جن کو قوم کا فکر لاحق ہے انہیں داد ہی دے سکتے ہیں۔ اور جن کو یہ فکر مسلسل رہتی ہے اُن کی حب الوطنی کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ قوم بھی ہے کہ جس کے مختلف امراض میں افاقہ نہیں ہوتا۔ ایک بیماری ختم نہیں ہوتی کہ دوسری آن پڑتی ہے۔ ایسے میں کتنی فکر کی جائے؟ فکر کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم نے تو سب حدیں پھلانگ لیں۔ بیس سال کی عمر سے قوم کی حالت کے بارے میں فکر میں مبتلا رہے ہیں۔ یہی امید رہی کہ اب حالت سنبھلی اور اب مستقبل خوشحالی کی طرف مڑ گیا۔ لیکن اب تھک چکے اور کچھ عقل بھی آ گئی کہ ایسی فکر کا کچھ فائدہ نہیں۔
اب یہ جو ریفرنس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیا گیا ہے، اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔ جسٹس صاحب کوئی ایسے بھی بڑے جج نہیں اور دنیا کو ہلا دینے والے اُنہوں نے کوئی فیصلے نہیں لکھے۔ بس ایک آدھ فیصلے میں کچھ اداروں کے بارے میںکچھ کہہ گئے۔ میری اپنی ناقص رائے میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئے جس کی اتنی ضرورت نہ تھی۔ لیکن کون سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گئے تھے؟ ایک آدھ جج ایسے ریمارکس دے دے تو تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ویسے بھی رمضان کا مہینہ ہے۔ یوں تو کہتے ہیں کہ اس مہینے میں صبر آ جاتا ہے لیکن گناہگاروں کا مشاہدہ کچھ اور ہے۔ صبر کی بجائے ہر اطراف بے صبری ہی نظر آتی ہے۔ اس ریفرنس کے دائر کرنے میں بھی بے صبری کی جھلک نمایاں ہے۔ اب جسٹس فائز عیسیٰ کو پتہ نہیں کچھ ہوتا ہے یا نہیں لیکن بعض حلقوں کی طرف سے اُن کو ایک ہیرو کے طور پہ پیش کیا جائے گا ۔
سوال اُٹھتا ہے کہ ایسی فضول کی بے وقوفیوں کے ہم ماہر کیوں ہیں؟ ایک تو یہ ہے کہ مسئلے آسمان سے گریں۔ اُن کا تو بشر کچھ نہیںکر سکتا۔ آسمان سے گری ہوئی مصیبتوں کو برداشت ہی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسی مصیبتیں ہوتی ہیں جن کو انسان خود پیدا کرتا ہے۔ تیر ہوا میں چل رہا ہو اور اُسے ضرور پکڑنا ہے۔ بم سڑک سے دور پڑا ہو لیکن راستے سے ہٹ کے اُس کو ضرور لات مارنی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی عدلیہ کے حوالے سے کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا تھا تو کر دیتے اور نارمل کارروائی کا انتظار کرتے۔ لیکن اُن کو بے صبری لے بیٹھی اور انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری سے زبردستی استعفیٰ لینے کی کوشش کی۔ مسئلہ تھا نہیں لیکن اس زبردستی سے مسئلہ راتوں رات کھڑا ہو گیا اور پھر ایسے بنا کہ جنرل صاحب کی ہر ترکیب ناکام ہوئی۔
پلک جھپکنے میں ایک ہلچل مچ گئی اور اس ہلچل سے ایک تحریک کھڑی ہو گئی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت سمجھدار ہاتھوں میں تھی۔ صدر سپریم کورٹ بار ہمارے لارنس کالج کے منیر ملک تھے اور اُن کے ساتھ ایگزیکٹیو باڈی میں علی احمد کرد اور جسٹس (ر) طارق جیسے آزمودہ وکلاء تھے۔ انہوں نے احتجاج کی کال دی اور ملک بھر کے وکلاء سڑکوں پہ آنے لگے۔ ہمارے دوست چوہدری اعتزاز احسن نے بھی موقع کو غنیمت سمجھا اور وہ جسٹس چوہدری کی ڈرائیوری کے فرائض سرانجام دینے کیلئے تیار ہو گئے۔
نئے نئے ٹی وی چینل کھلے تھے اور اُن کا کسی تحریک کی کوریج کرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ٹی وی کیمروں نے اُس تحریک کو اُٹھا لیا۔ جہاںدو اڑھائی سو وکلاء اکٹھے ہوتے کیمرے کے زاوے سے ایسے لگتے کہ وہ جمِ غفیر ہے۔ کالے کوٹ پہنے وکلاء کیمرے کی آنکھ میں بند ہوئے تو اس تجربے سے وہ جھوم اُٹھے۔ چونکہ ہم بھی اُس تحریک میں اپنی حد تک اچھل کود کر رہے تھے۔ ہماری گناہگار آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ وکلاء جب کیمرے کے سامنے آتے تو ہٹنے کا نام نہ لیتے۔ کوئی اینکر، مرد یا خاتون، تبصرہ کر رہا ہوتا تو وکلاء کی ایک لائن پیچھے کھڑی ہو جاتی اور کوئی طاقت اُنہیں وہاں سے ہٹا نہ سکتی۔
اس تحریک کی پہلی چنگاری 9 مارچ 2007ء کو سلگی تھی۔ تب یہ خیال عام تھا کہ جنرل مشرف اس مضبوطی سے کرسیٔ اقتدار پر بیٹھے ہیں کہ اُنہیں کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی۔ وکلاء کی تحریک اُٹھی تو تمام سیاسی پارٹیوں نے اُسے موقعہ جانا‘ اور اس تحریک میں شامل ہو گئیں۔ دن بدن تحریک زور پکڑتی گئی اور ٹی وی کیمروں نے بھی اُسے خوب اُچھالا۔ کہیں جلسہ ہوتا اور تقاریر چلتیں تو گھنٹوں ٹی وی چینل لائیو کوریج کرتے۔ ہمارے دوست علی احمد کرد‘ جو بہت بہترین مقرر ہیں‘ تقریر کرتے تو اُن کے چاندی نما بال ماتھے پہ گرتے۔ وہ ہاتھ کی ایک جنبش سے بال پیچھے کرتے اور پھر جنرل مشرف کے خلاف برسنے لگتے۔ روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ پولیس نے ایک دو بار کوشش کی لیکن اس حرکت میں اس کا دل نہ تھا۔ بے دلی سے کیا کام ہو سکتا ہے؟ کم از کم کوئی تحریک، اور یہ بپھری ہوئی تحریک تھی، کچلی نہیں جا سکتی۔ تمام کے تمام ادارے بھی جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے نہ تھے۔ نتیجتاً جنرل مشرف کی اقتدار پہ گرفت کمزور ہوتی گئی اور جب ججوں کی برطرفی کا مسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا‘ تو ماحول ایسا بن چکا تھا کہ سپریم کورٹ کیلئے کوئی مشکل نہ رہی کہ وہ جنرل مشرف کے اقدام کو کالعدم قرار دے۔ جنرل مشرف اقتدار میں تو رہے لیکن صحیح معنوں میں اُن کا اقتدار رہا نہ تھا۔ ہر ایک کو نظر آ رہا تھا کہ اُن کا سورج غروب ہونے کو ہے۔
بات لمبی ہو گئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا پھر ہونے جا رہا ہے۔ وہ صورتحال اور تھی اور یہ اور لیکن اتنی بات تو ہے کہ یہ موجودہ ریفرنس ایک انتقامی کارروائی کے طور پہ ہی دیکھا جائے گا۔ اور چاہے جسٹس فائز عیسیٰ یا اُن کی بیگم کی کچھ بیرون ملک ظاہر نہ کی ہوئی جائیداد ہے یا نہیں‘ بحث ایک اور طرف ابھی سے چل پڑی ہے کہ مقصد انصاف یا احتساب نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
ہم تو ایسے فضول کے مسئلوں سے تنگ آ چکے۔ ایسے ہی زندگی گزر چکی ہے۔ باقی بھی گزر جائے گی۔ اب تو صبح کا آغاز پرانی فلموں کے سنگیت سے کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ریڈیو سیلون کا یہ مقبولِ عام پروگرام ریڈیو پہ سنتے تھے۔ اب نیٹ پہ سن لیتے ہیں۔ ہر روز صبح نیٹ پہ آ جاتا ہے۔ اور جو ریڈیو کے سننے میں آواز کی دشواری ہوا کرتی تھی وہ نیٹ کے ذریعے نہیں ہوتی۔ ایسے ایسے گانے سننے کو ملتے ہیں جو ہم جیسوں نے بھی نہ سنے ہوں۔ ہم جیسے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ پرانی موسیقی کے ہم پاپی رہے ہیں۔ اور سمجھتے رہے ہیں کہ سب گانے ہم نے سنے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا کیا انمول موتی ہیں جو کہ صرف اس یوٹیوب کے کرشمے سے ہم کو مل جاتے ہیں۔ دو روز ہی ہوئے فلم 'اپنی عزت‘ سے راجکماری کا گایا ہوا ایک بہت ہی حسین گانا سنا۔ کیا بول ہیں اس کے ''تمہیں اپنا بنایا تھا‘‘۔ اس گانے کی لازوال موسیقی ہنس راج بہل کی ہے۔ ایک اور گانا بھی سُننے کو ملا، طلعت محمود اور آشا بھوسلے کا، ''حسین چاند ستاروں کا واسطہ آ جا‘‘۔ طرز حفیظ خان کی ہے۔ آپ یہ گانے سنیں تو اخباروں کی تمام سُرخیاں بھول جائیں۔
اب دل بس باغبانی پہ ہے۔ کچھ پھلوں کے پودے لگائے جائیں۔ کچھ اپنی سبزی اگائی جائے۔ اور پھر اچھی موسیقی سنی جائے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اپنا گلستاں ہو چاہے کتنا بھی چھوٹا۔ شہر بہت دیکھ چکے اور ہمارے شہروں میں کون سی موسیقی یا ڈانس پرفارمنس کا اہتمام ہوتا ہے کہ ہم شہروں کو ترسیں۔ مجبوری سے لاہور جانا پڑتا ہے۔ لیکن کام ہو جائے تو فوراً واپس لوٹتے ہیں۔ کہیں فضول کام ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، ہماری بلا سے۔