کیا ہمارے گرو اور پنڈت یہ سمجھ رہے تھے کہ موجودہ سرکاری بندوبست شکست کا ذائقہ چکھے گا اور تمام کے تمام نیب زادے فتح یاب ہوں گے؟ کیا پنڈت اور سیاسی رہنما عقل سے اتنے عاری ہو گئے تھے کہ انہوں نے اس قسم کا قیاس لگایا؟ کون ان کو بنیادی باتیں سمجھائے کہ سیاسی حقیقتیں اٹل ہوتی ہیں۔ اور یہ سیاسی حقیقتیں طاقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھلتی ہیں۔
چیئرمین ماؤ نے جو کہا تھا کہ طاقت بندوق کی نالی سے ٹپکتی ہے۔ اسی حقیقت کو فرانس کے صدر ڈیگال نے یوں بیان کیا تھا کہ تلوار طاقت کی محور ہوتی ہے اور اس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہاں نہ بندوق چل رہی تھی نہ تلوار لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ ہونا وہی تھا جس کی توثیق طاقت کے توازن سے آنی تھی۔ یہ کیسی بات ہوتی کہ نون لیگیے اور پیپلیے نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہوں اور سرکاری بندوبست کو ایسی شکست ملے کہ سرکار کا سینیٹ چیئرمین دھڑام سے نیچے گرے۔ یہ انوکھی نہیں نرالی بات ہوتی۔ کل صادق سنجرانی سینیٹ چیئرمین منتخب ہو رہے تھے گو اس وقت بھی ان کے پاس عددی اکثریت نہیں تھی اور آج وہ ہار جائیں‘ یہ کیسے ممکن تھا؟
ہم جب جمہوریت کی لمبی تانیں دینے پہ آتے ہیں تو بنیادی سیاسی حقیقتیں بھول جاتے ہیں۔ 1988ء میں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیسے بنے؟ اکثریت اُن کے پاس نہیں تھی۔ نہ اکثریت پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ 32-30 آزاد ارکان پنجاب اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے اور فیصلہ اُن کے ہاتھوں میں تھا۔ اُن آزاد ارکان میں سے بیشتر نواز شریف کی طرف ہو لیے اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے‘ حالانکہ اُن کے اپنا اور اُن کے خاندان کا سیاسی بیک گراؤنڈ صفر بٹہ صفر تھا۔ نواز شریف کی سیاسی انٹری ڈالی گئی تھی تو ایک فوجی گورنر کے ہاتھوں اور پھر وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار اُنہی نیک ہاتھوں کی وجہ سے بنے۔ وزارت اعلیٰ کے امیدوار ملک اللہ یار آف کھنڈا بھی تھے اور انہیں پیر پگاڑا کی آشیر باد حاصل تھی۔ پیر صاحب اس وقت پاکستان کے کنگ میکر بنے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ بطور وزیر اعظم‘ محمد خان جونیجو انہیں کی چوائس تھے۔ لیکن پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے اپنا پلڑا نواز شریف کی طرف ڈالا ہوا تھا اور پھر جنرل ضیاء الحق بھی اس بات پہ قائل ہو گئے۔ ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ صاحبانِ اقتدار اپنے تمام انڈے پیر پگاڑا کی ٹوکری میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ سو جب یہ بات پھیلی کہ اقتدار کی چوائس نواز شریف ہیں تو پھر تمام جھکاؤ ان کی طرف ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد نواز شریف کے خلاف ایک تحریک چلی اور بڑے ڈنر شنر ہوئے جن میں بھاری تعداد سے ممبران اسمبلی نے شرکت کی۔ یوں لگتا تھا کہ نواز شریف کی کشتی ڈانوں ڈول ہو چکی ہے۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق لاہور کے دورے پہ آئے اور ائیر پورٹ پہ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کِلّہ مضبوط لگتا ہے۔ اُن کا یہ جملہ ادا کرنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف تحریک وہیں دم توڑ گئی۔
2008ء میں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیسے بنے؟ نون لیگ پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت تھی لیکن اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی اور قاف لیگ ساتھ جڑتے تو اکثریت اُن کی ہوتی۔ لیکن ایسی بات کیلئے آصف زرداری تیار نہ تھے اور زیر قیادت ہمارے پرانے دوست میاں عطاء محمد مانیکا قاف لیگ میں ایک فارورڈ بلاک بنا جس کی تائید شہباز شریف کو حاصل ہو گئی۔ یعنی آصف زرداری اور میاں عطاء مانیکا کی مہربانی نہ ہوتی تو شہباز شریف پنجاب کے خود ساختہ خادمِ اعلیٰ نہ بنتے۔ قاف لیگ کا فارورڈ بلاک بھی معصوموں پہ مشتمل نہ تھی۔ وہ گھاگ لوگ جانتے تھے کہ قاف لیگ کا سورج ڈوب چکا ہے اور اس کے پیچھے دوڑنا کوئی فائدے کی بات نہیں۔ لہٰذا انہوں نے عقل مندی دکھائی اور جہاں سے نیا سورج چڑھ رہا تھا وہیں اطاعت کو بہتر سمجھا۔ اس عقل مندی کا بھرپور فائدہ ان قافیوں کو ہوا یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔ میاں عطاء مانیکا کو ایک وزارت ملی لیکن بے ضرر سی۔ اُن کی صحت کا بھی شاید یہی تقاضا تھا لہٰذا انہوں نے اُسی پہ اکتفا کیا۔
جمہوریت کے لمبے راگ وہ لب الاپتے ہیں جن کا عملی سیاست سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ جنہوں نے صرف ایڈیٹوریل یا مضمون لکھنے ہوں وہ رومانوی قسم کی باتیں کر سکتے ہیں۔ سیاستدان ہر ملک میں عملی سوچ رکھتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں عملی سوچ کی ضرورت قدرے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ صرف یہ بات نہیں کہ سیاستدان اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔ انہوں نے پانی کی بپھری ہوئی لہروں میں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ جس قسم کی باتیں کالم نویس باآسانی کر سکتے ہیں وہ ان کے وارے میں نہیں ہوتیں۔
لیکن صرف پاکستان کا ہی ذکر کیا؟ پرانے روس میں طاقت کا سرچشمہ کمیونسٹ پارٹی تھی۔ لیکن 1989ء میں جب سوویت یونین پہ برے دن آئے اور کمیونسٹ پارٹی کی اقتدار پہ گرفت کمزور ہوتی گئی تو پکے سے پکا کمیونسٹ کہیں اور دیکھنے لگا۔ نئے روس کا پہلا صدر بورس یلٹسن (Boris Yeltsin) بھی کمیونسٹ پارٹی کا سرکردہ رکن تھا‘ لیکن حالات بدلے ، بُرے دن آئے ، تو اُنہوں نے کمیونزم سے ایسا منہ پھیرا کہ پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ روس کی بربادی کا بھی سامان کیا۔ 1989ء میں چین میں بھی شورش کی ہواؤں نے چلنا شروع کیا تھا۔ چینی کمیونسٹ لیڈر اور قسم کے تھے اور انہوں نے بالآخر اس شورش کو ٹینکوں کے نیچے کچل دیا، نہیں تو تھوڑی سی اور نرمی دکھائی جاتی تو چین کا حشر روس جیسا ہونا تھا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو چینی کمیونسٹ پارٹی کا کوئی ممبر باقی نہ رہتا۔
نواز شریف صرف پانامہ پیپرز کے معجزے سے ہی اقتدار سے محروم نہیں ہوئے۔ پانامہ پیپرز تو ایک ذریعہ تھا۔ وہ ذریعہ مضبوط ہاتھوں کے کام آیا ۔ تب تک طاقت کے مختلف مراکز میں یہ خیال پھیل چکا تھا کہ شریفوں سے بات صرف پیسے بنانے کی ہو رہی ہے۔ باقی وہ کسی کام کے نہیں، بلکہ اُلٹا ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پھر ایک سلسلہ چلا اور چلتا ہی گیا ۔ نواز شریف اقتدار سے گئے اور الیکشن کا میدان سجا‘ جس میں نون لیگ پیچھے رہ گئی اور پی ٹی آئی کچھ اپنے زور پہ کچھ اِدھر اُدھر امداد کے بل بوتے پہ اقتدار میں آئی۔ یہ بنیادی حقیقت ہے باقی سب جزوی کہانیاں ہیں۔ سوال البتہ یہ بنتا ہے، اگر اتنا کچھ کیا گیا تو وہ اس لئے تھا کہ نیب زادے جب اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے تو سینیٹ میں ان کے ہاتھ ایسا موقع آئے گا کہ سب کچھ کرنے والے ہار جائیں اور زخم چاٹنے والے فتح یاب ہو سکیں؟
اس بندوبست نے رہنا ہے۔ یہ بات خواہش نہیں حقیقت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ تو صرف شروع کے دن ہیں، آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ابھی تو نومبر نے آنا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ نومبر کے فیصلے پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ وہ فوٹو تو ملاحظہ ہو جو کل کے اخباروں میں چھپی تھی‘ جس میں عمران خان دورۂ امریکہ کے نتائج کا جائزہ لینے کے لئے میٹنگ کی صدارت کر رہے ہیں اور اُن کی بائیں جانب آرمی چیف ہمراہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر بیٹھے ہیں۔ فوٹو سے عیاں ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور دیگر شرکاء میں کس قسم کا ورکنگ تعلق موجود ہے۔ اس رُو سے نومبر کے فیصلے بھی آئے تو موجودہ بندوبست میں اور مضبوطی آئے گی۔ تو اپوزیشن والے اپنے سر کہاں پٹخ رہے ہیں؟ وہ اپنی پیشیوں اور مقدمات کو دیکھیں۔ اُن کا کردار فی الحال صرف شور مچانے کا ہے۔ باقی فیصلے فیصلہ ساز کر رہے ہیں۔
فی الوقت پاکستان کی بنیادی حقیقتیں تین ہیں: (1) مضبوط سیاسی بندوبست (2) گمبھیر معاشی صورتحال اور (3) افغانستان میں ممکنہ امن معاہدہ جس کے مثبت اثرات پاکستان پہ مرتب ہونے چاہئیں ۔ باقی سب جزوی اور ثانوی کہانیاں ہیں۔