بُرا بھلا کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا حقیقتیں بدل جاتی ہیں؟ بی جے پی حکومت نے جو کرنا تھا، اور جو بہت دیر سے وہ کرنا چاہتی تھی، وہ کر دیا۔ بات تو ہم پہ آجاتی ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کشمیر کی تاریخ بدل ڈالی ہے۔ ہمارا جواب کیا ہونا چاہیے اورکیا ہوسکتاہے؟
کشمیر پہ قبضہ تو اُن کا تھا اور اِس ضمن میں ہمیں ماننا چاہیے کہ بہت سی کوتاہیاں ہم سے ہوئیں۔ جب مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیا تو 48 گھنٹے کیلئے سرینگر بغیر کسی دفاع کے بے ننگ و نام کھڑا تھا۔ ایک بٹالین فوج کی ضرورت تھی۔ اس سے زیادہ کی نہیں۔ ہماری کوئی بٹالین سرینگر نہ گئی نہ ہماری کوئی سوچ تھی کہ ایسا ہم کرسکتے ہیں لیکن ہندوستان نے ایک چھوٹا فوجی دستہ ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر ایئرپورٹ بھیج دیا اوروہیں سے تاریخِ کشمیر بدل گئی۔
ہندوستانی فوج کے سرینگر پہنچنے سے پہلے تب کے صوبہ سرحد سے ایک لشکر کشمیر میں داخل ہوچکاتھا۔ اُس لشکر کے ہراول دستے بارہ مولہ تک پہنچ گئے تھے۔ اوراس وقت سرینگر بغیر کسی دفاع کے فتح ہونے کیلئے تیار کھڑا تھا۔ پختون لشکر کی کمان تیز ذہنوں میں ہوتی تو بارہ مولہ سے فوراً سرینگر کی طرف لشکر چلا جاتا‘ لیکن روایتی انداز میں بارہ مولہ اورگردونواح میں لشکر کے افراد لوٹ مار میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں خالی پڑے ہوئے سرینگر میں ہندوستانی فوجی دستہ لینڈ کرگیا۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں بعد کی باتیں ہیں۔ وہ قراردادیں بھی اس لئے پاس ہوئیں کہ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لے گئے تھے۔ قراردادوں میں ضرور کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیری عوام کی رائے پوچھی جانی چاہیے لیکن زمینی حقائق کی اور صورت ہوتی ہے اور کاغذپہ تحریر شدہ قراردادوں کی کچھ اور۔ وقت گزرنے سے وہ خود‘ جو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے‘ اپنی ہی قراردادوں سے منحرف ہوگئے۔ تب سے لے کر آج تک ہم اُس انحراف کو کوستے رہے ہیں لیکن صرف کوسنے سے کبھی کام بناہے؟
ہم یہ تو ذرا سوچیں کہ کشمیر کا وہ علاقہ جو ہمارے حصے میں آیاہے، یعنی جسے ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں، وہ ہمارے حصے میں کیونکر اورکیسے آیا؟ کیا کسی عالمی فورم کی قرارداد یا کسی عالمی ثالثی کی وجہ سے ایسا ہوا؟ آزاد کشمیر کا معرضِ وجود میں آنا تلوار اور طاقت کانتیجہ ہے۔ جہاں تک ہماری طاقت اُس جنگ میں چل سکی وہاں تک ہم نے کشمیر پہ قبضہ کرلیا۔ جہاں تک ہندوستان کا زور چلا وہاں تک اُنہوں نے تسلط جمایا۔ یہ آپ کو معمولی سے معمولی کسان بتا سکتاہے کہ زمین کا قبضہ جو ہاتھ سے نکل جائے وہ عدالتی کارروائیوں سے شاذوناظر ہی واپس آتا ہے۔ آپ چیختے چلاتے رہیں، لاکھ کہیں کہ زمین کسی بیوہ یا یتیموں کی تھی، قبضہ چلا جائے تو واپس اُسی طریقے سے آتاہے جس طریقے سے منہ زوروں کے ہاتھوں چلا گیاتھا۔ صحیح موقعٔ کشمیر 1947-48ء میں تھا۔ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ یایوں سمجھیے کہ موقعے کا ہمیں صحیح ادراک نہ تھا۔ ریاست نئی تھی۔ پیروں پہ کھڑا ہونے کی کوشش ہورہی تھی۔ پنجاب میں ہنگامے شروع ہوچکے تھے اورخون کی ندیاں نہیں دریا بہہ رہے تھے۔ اُس ماحول میں جس تیز نظر یا تیز فکر کی ضرورت تھی شاید اُس کا ہونا ناممکن تھا۔
بیشتر کشمیر کا قبضہ ہندوستان کے ہاتھوں چلا گیا تو ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ لیکن اُن قراردادوں اورٹرک کی بتی میں زیادہ فرق نہ تھا۔ اُس بھاگنے سے سوائے خواری کے ہمیں کچھ نہ ملا... نہ مل سکتاتھا۔ ہاں، ایک بھرم رہ گیاتھا اوروہ یہ کہ اگر زورِِ بازوکا وقت آیا تو آسمان ہم پہ مہربان ہوں گے۔ اِس بھرم کے پیچھے یہ زُعم تھاکہ ہمارا ایک سپاہی اُن کے دس کے برابرہے۔ یہ بھرم قائم رہتا تو بہتر تھا لیکن 1965ء کی جنگ میں ہم نے اِسے بھی گنوا دیا۔ اُس جنگ کی شروعات کشمیر میں ہم نے کی۔ ہندوستانیوں نے بین الاقوامی بارڈر پہ حملہ بعد میں کیا۔ لیکن شروعات ایک عجیب ذہنی کیفیت میں ہوئی۔ فیصلہ سازوں کو مکمل سمجھ نہ تھی کہ جنگ سے آخر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اُن میں سے بیشتر کا خیال تھا کہ معاملات کشمیر تک محدود رہیں گے۔ جب ہندوستان نے لاہور کے سامنے سے حملہ کردیا تو فیصلہ سازوں کے پاس کوئی پلان بی نہ تھا۔ فوج کے جوان اورنوجوان افسر ہمت نہ دکھاتے تو ہم بڑی مشکل میں پھنس سکتے تھے۔ پی اے ایف کے پائلٹوں نے بھی کمال کرکے دکھایا۔ نہیں تو فیصلہ سازوں کی کم عقلی کی بھاری قیمت قوم کو چکانا پڑتی۔ محاذِ جنگ پہ تو قوم کی سپاہ نے قوم کو بچالیا لیکن سفارتی میدان میں ہم کچھ حاصل نہ کرسکے۔ معاہدہ تاشقند میں ہمیں ماننا پڑا کہ ہندوستان اورہمارے معاملات پرامن طریقے سے ہی حل ہوں گے۔ یہی کچھ جنگ کا نتیجہ نکل سکتاتھا‘ گو ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو ایسے پیش کیا کہ پتہ نہیں پاکستان وہاں پہ کون سی شکست مان کر لوٹاہے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہ تھا۔ اگرجنگ میں پاکستان اورہندوستان کی فوجیں تقریباً برابررہیں تو مذاکرات کی میز پہ پاکستان کیسے فاتح ہوسکتاتھا؟
لیکن معاہدے کاغذ کے ٹکڑے ہی ہوتے ہیں۔ فرانس کے صدر ڈیگال کا مشہور قول ہے کہ معاہدے گلاب کے پھول اور نوجوان خاتون کی خوبصورتی کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ تب تک ہی رہتے ہیں جب تک وہ رہتے ہیں۔ تاشقند میں ہندوستان اورپاکستان نے معاہدہ کیاتھا کہ آپس کے معاملات پرامن ذرائع سے حل ہوں گے۔ لیکن 1971ء میں جب مسز اندرا گاندھی کو موقع ملا تو مشرقی پاکستان میں فوجیں بھیجنے میں انہوں نے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ مسز گاندھی نے تمام صورتحال کا جائز ہ لیاتھا اورمکمل تیاری کے بعد جنگی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اٹل حقیقت تلوار یا بندوق کی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا استعمال سوچ سمجھ سے ہونا چاہیے۔ پہلے سوچ بچار پھر تلوار کااستعمال۔ دنیا میں عظیم فاتحوں نے ہمیشہ ایسے ہی کیا۔ جوکہتے ہیں کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ دنیا کا نقشہ امن کی قراردادوں سے نہیں بلکہ جنگوں سے بنا ہے۔ اسی حقیقت کا اظہار جرمنی کے عظیم مدّبر بسمارک نے کیا تھا‘ جب 1862ء میں جرمن پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وہ مشہور الفاظ کہے کہ ہماری تقدیر کے فیصلے جو ہونے چلے ہیں وہ تقاریر اور قراردادوں سے نہیں بلکہ خون اور فولاد سے ہوں گے۔ اُس وقت جرمنی چھبیس سے زائد بکھری ہوئی ریاستوں کا مجموعہ تھا۔ بسمارک نے سوچ سمجھ کے تین جنگیں لڑیں... ڈنمارک، آسٹریا اور آخر میں فرانس کے ساتھ... اور اِن جنگوں کے ذریعے جرمنی کو متحد کیا۔ دو عالمی جنگوں کی تباہیوں سے بسمارک کا جرمنی گزرا لیکن متحدہ جرمنی کا تصور پھر بھی قائم ہے۔
تو پھر بات وہی ہے کہ ہندوستان نے جو کرنا تھا کردیا۔ ہم کیا جواب دے سکتے ہیں؟ ہم نہ جرمنی ہیں نہ ویتنام۔ یہاں نہ کوئی بسمارک ہے نہ کوئی ہوچی مِن۔ لیکن ہندوستان نے ہمیں امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ہم اِس کا جواب کیا دیں گے؟ ایک تو شملہ معاہدہ اب پھاڑ دینا چاہیے۔ شملہ معاہدے میں ہم نے اقرار کیا تھا کہ ہمارے معاملات دو طرفہ مذاکرات کے دائرے میں رہیں گے، یعنی ہم کسی بین الاقوامی فورم میں ان معاملات کو نہیں لے جائیں گے۔ شملہ معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بے اَثر ہوگئی تھیں۔ شملہ معاہدے کے بعد سترہ سال تک ہم نے کشمیر کی کبھی بات نہ کی۔ وہ تو ایسے لگتاتھا کہ کشمیر کا ذکر ہم نے اپنے حافظے سے نکال دیاہے۔ یہ تو کشمیریوں کی اپنی ہمت ہے کہ 1989ء میں انہوں نے ہندوستانی تسلط کے خلاف بغاوت کرڈالی۔ بعد میں اُس بھڑکنے والی آگ میں ہم نے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن ہماری اِس حرکت سے کشمیریوں کا فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا۔ کارگل کی جنگ تو خالصتاً ایک گھاٹے کا سوداتھا۔ ہمارے جوانوں اور افسروں نے بے پناہ بہادری دکھائی لیکن وہی پرانا مسئلہ تھا کہ جنگ شروع کرنے والوں کو یہ سمجھ نہ تھی کہ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ نئی صورتحال ہے۔ پاکستان کو کچھ تو کرنا چاہیے۔ شروع اس بات سے ہونا چاہیے کہ معاہدہ شملہ کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔ اب یہ فضول کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں کہ ہم ہندوستان کو امن کی پیشکشیں کرتے رہیں۔ کچھ سبق حزب اللہ سے بھی سیکھ لیں۔ کہاں اسرائیل کی طاقت اور کہاں حزب اللہ کے محدود وسائل۔ لیکن حزب اللہ کبھی ہمت نہیں ہاری۔