کشمیریوں نے ہماری قراردادوں سے کیا کرنا ہے۔ ہماری تقریریں اُن کے زخموں پہ مرہم کا کام دے سکتی ہیں؟ اُن پہ ظلم کی شب کب سے چلی آ رہی ہے۔ اُن پہ مظالم افسانوی نوعیت کے نہیں ہیں۔ وہ گولیاں کھا رہے ہیں اور دیدہ دانستہ بارہ بور کے کارتوس اُن کی آنکھوں کی طرف چلائے گئے ہیں۔ اور کسی نے اُن کی طرف ہمدردی کیا دکھانی ہے۔ ہم ہی ہیں جن پہ اُن کا تکیہ ہے لیکن ہماری تقاریر کے گلدستے اُنہیں کیا آرام پہنچا سکتے ہیں؟
اتنا تو ہم کرنہیں سکتے کہ قومی اسمبلی یا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سنجیدہ ماحول قائم رکھ سکیں۔ اورہم نے اُن کا کیا کرناہے؟ فلسطینیوں کیلئے سالہا سال عرب ممالک قراردادیں تو پاس کرتے رہے‘ گو یہ کام بھی اُنہوںنے اب فضول سمجھ کے بند کر دیا ہے۔ کشمیریوں کیلئے سوائے ہمارے اور کسی نے کوئی قرارداد بھی پاس نہیں کرنی۔ اُن کے لئے رونے یا ماتم کرنے کے لئے بھی اورکوئی نہیں۔ ہاں، مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ان میں خود ہمت پیدا ہوئی اورگولیوں کا خوف اُن کے دلوں سے نکل گیا۔ ہندوستانی مظالم کے خلاف اپنے زور پہ اور بغیر کسی بیرونی امداد کے وہ کھڑے ہوگئے۔ لیکن کشمیری اکیلے ہیں، نہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری طرف سے ان کو کچھ نہ کچھ امداد جاتی تھی۔ لیکن بیشتر لائن آف کنٹرول پہ اب مضبوط باڑ لگ چکی ہے اور ہماری مجبوریاں بھی بڑھ چکی ہیں۔ جتنے بے خوف ہم پہلے ہوا کرتے تھے اب اتنے نہیں۔ کشمیریوں کی مدد کرنے کے حوالے سے ہم پہ بین الاقوامی دباؤ پڑا اوروہ ہم سہہ نہ سکے۔ ہماری معاشی حالت کمزور سے کمزور تر ہے۔ انجانے کا بھی خوف ہے کہ یوں نہ ہو جائے ووّں نہ ہو جائے ۔
وزیراعظم عمران خان ہیں کہ قومی اسمبلی میں بے اختیار کہہ اُٹھے کہ میں ہندوستان پہ حملہ کردوں؟ کون کہہ رہاہے کہ وہ حملہ کریں لیکن ایسی بات کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس سے سوائے ہماری کمزوری کے اورکیا چیز آشکار ہوتی ہے؟
کشمیر پہ ہم نے جنگیں لڑی ہیں لیکن 1947۔48ء والی پہلی جنگ ہی ہمارے کچھ کام آئی۔ اُسی جنگ کی وجہ سے آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ ہمارے حصے میں آیا۔ 1965ء کی جنگ بغیر سوچے سمجھے شروع کی گئی اور اُس کے نتیجے میں پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ 1971ء کی جنگ ہم نے شروع نہ کی تھی لیکن اُس جنگ کے محرکات کا میدان ہم نے سجایا تھا۔ یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ 1971ء کی جنگ میں بھی ہمیں بے حد نقصان ہوا۔ آدھا ملک گنوا بیٹھے۔
کارگل کی منی یا چھوٹی جنگ میں ہمارے جوانوں اور نوجوان افسروں نے بہت بہادری دکھائی لیکن وہ شجاعت کی کہانیاں رائیگاں گئیں کیونکہ وہ چھوٹی جنگ بھی بغیر سوچے سمجھے شروع کی گئی تھی یعنی وہ معرکہ بے مقصد تھا۔ کارگل کا محاذ تو اب کھلنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی کے کیے گئے اقدامات کا جواب ایک کارگل کے معرکے کی شکل میں ہونا چاہیے تھا۔ کشمیری بھی سمجھتے کہ ہم اُن کیلئے کچھ کرسکتے ہیں۔ جنگ کو پھیلنے نہ دیتے، اُسے کنٹرول میں رکھتے اور سیالکوٹ سے لے کر بحیرہ عرب تک مضبوط دفاعی پوزیشنیں اختیار کرتے۔ لیکن یہ فضول کی باتیں ہیں۔ کس نے ایسا کرنا تھا؟ کارگل جنگ کا اصل نقصان یہ ہوا کہ ایسے کسی معرکے سے ہم ہمیشہ کیلئے ڈر گئے۔ کشمیر کی مسلم آبادی بہرحال اپنی ہمت پہ تکیہ کر رہی ہے لیکن ہماری طرف بھی دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ ہم نے عندیہ دے دیا ہے کہ فی الحال ہم محتاط ہی رہیں گے۔
جب کارگل کی جنگ ہوئی تب بھی پاکستان اور ہندوستان دونوں کے پاس جوہری ہتھیار تھے۔ دونوں نیوکلیئر طاقتیں تھیں لیکن دوران جنگ کسی نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سوچا بھی نہیں۔ وہ فوجوں کی لڑائی رہی اور اب بھی دونوں ممالک میں کوئی ٹکراؤ ہو تو محدو د پیمانے پہ رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر وہی سوال کہ اس کیلئے حوصلہ کہاں سے آئے گا؟
2006ء سے پہلے اسرائیل نے جنوبی لبنان کے ایک حصے پہ قبضہ کر لیا تھا۔ مدِ مقابل اسرائیل کے لبنانی حکومت نہیں تھی‘ میدان میں صرف حزب اللہ تھی۔ اسرائیل کے قابض شدہ علاقے پہ حزب اللہ نے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور وہاں موجود اسرائیلی فوج کیلئے جینا مشکل کر دیا۔ اسرائیل کو مجبوراً وہ خطہ خالی کرنا پڑا۔ حزب اللہ یا لبنانی حکومت اقوام متحدہ نہیں گئے۔ انہوں نے اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے کوئی مدد نہ مانگی۔ بیشتر عرب ممالک... ان کا نام کیا لینا... ویسے بھی حزب اللہ کے خلاف تھے۔ حزب اللہ کی مدد صرف ایران سے آرہی تھی۔ لیکن ہمت اورحوصلہ حزب اللہ کا اپنا تھا، وہ کہیں سے امپورٹ نہیں کیا ہواتھا۔ حزب اللہ کو خطرہ سمجھتے ہوئے اسرائیل نے 2006ء میں لبنانی بارڈر کراس کرکے حزب اللہ کے ٹھکانوں پہ حملہ کردیا۔ لبنانی دارالخلافہ بیروت زبردست ہوائی حملوں کی زد میں آیا۔ جنگ 34دن رہی اور جو کچھ اسرائیل کے پاس تھا اس نے اُس مقابلے میں جھونک دیا۔ لیکن حزب اللہ کے دستوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پیچھے نہیں ہٹے۔ اسرائیل کے مرکاوا (Merkava) ٹینکوں کے قریب حزب اللہ کے جوان جاتے اور راکٹوں سے ان پر حملہ کرتے۔ حزب اللہ ایک گوریلا فوج ہے۔ اس کے پاس کوئی ٹینک نہیں، نہ کوئی ہوائی جہاز۔ اس کے جنگ کا اسلوب گوریلا تدبیروں پہ ہے۔ اسرائیل مختلف جنگوں میں صفحۂ اول کے عرب ممالک کی فوجوں کو شکست دے چکا ہے۔ عرب دنیا کی واحد قوت جس نے اسرائیل سے شکست نہیں کھائی حزب اللہ ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے بچاؤ میں بھی حزب اللہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ کشمیریوں میں حزب اللہ والی بے خوفی آ چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جیسے ایران حزب اللہ کے پیچھے کھڑا ہے، کشمیریوں کے پیچھے کون کھڑا ہو گا؟ اُن کا ایران کون بنے گا؟
بے خوف عناصر تو ہمارے ہاں بھی ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات ہے کہ یہاں سے لوگ مقبوضہ کشمیر لڑائی لڑنے جاتے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ پکڑے گئے تو انجام نہایت برا ہو گا؟ ہمارے ہاں ایسے عناصر ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ باہر کے نسخوں کی بدولت ہم نے ان عناصر کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ حزب اللہ کو کسی سے خوف نہیں۔ ہمیں کیوں کپکپی لگی رہتی ہے کہ باہر کی دنیا، جس کا مطلب ہے امریکا، حافظ سعید یا مولانا مسعود اظہر کے بارے میں کیا کہے گی؟ یہ درست ہے کہ ایسے عناصر کو دہشت گرد کہنے میں ایک مصلحت تھی۔ ہماری مجبوریاں ہمارے آڑے آتی رہی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے حالیہ اقدامات کے بعد سارا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کی پرانی اصطلاحیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اب ان جنگجو عناصر کو دہشت گرد کہنا زیادتی ہو گی۔ اُن کا صحیح لقب اب 'فریڈم فائٹر‘ کا ہے۔ امریکا نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کہا ہوا ہے۔ حزب اللہ تو اس لقب کی پروا نہیں کرتی۔ ہماری کپکپی کا علاج کہیں سے ہو سکتا ہے؟
البتہ کچھ کام کرنے کے ہیں۔ اول ، آزاد کشمیر کو مثالی ریاست بننا چاہیے۔ اس کی حکومت کی آزادی یقینی ہونی چاہیے اور اسلام آباد سے ریموٹ کنٹرول کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ دوم، سفارتی محاذ پہ پاکستان کو اب ہمت دکھانی چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے کہ اگر کشمیری آزادی چاہتے ہیں تو پاکستان ایک آزاد متحدہ کشمیر ی ریاست، بشمول آزاد کشمیر، کے لئے تیار ہے۔ یعنی ایک آزاد اور خود مختار متحدہ کشمیر کا آپشن پاکستانی سفارت کاری کا حصہ بن جانا چاہیے۔ سوئم، پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات درست کرنے چاہئیں۔
جنگ ہو یا نہ ہو ، پاکستانی معاشرے کو جنگی بنیادوں یا war-footing پہ جانا چاہیے۔ جتنی ہمت موجودہ حکومت میں ہونی چاہیے اتنی نہیں ہے۔ لیکن کہیں سے ڈھونڈ کے لائے۔ پاکستانی ہسپتال اور درس گاہیں بہتر ہوں۔ متفرق نظام تعلیم ختم ہو۔ پولیس کی اصلاح ہو ۔ جج صاحبان دن رات کر کے کیسوں کو نمٹائیں۔ ٹریفک کا نظام بہتر ہو ۔ پلاسٹک شاپروں کی لعنت ملک سے ختم ہو جائے۔ ان اقدامات کا تعلق ہماری قومی مستعدی سے ہے۔ ایسی مستعدی کے بغیر ہم کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتے۔