نریندر مودی اور اُن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی فاشسٹ سوچ ہے اور وہ ہندوستان میں ایک تعصب پہ مبنی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا اعتراض ہے اور درست ہے۔ نریندر مودی اور اُن کے ساتھیوں کی سوچ یقینا متعصبانہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے جس میں اقلیتوں کا کردار نچلے درجے کے شہریوں کا ہے۔ وہ صاف کہتے نہیں لیکن اُن کی باتوں سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس سوچ پہ ہماری کوئی تنقید بنتی ہے؟ ہم فاشسٹ نہیں‘ اللہ ایسی روش سے پناہ دے۔ لیکن ایک بات تو ہے کہ ہم ایک مسلم ریاست ہیں۔ یہ ہم علی الاعلان کہتے ہیں اور یہ بات ہمارے آئین میں بھی درج ہے۔ سیکولر کا لفظ تو ہمارے ہاں ایک بڑی تہمت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اردو دانوں نے اس کا ترجمہ ہی 'لادین‘ کیا ہوا ہے۔ یعنی عام گفتگو میں اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ سیکولر کا مطلب کیا ہے‘ تو وہ کہے گا لادینیت یعنی کفر کے برابر۔ آج ہم ایک عجیب مخمصے میں پھنسے ہیں۔ ہندوستان ایک ہندو ریاست کی طر ف جا رہا ہے تو ہمیں اچھا نہیں لگ رہا۔ نریندر مودی کی سوچ کے مدِ مقابل کون سی سوچ کھڑی ہے؟ وہ تصورِ ریاست جو کانگریس پارٹی اور اُس کے اکابرین کا تھا۔ ہندوستانی آئین ایک سیکولر آئین ہے جس میں مذہب کا نہ کوئی ذکر ہے نہ گنجائش۔ یہ جواہر لعل نہرو اور اُن جیسے لیڈروں کی سوچ تھی۔ وہ کہتے تھے کہ سیاست میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
جناح صاحب کی قیادت میں مسلمانوں کا یہ اعتراض تھا کہ ہندو اور مسلم دو الگ اکائیاں ہیں‘ اِن کی سوچ مختلف ہے‘ اِن کی عادات اور کلچر مختلف ہیں۔ لیڈران مسلم لیگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ گو کانگریسی لیڈر اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں‘ لیکن ظاہری باتوں کے نیچے اُن کی سوچ کٹر ہندووانہ ہے۔ پاکستان کے مطالبے کی یہی بنیاد تھی۔ مسلم لیگی قیادت سمجھتی تھی کہ بغیر سیاسی تحفظات کے مسلمانوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی لیے 1946ء کے آل انڈیا انتخابات میں مسلم لیگ کا نعرہ تھا کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ مسلمان ووٹ بھاری اکثریت میں مسلم لیگ کو ملا اور پاکستان کا وجود یقینی ہو گیا۔
سوچنے کا مقام البتہ یہ ہے کہ جب 11 اگست 1947ء کو جناح صاحب آئین ساز اسمبلی سے مخاطب ہوئے تو انہوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا جس سے مسلمان ممبران کیلئے حیرانی کا سامان پیدا ہوا۔ اس موقع پہ اِن کی تاریخ ساز تقریر فی البدیہہ تھی‘ اُن کے سامنے کوئی تیار شدہ کاغذ نہ تھا۔ جو کہہ رہے تھے اُن کے دل کی آواز تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اب معرضِ وجود میں آ رہا ہے۔ آپ ہندو ہوں یا مسلمان اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ مذہب ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن سیاسی لحاظ سے۔ آپ اپنے مندروں یا مسجدوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ پہ کوئی پابندی نہیں۔ یہ خیالات تحریک پاکستان میں اٹھائے گئے نعروں سے ذرا ہٹ کے تھے۔ جناح صاحب کہہ رہے تھے... اُن کی باتوں سے یہ مفہوم نکلتا ہے... کہ اب جب خوابِ پاکستان شرمندۂ تعبیر ہونے والا ہے تو ماضی کی تلخیوں اور جھگڑوں کو پیچھے ہو جانا چاہیے اور ایک نئے سفر کا آغاز ہونا چاہیے۔
اُن کی باتوں کا اثر اپنے سامعین پہ کیا پڑا؟ کچھ بھی نہیں۔ اُن کی وفات ایک سال بعد ہو گئی اور اُس کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کی شکل میں ڈھالنے کی کوششیں تیز تر ہو گئیں۔ قائد اعظم کی وفات ستمبر 1948ء میں ہوئی اور 1949ء میں آئین ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کا مسودہ پیش ہوا۔ جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر اور قراردادِ مقاصد کے فلسفے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قراردادِ مقاصد میں ایک مذہب پہ مبنی ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ دورانِ بحث بہت اعلیٰ تقریریں حق اور مخالفت میں کی گئیں۔ ہندو ممبران بھی آئین ساز اسمبلی کا حصہ تھے اور ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ جناح صاحب کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون جگا ناتھ منڈل ایک ہندو تھے۔ اقلیتی ممبران شور مچاتے رہے کہ یہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں جناح صاحب کے تصور کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے اُن کی نہ سُنی گئی۔ قراردادِ مقاصد کے حق میں بھی بڑی اعلیٰ تقریریں کی گئیں اور سب سے پُر اَثر تقریر سر ظفر اللہ خان کی تھی۔ یہ تقریریں آسانی سے دستیاب نہیں۔ کسی بُک سٹور پہ آپ کو نہیں ملیں گی۔ جب میں قومی اسمبلی کا ممبر تھا اور ایک دن لائبریری میں گیا تو وہاں کے لائبریرین نے مجھ سے پوچھا کہ وہ تقریریں نظر سے گزری ہیں۔ جب میں نے کہا‘ نہیں‘ تو انہوں نے مجھے وہ کتابچہ تھما دیا۔ آنکھیں اور دماغ کھولنے والی باتیں اُس میں تھیں۔
بہرحال ایک خاص قسم کی ریاست بنانے کا ہمارا سفر جاری رہا۔ جوں جوں وقت گزرا جس عمارت کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اُس میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ اس ارتقاء سے ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی۔ انگریزوں کی حکمرانی میں برصغیر کے باشندوں کو سیاسی آزادیاں حاصل نہ تھیں لیکن اِن کے علاوہ ہر آزادی میسر تھی۔ کسی مذہب پہ کوئی پابندی نہ تھی۔ مسجدوں اور مندروں میں جانے پہ پابندی تھی نہ رقص و سرود کی محفلوں پہ کوئی قدغن۔ انگریزوں کے دور میں ہی ہندوستانی فلمی دنیا آباد ہوئی۔ بے بی نور جہاں نے فلمی دنیا میں اپنے پہلے قدم تب ہی رکھے اور کندن لال سہگل کے تمام گانے برطانوی حکمرانی کے دور گائے گئے۔ دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوئی جب آزادی کے بعد سوچ اور اظہار پہ وہ پہرے لگنے لگے جو سامراج کے وقت میں نہ تھے۔ سعادت حسن منٹو پہ جو لاہور میں مقدمات بنے‘ کیا وہ انگریز کے دور میں بن سکتے تھے؟ ساحر لدھیانوی پاکستان کے لاہور کو چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ کیا انگریزوں کے لاہور کو وہ ایسے چھوڑ کے جاتے؟
یہ تو چند مثالیں ہیں۔ نئی ریاست کا سیاسی و سماجی ارتقاء ایسا تھا کہ جناح صاحب کے 11 اگست والے خیالات سے اُن کی مطابقت ڈھونڈنا آسان نہیں رہتا۔ کہاں جناح صاحب کے عظیم خیالات اور کہاں وہ سوچ جو ہمارے ہاں پنپنے لگی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور کسی خلا میں پیدا ہونے والا حادثہ نہ تھا بلکہ جس قسم کے خیالات نے زور پکڑا وہ اُن کا منطقی انجام تھا۔ بیشتر دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے طبقات اُن کے ساتھ کھڑے تھے اور جس مخصوص فلسفے کا اظہار مرحوم جنرل صاحب نے کیا اُس کی بھرپور تائید اُنہی طبقات سے ملی۔
جو کچھ ہندوستان میں ہو رہا ہے وہ ہمارے لیے ایک انتباہ بھی ہے اور موقع بھی۔ انتباہ اس لحاظ سے کہ ایسی سوچ کو ترویج ملے تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور موقع اِس لحاظ سے کہ ہم کچھ سبق لیں اور تعصب کی راہوں سے اپنے لیے چھٹکارا حاصل کریں۔ سیکولر کے ساتھ ساتھ لفظ لبرل کو بھی ہم تہمت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہندوستان میں نریندر مودی اور اُن کی سوچ رکھنے والوں کے خلاف کوئی کھڑا ہے تو وہاں کے سیکولر اور لبرل عناصر ہیں۔ ہندوستانی مصنفہ ارون دَھتی رائے (Arundhati Roy) نریندر مودی پہ تنقید کی وجہ سے پاکستان میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔ اُن کی سوچ بھی سیکولر اور لبرل ہے۔ وہ ہمیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ ہندوستان کی متعصبانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ وہ پاکستانی ہوتیں اور یہاں کے حالات کے تناظر میں کچھ کہتیں تو شاید ہمیں پسند نہ ہوتا۔
حاصل یہ کہ اگر ہندوستان کشادہ سوچ سے دور ہٹ رہا ہے تو ہمارے لیے موقع ہے کہ محدود سوچ اور فرسودہ خیالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشادہ راہوں پہ چلنے کی کوشش کریں۔ کیا ہم یہ کر سکتے ہیں؟ ہمارے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔