گئے تھے۔ پتہ نہیں عرب دنیا میں کہاں کہاں سے اِن کے ہمدرد نمودار ہوئے جنہوں نے مشرف پہ دباؤ ڈالا کہ نواز شریف کو جانے دیں۔ اسلام آباد میں نوابزادہ نصراللہ خان کے توسط سے اپوزیشن جماعتوں کے مذاکرات ہو رہے تھے اور یہ جماعتیں ایک مشرف مخالف اتحاد بنانے کے تاؤ میں تھیں۔ یہ کوششیں جاری تھیں کہ نوابزادہ نصراللہ خان کو اطلاع ملی کہ شریف فیملی تو ایک سعودی جہاز میں سوار ہو رہی ہے اور اُن کا لمباچوڑا سامان بھی جہاز پر لَد چکا ہے۔ نوابزادہ صاحب آزمودہ سیاست کار تھے، بہت کچھ اپنی زندگی میں دیکھ چکے تھے لیکن شریفوں کی اِس واردات پر ہکا بکا رہ گئے۔
تو بھونچال اتنا کیوں مچا ہے کہ میاں شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمینی چھوڑ دی ہے اور اُن کا لندن میں قیام شاید تھوڑا سا طویل ہو جائے۔ شہباز شریف کا ہونہار داماد پہلے ہی مفرور ہو کر باہر بیٹھا ہوا ہے۔ سمجھدار بیٹا سلمان بھی باہر جا چکا ہے۔ میاں نواز شریف کے دونوں فرزندان لندن بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف بھی ضمانت پہ رہا ہو کے باہر جا چکے ہیں۔ پی ایس سی کی چیئرمینی میں کیا پڑا ہے؟ وہ تو ویسے ہی ایک فضول قسم کی سر دَردِی ہے۔ اصل بات ہے جان بچانا اور قدرے خوشگوار موسم میں جانا۔ وہ یہ کر چکے ہیں۔ قوم بے وقوف ہو گی، شریف برادران بے وقوف نہیں۔ یہاں پہ حالات اور موسم اُن کے لئے خوشگوار نہیں۔ یہ تو سادہ اور بے وقوف لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں کہ جماعت کو متحرک کیا جائے، تنظیم سازی کی جائے، حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ساری عمر شریف زادے ایسی فضول باتوں میں نہیں آئے۔ عمر کے اِس حصے میں اُنہوں نے کیا پاگل پَنے کو گلے لگانا ہے؟
وہ جو کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے، اوروں سے زیادہ شریفوں نے اِس عقل مندی پہ یقین رکھا ہے۔ جب مشرف برسر اقتدار آئے تو پورے شریف خاندان کی یہی سوچ تھی کہ جان ہے تو جہان ہے۔ اسی لیے کسی طعنے کو خاطر میں لائے بغیر اُنہوں نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ ہر قیمت پہ ملک سے فرار ہوا جائے۔ جنرل مشرف نے بڑا عقل مند ہونے کی کوشش کی۔ شرط رکھی گئی کہ شریف برادران دس سال کیلئے سیاست سے دستبردار ہو جائیں گے۔ باقاعدہ دستاویزات تیار کی گئیں جن پہ شریفوں کے دستخط مطلوب تھے۔ بغیر کسی تامل کے شریفوں نے صرف نیچے نہیں بلکہ ہر صفحے پہ اوپر نیچے دستخط کر دئیے۔ اپنے خلاف نیب کی کارروائیاں بھی رُکوا لیں اور سعودی جہاز پہ بیٹھے سرزمینِ مقدسہ پہنچ گئے۔ بہتوں نے طعنے دئیے کہ فرار ہو گئے ہیں لیکن شریفوں نے کوئی پروا نہ کی۔ اُن کے سامنے وہی سچ تھا کہ جان ہے تو جہان ہے۔
اِ ن کے پاسپورٹ لے لئے گئے تھے اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کی تحویل میں تھے۔ جب وقت گزرا اور اُکتاہٹ گھیرنے لگی تو سعودی عرب سے فرار کی خواہش پیدا ہوئی ۔ چکوال کے بریگیڈیئر نیاز احمد‘ جو اسلحے کا کاروبار کرتے تھے اور جن کا قیام لندن میں تھا‘ کا قریبی تعلق جنرل مشرف سے تھا۔ بریگیڈیئر نیاز کی طرف راستہ بنایا گیا اور شریفوں نے اُنہیں استعمال کیا۔ اُن کی وجہ سے اِن کے پاسپورٹ واپس ہوئے۔ پہلے سعودی عرب سے نکلنے میں کامیاب شہباز شریف ہوئے۔ عذر وہی پرانا تھا کہ ریڑھ کی ہڈی میں درد رہتا ہے اور نیو یارک کے علاوہ کہیں کوئی علاج ممکن نہیں۔ کئی لحاظ سے جنرل مشرف سادہ انسان تھے۔ اِن باتوں میں آ گئے اور شہباز شریف کو نیو یارک جانے کی اجازت مل گئی۔ اِن سے اقرار نامہ لیا گیا کہ وہ واپس آئیں گے۔ اقرار نامے کے ہر صفحے پہ اوپر نیچے شہباز شریف نے دستخط کیے لیکن ایک بار سعودی عر ب کے سنہری پنجرے سے فرار ہوئے تو کس بد بخت نے واپس آنا تھا۔ نیو یارک سے لندن آئے اور ہیتھرو ائیر پورٹ پہ اِن کی کمر کو پھر سے شدید درد لاحق ہو گیا۔ ایک دوست قسم کا ڈاکٹر ائیر پورٹ آیا جس نے رپورٹ لکھی کہ یہ تو جہاز پہ سفر کے قطعاً قابل نہیں۔ ائیر پورٹ سے واپس لندن چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو گئے۔ حکومتی اہلکار شہباز شریف کے دستخط شدہ اقرار نامے کو تَکتے رہ گئے۔
قوم کو وہ منظر بھی یاد ہو گا جب نواز شریف نے 2007ء میں وطن واپسی کی کوشش کی تھی۔ اُن کا واپس آنا سعودیوں سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شریفوں نے اس وقت کہا کہ معاہدہ سرے سے کوئی ہوا ہی نہیں۔ جب مشرف حکومت نے سعودیوں سے شکایت کی کہ دیکھ لیں‘ جن کی آپ ضمانت دے رہے تھے وہ کیا کر رہے ہیں تو تب کے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ پرنس مقرن کو اسلام آباد آنا پڑا اور ایک پریس کانفرنس سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا لہرایا اور کہا یہ وہ معاہدہ ہے جس پہ شریفوں نے دستخط کیے تھے۔ اس پر شریف بالکل معصوم بن گے اور کہا کہ ہاں ایک معاہدہ تھا لیکن پانچ سال کیلئے دس سال کیلئے نہیں۔
جنرل مشرف کے تجربے سے ہمارے بڑے (بڑے سے آپ مطلب سمجھ گئے ہوں گے) کچھ سبق سیکھ چکے ہیں۔ ڈھیل تو شریفوں کو مل رہی ہے لیکن چھوٹ نہیں۔ شہباز شریف کا باہر جانے کا راستہ نہیں روکا گیا لیکن عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کی وہ اپیل نہیں مانی کہ چھ ہفتے کی ضمانت دائمی ہو جائے۔ ہر قسم کا علاج نواز شریف کیلئے حاضر ہے۔ پاکستان کے تمام ہسپتال اُن کیلئے کھلے ہیں۔ صرف اُنہیں جیل سے فرار ہو کر باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یہ اِسے انتہا کا ظلم سمجھیں تو اُن کی مرضی لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بیماری کی بنیاد پہ کسی کو رہائی مل جائے؟ ایسا کرنا ہے تو پاکستان کی ساری جیلیں خالی ہو جائیں اور ہر قیدی بیماری کو عذر بنا کے رہائی کی درخواست دے دے۔
بہرحال اتنا تو واضح ہے کہ اقتدار سے معزولی کے بعد نون لیگی قیادت بہت کچھ سیکھ چکی ہے۔ وہ جی ٹی روڈ مارچ کے وقت کے لگائے گئے نعرے محض وَقتی جذبے کا مظہر تھے۔ ساری جھاگ بیٹھ چکی ہے۔ نہ غزنی میں تڑپ رہی نہ خم ہے زُلفِ ایاز میں۔ جاتی امرا سے تو چُوں بھی نہیں نکل رہی۔ گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہاں کوئی رہ رہا ہے۔ بس اِتنی ہی فکر ہے کہ یہ ناگوار موسم جیسے تیسے بھی ہو گزر جائے۔
یہ جو باتیں ہیں کہ نون لیگی حلقے مضطرب ہیں کہ ہمیں واضح لائن نہیں دی جا رہی اور ہمیں پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے‘ یہ سب بیکار کی ہیں۔ نون لیگ کئی دفعہ ایسے ادوار سے گزر چکی ہے۔ مشرف کے دور میں بھی ایسی باتیں ہوتی تھیں لیکن جب ملکی سیاست نے کروٹ بدلی اور شریف واپس وطن آ گئے تو ایسی سب باتیں دَم توڑ گئیں اور نون لیگ اپنے اصل مزاج کی طرف لوٹ آئی۔ یہ تو عوام یا اُس کا کچھ حصہ سادگی کا شکار ہو کے جذباتی باتوں میں آ جاتے ہیں کہ مزاحمت ہونی چاہیے اور تحریک چلنی چاہیے۔ سیاست کی موٹی گردنیں ایسی فضول کی باتوں میں نہیں آتیں۔ اُن کا مطمح نظر اور اولین ترجیح اپنے اثاثوں اور دولت کو بچانا ہوتا ہے۔ مزاحمت اور تحریکوں کے خیالی پلاؤ عام لوگوں کیلئے ہوتے ہیں۔ عوام کی دنیا ہمیشہ سے اور رہی ہے اور شریفوں اور زرداریوں کی دنیا یکسر الگ ہے۔