عقل نام کی چیز ہماری ریاست کے قریب کبھی پھٹکی ہے؟ ایسے ایک کرکٹ تماشے کا کیا فائدہ جس سے آدھا لاہور مشکلات میں پڑ جائے۔ سڑکیں بند، ٹریفک بلاک، عام آدمی خوار، پوری پولیس سکیورٹی پہ لگی ہوئی اور ساتھ فوج کی بھی معاونت۔ صرف اس لئے کہ ہم کہہ سکیں کہ دیکھیں حالات یہاں نارمل پہ آگے ہیں اور اب کرکٹ یہاں کھیلی جا سکتی ہے۔ پبلک کی خواری اور سکیورٹی کے جال پر جال کو دیکھ کے کوئی ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ حالات یہاں کے نارمل ہیں؟ تاثر تو یہی جاتا ہے کہ حالات نہایت حساس اور خطرناک ہیں۔
اتنے سال ہم کرکٹ میچوں سے محروم رہے تو کیا زندگی چلنا یہاں بند ہو گئی تھی؟ نارمل حالات تو وہ ہوتے ہیں کہ سکیورٹی نظر بھی نہ آئے۔ کوئی ٹریفک بلاک نہ ہو اور عام آدمی خوار نہ ہو۔ باہر کی دنیا میں یہاں سے کئی گنا بڑے میچ ہوتے ہیں۔ فٹ بال میچوں کا تو رنگ ہی اور ہوتا ہے۔ وہاں تو کوئی غیر معمولی سکیورٹی نیٹ ورک نہیں لگایا جاتا‘ نہ ہی فوج کو بلایا جاتا ہے۔ مانا یہاں دہشت گردی رہی ہے، حالات خراب رہے ہیں۔ جب ٹھیک ہو جائیں گے تو میچ پھر سہی۔ دو یا تین ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ کرا کے پاکستان کا کون سا غیر معمولی بھلا ہو رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ والوں اور باقی حکام کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے تماشے اور ایسی خواری سے پاکستان کی کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ کوئی تاثر نہیں جاتا کہ حالات یہاں نارمل ہو گئے ہیں۔
نارمل حالات کچھ اور ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے کرکٹ کے کھلاڑی شوقین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ میچ ویچ کے بعد نائٹ کلبوں میں بھی جاتے ہیں جہاں موسیقی ہو اور کچھ دوسرے لوازمات کا بھی اہتمام ہو۔ ایک دفعہ مجھے کولمبو جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم ایک بڑے شاندار ہوٹل میں ٹھہرے۔ ہمارے وفد میں شیریں مزاری بھی تھیں اور شفقت محمود بھی۔ کھانا کھا کے ایک اور قریب کے ہوٹل گئے جہاں نائٹ کلب تھا۔ ہم نے دیکھا کہ سری لنکا کرکٹ ٹیم کے چوٹی کے کھلاڑی وہاں موجود تھے۔ خوب انجوائے کر رہے تھے۔ یہاں کوئی دیکھے کہ ہمارا حال کیا ہوتا ہے۔ سکیورٹی رسک کی وجہ سے نہ کھلاڑی کہیں باہر جا سکتے ہیں‘ نہ کچھ موج مستی کر سکتے ہیں۔ تو یہ خاک کے نارمل حالات ہیں؟ سری لنکا کے کھلاڑیوں کو تمغہ اس بات پہ نہیں ملنا چاہیے کہ وہ پاکستان آئے۔ تمغے کے حق دار وہ یوں بنتے ہیں کہ ہماری وضع کی ہوئی بوریت کو سہہ لیتے ہیں۔
یہاں کے ہوٹلوں میں قیام دل گردے کا کام ہے۔ شام کو آدمی کچھ کرے تو کرے کیا۔ کچھ روز ہوئے ایم ایم عالم روڈ پہ واقع ایک ریستوران پہ پارسائی کے نمائندوں نے چھاپہ مارا۔ مشکوک اشیا کو تحویل میں لیا گیا اور خبر اخباروں کی کم زینت بنی لیکن سوشل میڈیا پہ خوب پھیلی۔ اس ریستوران پہ چھاپہ تو پڑ گیا لیکن نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ لاہور کے جو بڑے سرائے ہیں‘ انہوں نے فوراً ان کمروں پہ تالا لگا دیا جہاں غیر ملکی آ کے مہنگے داموں شام کا کچھ مزہ لینے کی کوشش کرتے تھے۔ لاہور کے جس سرائے میں مجھ فقیر کا قیام ہوتا ہے وہاں کے جنرل منیجر کو میں نے دو تین دن پہلے کہا کہ ایم ایم عالم روڈ کے چھاپے کو کافی دن گزر چکے ہیں‘ اب وہ جو کمرہ اوپر والا ہے جہاں پہ غیر ملکی شام کو بیٹھ جاتے تھے‘ اُسے کھول دیا جائے۔ اس نے میری بات پہ غور کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ ہیں اس ملک کے نارمل حالات۔
چوروں‘ ڈکیتوں پہ چھاپے پڑیں تو پھر بات ہے۔ ٹیکس چوروں پر چھاپے پڑیں تو ہم بھی داد دینے کو تیار ہوں‘ لیکن یہاں بات کچھ ہٹ کے ہے۔ چھاپے دیگر حرکات پہ ہی پڑتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ٹورازم بڑھے، باہر کے لوگ یہاں آئیں۔ اُنہوں نے چھاپے پڑوانے کیلئے یہاں آنا ہے؟ باہر کی دنیا میں جو چیزیں بالکل نارمل سمجھی جاتی ہیں یہاں معیوب ہیں۔ اس کیفیت سے نکلیں تو پھر حالات نارمل ہوں۔ اس کیفیت میں رہیں تو کون بے وقوف حالات کو نارمل کہے گا۔
بات پارسائی یا نیکی کی نہیں ہمت کی ہے۔ جام صادق بھی اپنے زمانے میں سندھ کے چیف منسٹر تھے۔ لیکن ان میں اور آج کے چیف منسٹروں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ وہ دھڑلے کے آدمی تھے۔ فیصلہ سازی کی صلاحیت ان میں تھی۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے آئے تو آتے ہی سندھ کا ماحول انہوں نے بدل کے رکھ دیا۔ پابندیاں جو تھیں انہیں ختم نہ کیا لیکن ایسی آزادیاں پیدا کر دیں کہ پابندیاں بے معنی ہو کے رہ گئیں۔ جام صادق نے اگر ایسا کیا تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن جام صادق والی ہمت وہ کہاں سے لائیں گے۔
یا تو یہ ہو کہ ہم بڑے سیدھے سادے لوگ ہیں، پارسائی پہ مر مٹنے والے۔ پھر تو بات ہوئی لیکن دنیا کی ہر مکاری یہاں پائی جاتی ہے۔ مکاری کے ضمن میں ہمارے لوگ ایسے فنکار ہیں کہ اس میدان میں باقی دنیا کی ہم تعلیم کر سکتے ہیں۔ لیکن پارسائی کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ اخلاقیات کے ہم ٹھیکے دار، نظریات کے ہم پہرے دار، گفتار کے ہم غازی۔ پتہ نہیں کس کو ہم بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ اپنی ان حرکتوں سے غالباً ہم خود ہی بے وقوف بنتے ہیں۔ لیکن نہ ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں نہ ہمت رکھتے ہیں کہ ایسی منافقانہ صورتحال کا کچھ تدارک کیا جائے۔
دیکھیں تو سہی کہ ہماری حالت کیا ہے۔ یہ کیسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ہم پاکستان سٹیل ملز کو چین کے حوالے کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی شرمناک بات ہو سکتی ہے؟ ایٹمی قوت ہیں، اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن ہماری اجتماعی صلاحیتیں ایک سٹیل مل نہیں چلا سکتیں۔ میجر جنرل صبیح قمرالزمان نے یہ مل چلائی اور منافع میں چلائی۔ وہ کیا مریخ سے آئے تھے؟ ہم میں سے نہیں تھے؟ کوئی اور صبیح قمرالزمان نہیں ڈھونڈا جا سکتا؟ اے کیو خان اور ان کی ٹیم نے ایٹم بم بنا لیا تھا۔ ہمارے جیسے ملک کے لئے چھوٹا کارنامہ نہیں تھا۔ باقی چیزیں کیوں نہیں ہوتیں؟ سڑکیں بنانی ہوں تو کسی اور نے آ کے بنانی ہیں۔ انگریزوں کی دی ہوئی ریلوے لائن ہم سے چلی نہیں حالانکہ وہی ریلوے نظام احسن طریقے سے ہندوستان میں چل رہا ہے۔ لیکن اب ہم چاہتے ہیں کہ پشاور تا کراچی چینی ہمیں ایک ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک بنا کے دیں۔ سب ادھار پہ۔ اپنا پیسہ ہے نہیں۔ چینی دوست ہی یہاں آ کے سب کچھ کریں۔ اورنج لائن ٹرین بھی وہی بنائیں، بڑے پاور پلانٹ بھی وہی لگائیں، اور اب جو سوچ ہے اس کے مطابق سٹیل ملز بھی وہی چلائیں۔ کیا خوب سوچ ہے۔ بہتر نہیں کہ پورے ملک کو انہی کے ہاتھوں ٹھیکے پہ دے دیا جائے؟ سارا دردِ سر ہی ختم ہو جائے گا۔
جتنی خواری ہم لاہور میں ایک کرکٹ میچ کے لئے اٹھاتے ہیں اتنی سے ایک کیا دس سٹیل ملیں چل جائیں۔ جو چیز ہم کرنا چاہیں وہ ہم کر لیتے ہیں‘ چاہے وہ چیز عقل کی پیکر ہو یا بے وقوفی کی انتہا۔ ہندوستان سے مقابلہ کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں لیکن ہم کر رہے ہیں۔ سیاہ چن سے لے کر سمندر تک ہماری اور ہندوستانی افواج آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ایٹمی اور میزائل دوڑ میں ہم ہندوستان سے پیچھے نہیں۔ اگر ہندوستان کے پاس اتنا ایٹمی ذخیرہ ہے کہ وہ پاکستان کو پانچ دفعہ مکمل تباہ کر دے تو ہمارے پاس بھی اتنی صلاحیت ہے کہ ہم ہندوستان کے تمام بڑے شہروں کو ملیامیٹ کر دیں۔ اتنا کچھ ہم کر سکتے ہیں‘ لیکن ایک سٹیل مل نہیں چلا سکتے۔
یہ ہیں ہمارے نارمل ہونے کی علامات۔