اخبارات سے جان چھڑا نہیں سکتے۔ کچھ عادت ہے کچھ روزگار کا مسئلہ۔ عادت یوں کہ کم عمری سے ہی والد صاحب سے تلقین ملتی تھی کہ اخبار ضرور پڑھنا ہے۔ لارنس کالج سے سردیوں کے تین مہینے چھٹی آتے تو پاکستان ٹائمز لگ جاتا تھا۔ کم عمری میں بھی والد صاحب کا یہ کہنا ہوتا کہ ایڈیٹوریل ضرور پڑھنا۔
پاکستان ٹائمز کا معیار بھی تب بہت عمدہ تھا۔ سرکاری تحویل میں تو اخبار تھا ہی لیکن ایڈیٹنگ کا معیار بہت بلند تھا۔ کسی معمولی سی خبر میں بھی گرائمر کی غلطی نہ ہوتی۔ کوئی بڑا کیس لاہور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں سنا جاتا تو اُس کی رپورٹنگ مفصّل ہوتی۔ مثلاً علی نواز گردیزی کی اہلیہ کرسٹینا ریناٹا کا مشہور کیس‘ جس کا محور تھا اپنے زمانے کی مشہور شخصیت کرنل یوسف کے ساتھ اُن کا چلے جانا۔ گردیزی صاحب‘ جو جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سی ڈی اے کے چیئرمین رہے‘ نے کرنل یوسف اور اپنی اہلیہ یا سابقہ اہلیہ پہ کیس کر دیا‘ جس کا خوب چرچا ہوا۔ پاکستان ٹائمز میں اس کیس کی مفصّل رپورٹنگ کا مزہ آتا۔ آج کل ایسی رپورٹنگ نہیں ملتی۔ بعض اوقات تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ عدالت میں ہوا کیا ہے۔
ایوب مخالف تحریک میں جب ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے تو اُن کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر ہوئی اور پھر اُس پہ مبنی عدالتی کارروائی کی پاکستان ٹائمز میں مفصّل رپورٹنگ ہوتی۔ رٹ پٹیشن بھٹو صاحب کی اپنی لکھی ہوئی تھی اور بڑی چٹخارے والی تھی۔
عرض کرنے کا مطلب یہ کہ اخبارات زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ ہم نے فردوس کا نظارہ کیا کرنا ہے اور بڑے دروازوں سے اندر ہمیں جانے بھی کون دے گا‘ لیکن فردوس کے متبادل بھی گئے تو اخبارات کا تقاضا وہاں بھی رہے گا۔ لاہور کے جس سرائے میں قیام ہوتا ہے وہاں بغیر پوچھے صبح ہمارے دروازے پہ پانچ اخبارات لٹکا دئیے جاتے ہیں اور اُنہیں کافی کے ساتھ پڑھے بغیر دن کا آغاز نہیں ہوتا۔ والد صاحب بھی کم از کم چار اخبارات پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ آغا شورش کاشمیری کا چٹان اور نوائے وقت کا ہفتہ روزہ قندیل بھی باقاعدگی سے چکوال کے گھر آتے تھے۔ لوگوں کا جمگھٹا بھی ہوتا تو اخبارات کے پڑھنے میں کوئی مداخلت برداشت نہ ہوتی۔ مطالعہ مکمل ہوتا تب ہی توجہ کہیں اور ہٹتی۔
لیکن زندگی کا جزو ہونے کے باوجود اب اخبارات کا مطالعہ محال ہوتا جا رہا ہے۔ اخبارات کی تھدی تو سامنے ہوتی ہے لیکن مطالعے سے بوریت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک تو اخبارات کی خبروں کا وہ معیار نہیں رہا‘ لیکن کچھ عمر کا بھی سوال ہے۔ اب بیشتر موضوعات دل کو نہیں لگتے۔ بجٹ کی رپورٹنگ تو اتنی ناقص ہوتی ہے کہ پڑھی نہیں جاتی۔ پھر جو سیاسی خبریں زرداری اور شریفوں کے گرد گھومتی ہیں‘ انہیں انسان سینے سے لگا کے کرے بھی کیا۔ سیاست کا معیار ایسا گر چکا ہے کہ اُس میں دلچسپی پیدا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ لیڈر جن سے ہماری جان نہیں چھوٹ رہی اُن کی کہانیاں کتنی دفعہ انسان پڑھ سکتا ہے۔ کس نے کتنا مال بنایا، ڈاکے کہاں ڈالے، جائیدادیں کہاں بنائیں، اس پہ اب کتنا غصہ کیا جا سکتا ہے؟ احتساب تو ایسا لفظ ہے جس کو سنتے سنتے کان پک چکے ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے سے احتساب کا سنتے آ رہے ہیں۔ یہ ہمیں معلوم ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ جو تگڑے اور مالدار لوگ ہیں وہ ایسے ہی رہیں گے۔ اُن کی جائیدادیں ضبط ہونے نہیں جا رہیں۔ بڑے بنگلے اور زمینیں ویسے ہی رہیں گی تو پھر چیخنے چلانے کا فائدہ کیا؟
بخار ہوتا ہے تو اورچیزوں کی وجہ سے۔ یہ پلاسٹک کے شاپروں کی لعنت کے بارے میں ہماری مملکت میں کوئی کیوں نہیں سوچتا؟ یہ لعنت تباہی کا موجب ہے، اس پہ مکمل اور فوری پابندی میں کیا امر مانع ہے؟ میں تو اس بھول میں تھا کہ عمران خان بڑے فیصلہ کن انسان ہیں۔ آتے ہی بڑے بڑے فیصلے کریں گے اور کم از کم پہلے ہلے میں ہی اس لعنت پہ پابندی عائد ہو جائے گی۔ لیکن نہیں، وہی فضول باتیں کہ پہلے پابندی اسلام آباد میں لگے گی اور پھر دیکھا جائے گا۔ پلاسٹک کے شاپروں کی وجہ سے ہولناک گندگی اور تباہی آنکھوں کے سامنے ہے‘ لیکن دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت اس لعنت کے سامنے بے بس ہے۔
پچھلے ہفتے ڈرائیور بیمار تھا۔ لاہور سے گاڑی خود چلانا پڑی۔ رات کا وقت تھا اور جونہی لاہور سے چکوال کی طرف موٹر وے پہ نکلے تو ٹھوکر نیاز بیگ سے لے کر کلر کہار تک ہر آنے والی گاڑی فل لائٹیں مار رہی تھی۔ موٹر وے پہ فل لائٹوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی‘ لیکن کیا کہا جائے‘ اس ملک اور اس کے پڑھے لکھے لوگوں کا کہ معمولی سی عقل کی بات دماغوں میں نہیں آتی۔ اب بتائیے کہ کون سا آئی ایم ایف کا درس ہے‘ جو پاکستانیوں کو سمجھانے میں مددگار ثابت ہو گا کہ ایسی حرکتیں فضول بھی ہیں‘ اور خطرناک بھی؟ ایسے موضوعات کے حوالے سے قوم کی تدریس کون کرے گا؟ کون قوم کے پڑھے لکھے ان پڑھوں کو بتائے گا کہ جب سڑک پہ گاڑی میں جا رہے ہوں اور منہ میں آلو کے چپس یا دوسری ایسی فضول اشیا کے پھکے مار رہے ہوں‘ تو خالی پیکٹ کو سڑک پہ نہیں پھینکا جاتا؟ کون اس قوم کو درس دے گا کہ کہیں کسی پارک یا سڑک کے کنارے پلاسٹک کی پلیٹیں یا پیکٹس پیچھے نہیں چھوڑے جاتے؟ ایسے رویے ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ کیسے تبدیل ہوں گے؟ دلچسپ امر یہ ہے اپنے آپ کو پڑھے لکھے سمجھنے والے ایسا کرتے ہیں۔ جسے دو وقت کی روٹی کی پڑی ہو اُس نے ایسی عیاشیاں کہاں کرنی ہیں۔
مجھے جاپان جانے کا ایک ہی دفعہ اتفاق ہوا ہے اور وہ بھی آج سے تقریباً تیس سال پہلے۔ میں جاپان کی ترقی سے اتنا مرعوب نہیں ہوا جتنا کہ ان کے عمومی رویوں سے۔ ٹوکیو میں رات ایک بجے کسی چھوٹی سڑک پہ ٹریفک نہ بھی ہوتی تو پیدل چلنے والے سڑک عبور نہ کرتے جب تک کہ سامنے لائٹ سبز نہ ہو جاتی۔ مرد و خواتین مے کدوں سے جھومتے ہوئے نکلتے لیکن مجال ہے کہ لال بتی ہو اور سڑک عبور کریں۔ ہم تو پتہ نہیں کن کن چیزوں پہ اور اپنے ماضی کے کن کن دریچوں پہ نازاں ہیں۔ لیکن جو ہمارا کلچر اور عمومی رویے بن چکے ہیں‘ اُن سے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی درس کے ہم قائل نہیں۔
جو ہمارے مسائل ہیں وہ تو ہیں۔ معاشی مسائل ہیں، غربت کے مسائل ہیں۔ لیکن کون سی غربت یا کون سا معاشی بحران ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ اپنی عام زندگی میں ہم تھوڑا بہتا صفائی کا خیال رکھیں؟ ویسے تو ہم کہتے تھکتے نہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس تلقین کا اثر ہم پہ واجبی سا بھی نہیں ہے۔
ایک نیا دارالخلافہ بنانے کی ضرورت چنداں نہ تھی لیکن ایوب خان پتہ نہیں کس خیال کے تحت ایک نئے دارالخلافے کی بنیاد رکھ گئے۔ سڑکیں بن گئیں، گھر بھی آباد ہو گئے لیکن اس دارالخلافے میں اب تک گندگی کو تلف کرنے کا نظام نہیں ہے۔ اسلام آباد کی گندگی کبھی ایک جگہ ڈھیر کی جاتی ہے اور وہ جگہ بھر جائے تو کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ بتائیے ایسی سوچ کا علاج کیا ہے؟ بے ہنگم طریقے سے اسلام آباد پھیل چکا ہے اور پھیلتا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ اب سچ پوچھیے تو رہنے کے قابل نہیں رہا۔ مغلوں اور انگریزوں کا لاہور دیکھ لیجیے۔ ٹریفک بڑھ چکی ہے لیکن لاہور کا بنیادی نقشہ بہت اچھا اور خوبصورت ہے۔ ایسی خوبصورتی اسلام آباد میں کیوں نہ لائی جا سکی؟
بہرحال یہ الگ کہانی ہے۔ فی الحال تو اس تکلیفوں کی ماری قوم کو کچھ بنیادی سبق سکھا دئیے جائیں... کہ بابا آسمانوں نے گاڑی کی توفیق دی ہے تو صحیح استعمال کرنے کا ڈھنگ تو کہیں سے آ جائے۔