شروع کا نکتۂ احتجاج یہ نہیں ہے کہ ہم سے ٹیکس لیے جا رہے ہیں۔ اصل نکتۂ اضطراب یہ ہے کہ ہم سے پوچھا کیوں جا رہا ہے۔ ہمیں ٹیکس فائلر بننے کو کیوں کہا جا رہا ہے۔ ٹیکس کا تعین ہونا اور ٹیکس دینا تو بعد کی باتیں ہیں فی الحال بھاری تجوریاں رکھنے والے مضطرب اس بات پہ ہیں کہ ہمیں ٹیکس کے نیٹ میں لایا کیوں جا رہا ہے۔
پاکستان میں دو قسم کے ہی ٹیکس ہیں۔ ایک بالواسطہ یعنی جو ہر شے پہ لگ جاتا ہے اور جو اُس لحاظ سے ہر خریدار کی جیب پہ پڑتا ہے۔ دوسرا تنخواہ دار طبقے پہ ٹیکس یعنی جو تنخواہیں سیدھا بینکوں میں آتی ہیں اور یہ رقوم چھپائی نہیں جا سکتیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ملک کا ایک فیصد طبقہ ہی ٹیکس دیتا ہے تو اشارہ اسی ایک فیصد کی طرف ہوتا ہے جو بینکنگ ذرائع سے آئی ہوئی تنخواہوں کو چھپا نہیں سکتا۔ اب تک حکومتیں اسی ایک فیصد پہ ہاتھ رکھتی آئی ہیں کیونکہ ایسا کرنا آسان ہے۔
پاکستان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی طبقات چاہے وہ وکلا اور ڈاکٹرز جیسے پروفیشنلز ہوں یا تاجر برادری، چھوٹے دکاندار سے لے کر بڑے تک، یا تو ٹیکس دیتے ہی نہیں اور ٹیکس دینا تقریباً گناہ کے مترادف سمجھتے ہیں یا واجبی سا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اب جب بحالتِ مجبوری حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش میں ہے تو ٹیکس سے مستثنیٰ طبقات اُونچے درجے کے بخار میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اسی بناء پہ سراپا احتجاج ہیں۔ یہ اتنی جیب یا استطاعت کی بات نہیں جتنا کہ مزاج کی۔ ہمارے وسیع تر طبقات نے خود میں ٹیکس دینے کی عادت ہی نہیں ڈالی۔ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے دس پندرہ سال بعد تک درمیانے دکاندار بھی کھاتے رکھتے تھے اور گاہکوں کو رسید دیا کرتے تھے۔ شروع میں رسید بغیر پوچھے دی جاتی تھی۔ پھر دکان دار ڈبل کھاتے رکھنے لگ پڑے، ایک اصلی اور ایک ٹیکس حکام کیلئے ۔ 60ء کی دہائی کے آخر میں اور 70ء کی دہائی کے شروع میں کھاتے رکھنے کی روایت بتدریج ختم ہوتی گئی۔ اب تو خریدوفروخت کے نہ کھاتے رکھے جاتے ہیں اور نہ ہی اشیائے فروخت کی رسیدیں دی جاتی ہیں۔ خود آزما لیجیے۔ پرچون کے کسی دکاندار سے رسید مانگیں تو وہ آپ کے منہ کو تکنے لگ جائے گا کہ کون پاگل آیا ہے اور کیا بَک رہا ہے۔
حالات کی خرابی تو پہلے سے شروع ہو چکی تھی لیکن جب شریفوں کی جماعت برسرِ اقتدار آئی تو جو کسر دکاندار طبقات کے مزاج کے بگڑنے میں رہ گئی تھی وہ پوری ہو گئی۔ پہلی دفعہ میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو محکمہ انکم ٹیکس کو حکم صادر ہوا کہ جو ٹیکس ریٹرن فائل کی جائے گی اُسے حکماً من و عن تسلیم کیا جائے گا اور اُس کا کوئی آڈٹ نہیں ہو گا۔ دکاندار طبقات نے بغلیں بجائیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کسی شہر کی کسی مارکیٹ میں چلے جائیں، چھوٹے دکان داروں کو تو چھوڑئیے، بڑے سے بڑا دکاندار واجبی سا ٹیکس ہی ادا کرتا ہے۔ یہ مزاج ایسا پکا ہوا اور پھر ایسا بگڑا کہ جنرل مشرف نے باوردی افسران مارکیٹوں میں بھیجے کہ دکانداروں کو ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پہ قائل یا مجبور کیا جائے۔ لیکن آگے سے مزاحمت اتنی سخت ہوئی کہ حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
اب کے حالات مختلف ہیں۔ ملک کی وہ حالت ہو گئی ہے کہ ٹیکسوں کا جال پھیلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دکاندار طبقات سراپا احتجاج تو ہیں اور کئی اطراف سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی بھی کال آئی ہے‘ اس کے باوجود مضطرب طبقات جانتے ہیں کہ پرانی ڈگر پہ چلنا اب مشکل ہو گیا ہے اور ٹیکس نہ دینے والی پالیسی مزید چل نہیں سکتی۔ اس لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال میں بھی وہ جوش و جذبہ نہیں جو مثال کے طور پہ 1977ء کی بھٹو مخالف ہڑتالوں میں ملتا تھا۔
حکومت کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں۔ عمران خان جو بھی کریں، دکاندار طبقات جو بھی کہیں، عمران خان کے پاس یہ آپشن ہی نہیں ہے کہ وہ پیچھے ہٹیں اور بے جا قسم کی ریلیف تاجر برادری کو دیں۔ اعلان کردہ اقدامات واپس لیے گئے تو ساری کی ساری معاشی منصوبہ بندی خطر ے میں پڑ جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پھر نہیں چھوڑنا۔ یہاں تک نوبت آنی ہی نہیں کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا حکومت پیچھے قدم رکھنا افورڈ ہی نہیں کر سکتی۔
معاشی بے چینی کے دور میں حکومتیں تب کمزور پڑتی ہیں جب انہیں مقتدر اداروں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ ایسی صورتحال یہاں نہیں ہے۔ مقتدر ادارے حکومت کے ساتھ ہیں، اس لیے نہیں کہ اُنہیں عمران خان سے کوئی خاص محبت ہے بلکہ اس لیے کہ سخت اقدامات کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ حکومت کی جیب خالی ہے۔ فارن ایکسچینج ذخائر نیچے آ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے امداد لینا ناگزیر ہو چکا تھا۔ ایسا نہ کرتے تو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کا کشکول خطرے میں پڑ جاتا۔ کشکول کے کاروبار کا چلنا آئی ایم ایف پروگرام پہ محیط تھا۔ دکاندار طبقات بھی ایک حد تک جا سکتے ہیں، اُس سے زیادہ نہیں۔ خاص طور پہ جب اُنہیں معلوم ہو کہ میدان میں وہ اکیلے رہ جائیں گے اور مقتدر حلقوں سے انہیں کوئی آشیرباد نہیں ملے گی۔
جو تعطل آ رہا ہے... اور تعطل کا لفظ یہاں بطور احتیاط استعمال کیا جا رہا ہے... اُسے حکومت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اور جس مخصوص دن کام شام بند ہو جائے اُسے یوم صفائی کے طور پہ منانا چاہیے۔ شٹر یا دروازے بند ہوں اور بازاروں میں آمدورفت کم ہو تو صفائی کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو اس پہلو پہ غور کرنا چاہیے اور صفائی کے متعلقہ اداروں کو چوکنا کرنا چاہیے۔ کاروباری مراکز گندگی سے لت پت رہتے ہیں۔ روزمرّہ کی زندگی میں تعطل پیدا ہو تو سڑکوں اور گلیوں سے گندگی اُٹھانے کا مخصوص اہتمام ہونا چاہیے۔ میں اگر اپنا حوالہ دے سکوں تو لاہور میں قیام کے دوران کبھی اندرون شہر جانا ہو یا دہلی دروازے سے ملتانی چادریں خریدنا ہوں تو اس کام کیلئے اتوارکا دن ہی مناسب ہوتا ہے۔ تب ہی آپ مال سے باآسانی سرکلر روڈ کی طرف جا سکتے ہیں۔ نہیں تو ٹریفک ایسی بے ہنگم ہو گئی ہے کہ خدا کی پناہ۔
ایک بات قابل غور ہے۔ عوام مہنگائی کی وجہ سے تکلیف میں تو ہیں لیکن موجودہ مہنگائی کے وار عام آدمی نے سہہ لیے ہیں۔ مہنگائی کے خنجر سینے میں پیوست ہوں گے لیکن اِس اَمر کو برداشت کیا جا رہا ہے۔ جو موجودہ صورتحال کو برداشت نہیں کر رہے وہ تاجر طبقات ہیں۔ اُن کی بقاء کا سوال نہیں، منافع خوری میں کمی کا خطرہ ہے۔ اس ڈر سے نیندیں حرام ہو چلی ہیں۔
ایک اور نکتہ ہے کہ حالات جتنے بھی خراب ہوں اور اضطراب جتنا بھی زیادہ ہو‘ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ متبادل کیا ہے۔ عمران خان نہ بھی ہوتے کسی کی بھی حکومت ہوتی اُسے یہی کرنا پڑتا۔ بھکاریوں کے پاس کیا چوائس ہوتی ہے؟ آئی ایم ایف کو گالی دینا تو بڑی آسان بات ہے لیکن کسی ماہر معیشت کا میں نے ایک مضمون بھی نہیں پڑھا کہ اگر پاکستان موجودہ حالات میں آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرتا تو اور کیا کرتا۔ یہ جو ڈالر کے بارے میں شور ہے‘ اسحاق ڈار کو پتا نہیں کس کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ مصنوعی طریقوں سے ڈالر کو سستا رکھنے سے ملک کو کیا فائدہ پہنچا۔ سستے ڈالر سے ہماری امپورٹ یعنی درآمدات سستی ہوئیں۔ ظاہر ہے ڈالر سستا ہے تو امپورٹ بھی سستی ہو گی۔ قوم کے امیر طبقات کا مسئلہ ہی یہی رہا کہ عیاشیوں پہ ملکی دولت برباد کر دی۔ یہ اور بات ہے کہ ڈالر ضرورت سے زیادہ مہنگا ہو گیا ہو۔ لیکن دیہات میں رہتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈالر کے مہنگا ہونے سے سبزی پیاز کی قیمت میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ اللوں تللوں کی قیمت ضرور بڑھ جاتی ہے لیکن ایسا تو ہونا ہی تھا۔ پونجی جب آپ اپنی اڑا دیں، اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے، تو بعد میں پھر ساہوکاروں کے پاس ہی جانا پڑتا ہے اور ساہوکاروں کی لغت میں رحم کا لفظ نہیں ہوتا۔
تعطل کا دن بھی گزر جائے گا۔ مشکل فیصلے اگر لیے ہیں تو اُن پہ اب ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔