ہم جیسے لوگوں کا پرابلم ہے کہ مولویانہ روشوں سے ہمیں چڑ پید ا ہو جاتی ہے۔ وجوہات اس کی بہت ہیں‘ لیکن اُن کو جانے دیجیے۔ مولوی یا اہلِ منبر کے حوالے سے کوئی بات آئے تو ہم جیسے لوگوں کا پہلا ردِ عمل مذاق اڑانا ہوتا ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن نے اپنے مارچ کا اعلان کیا تو ہم جیسوں نے اُسے سنجیدگی سے کیا لینا تھا۔ ہم نے کہا کہ مولوی آئے بھی تو پھر چلے جائیں گے۔ مولویوں نے کام ہمیشہ خراب کیا ہے، اِن سے بھلے کی توقع کیا کی جا سکتی ہے۔
لیکن اب اوروں کی طرح ہم پہ بھی سنجیدگی طاری ہو گئی ہے۔ مولانا کا مارچ کھیل تماشہ نہیں رہا۔ پڑاؤ اُن کا اسلام آباد میں لگ چکا ہے اور یہی کہا جا رہا ہے کہ مجمع بڑا اور پُر جوش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پڑاؤ ختم ہوتا ہے یا کوئی لمبی صورت اختیار کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی گفتگو میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ مارچ اور اُس سے پیدا شدہ ماحول کی وجہ سے حکومت پہ منفی اثر پڑا ہے۔ حکمرانی پہلے بھی کوئی اتنی شاندار نہ تھی۔ مارچ کے بعد حکومت کے اعتماد پہ ضرور اثر پڑے گا۔ 2014ء کے دھرنے سے نواز شریف کی حکومت ختم نہ ہوئی تھی لیکن اُس کا اعتماد بُری طرح مجروح ہوا تھا اور اُس کے بعد اُن کی حکومت کی وہ بات نہ رہی جو شاید پہلے تھی۔ موجودہ حکومت کی لیاقت تو پہلے ہی عیاں ہو چکی ہے۔ آئندہ دنوں میں اِس کی کارکردگی کیا ہو گی؟
ایک بات اور واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان کے حوالے سے جو تجربہ کیا گیا تھا وہ ناکام ہو چکا ہے۔ بھلے حکومت گھسیٹتی گھسیٹتی اپنا وقت مکمل کر بھی لے لیکن جو توقعات عمران خان سے وابستہ تھیں‘ اُن پہ اب یقین کس کا رہے گا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس کے بعد کیا ہو گا؟ کاروبارِ مملکت کیسے چلے گا؟ یہاں تو صرف شروع کا بگل بجا ہے۔ ہم نے دیکھا نہیں کہ دیگر کئی ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔ لبنان میں سخت حکومت مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔ وہاں کے وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ عراق میں پُر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ درجنوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ دور دراز چِلی میں سخت حکومت مخالف تحریک برپا ہوئی ہے۔ ان تین مثالوں میں بنیادی مسئلہ معاشی صورتحال کا ہے۔ لوگ ان تینوں ممالک میں اپنے حالات سے تنگ ہیں اور وہ اپنے ممالک میں رائج نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تو ابھی کچھ بھی نہیں ہوا۔ مولانا کا صرف مارچ ہوا ہے۔ کوئی ہنگامے یا مظاہرے نہیں ہوئے۔ لیکن معاشی و سماجی حالات یہاں بھی تسلی بخش نہیں۔ حالات کو روکا ہوا ہے تو طاقت رکھنے والے اداروں نے۔ اُن کو صورت حال سے نکال دیں تو انارکی پیدا ہو جائے۔ یہ بہرحال اور بحث ہے۔
لیکن اس ملک کی تقدیر پہ رونا آتا ہے۔ مسئلہ تو وہی ہے جو ہر معاشرے کے سامنے ہوتا ہے کہ حالات کیسے بہتر ہوں، لوگوں کی زندگیاں کیسے آسان ہوں۔ بنیادی مسائل ہمیں درپیش تو ہیں ہی لیکن اوپر سے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری ہے۔ سیاست ہماری کہیں سنبھل ہی نہیں رہی۔ جو آتا ہے ٹک کے بیٹھ نہیں سکتا یا یہ بھی ہے کہ اُسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ قومی زندگی میں پھر نا اہلی اور کرپشن کا بھی اپنا حصہ ہے۔ جن پہ آپ اہل ہونے کا لیبل چسپاں کر سکیں ایسے سیاست دان اِس بڑی آبادی میں نظر ہی نہیں آتے۔ جو ہیں وہ درمیانے درجے کے ہیں۔ اِن میں بہت سے ایسے ہیں جن کی لالچ پوری ہی نہیں ہوتی۔ اپنے آپ کو تو بُرا نام دیا ہی‘ سیاست کو بھی بد نام کر دیا۔ اِس لیے لوگوں کا سیاست سے اعتبار اُٹھ گیا۔ ایک زمانہ تھا جب شاہسواروں پہ عوام کا اعتماد ہوتا تھا کہ سیاست دان اگر نا اہل اورکرپٹ ہیں‘ وہ تو ٹھیک ہیں۔ وہ بھی بہت آئے اور ایسے آئے کہ عوام کا جی بھر گیا۔ اب عوام میں آپ کسی سے کہیں کہ نجات دہندہ ڈھونڈ کے لاتے ہیں تو وہ جوتا اُٹھانے پہ آ جائے۔
ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی عادت زور پکڑتی گئی ہے۔ جو سامنے نہیں آ سکتے، خود سٹیرنگ ویل پکڑ نہیں سکتے کیونکہ شاید حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے‘ لیکن پھر بھی وہ مُصر ہیں کہ پیچھے سے کنٹرول کرتے رہیں۔ ایسے معاملات چل نہیں سکتے۔ حکمرانی کو چھوڑیں ایسے حالات باورچی خانے میں نہیں چل سکتے کہ دیگچی کے سامنے کھڑا تو کوئی اور ہو لیکن پیچھے سے ہدایات کوئی اور جاری کر رہا ہو۔ پاکستان کا مخمصہ یہی ہے اور ٹھیک ہونے کی بجائے وقت گزرنے کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ وقتی طور پہ سہی میاں نواز شریف کو ضمانت پہ رہائی مل گئی۔ تو پھر کیا اور اِس کا اثر قومی معاملات پہ کیا ہو گا؟ مولانا نے بڑے زور کا مارچ کر ڈالا اور اسلام آباد آن پہنچے۔ پھر کیا، اِس کے بعد کیا ہو گا؟ حکومت اور وزیر اعظم کو تو بُرا بھلا کہا، وزیر اعظم کی کمزوریاں اور خامیاں بھی ایکسپوز کر دیں، لیکن اس کے بعد کیا؟ کون سے فوری اہداف ہیں جو وہ پورا کرنا چاہتے ہیں؟ کون ہے اسلام آباد میں جو کہہ سکتا ہے کہ اُسے جانچ ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے پا رہا کہ مولانا اپنے زور پہ کھڑے ہیں یا اُن کے پیچھے ہاتھ رکھنے والا کوئی ہے۔ اداروں کے بارے میں اُن کی زبان حالیہ دنوں میں سخت رہی ہے۔ وہ خود یہ کر رہے ہیں یا کسی کے کہنے پر۔ اِس کا غالباً کسی کو علم نہیں۔
تیس پینتیس سال سے پاکستانی سیاست ایک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور اُس سے باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ عمران خان کا تجربہ اِس بنا پہ کرایا گیا تھا کہ پرانا گرداب ٹوٹے گا اور نئی سیاست جنم لے گی۔ یہ بھی توقع تھی کہ پرانی سیاست برباد ہو گی اور نئے چہرے نئے ارادوں کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ یہ تمام خواب چکنا چور ہوئے۔ اَب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عمران خان کا چہرہ ٹی وی سکرین پہ نظر آتا ہے تو لوگ صلواتیں کہنے لگ پڑتے ہیں۔ یعنی جیسے اوپر ذکر ہوا یہ تجربہ بھی ناکام ہو چکا۔ بھلے حکومت اپنا وقت پورا کرے لیکن اِس کی سال بھر کی کارکردگی نے ثابت کر دیا ہے کہ اِن تلوں میں تیل نہیں۔ سیاست تو برباد ہوئی، شاہسواروں پہ بھی وہ اعتماد نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔ تو اور کون سا نیا تجربہ آزمانے کا رہ گیا ہے؟
بیماری کیا ہے؟ خمیر ہی ہمارا ایسا ہے یا کوئی بد دُعا لگی کہ حالات نہ سنبھلیں۔ میری عمر کے لوگوں نے تو اُمید کے دن دیکھے ہیں۔ جب ہم تھوڑے کم عمر تھے تو چیزیں یہاں چلا کرتی تھیں۔ تنگ دلی اور تنگیٔ سوچ جیسے بادل نہ منڈلاتے تھے جو اب ہماری تقدیر کا حصہ نظر آتے ہیں۔ ایک نارمل ملک لگتا تھا۔ تفریح کا سامان موجود تھا اور معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کرنے والے طبقات کا معیار بھی بلند نظر آتا تھا۔ لیکن پھر پتہ نہیں کس کی نظر لگی اور ہر شعبے میں حالات خراب ہونے لگے۔
ملک چل رہا ہے اِس میں تو کوئی شک نہیں لیکن اکثر اوقات لگتا ہے کہ ایک ہی جگہ کھڑے حرکت ہو رہی ہے۔ آگے کو قدم نہیں جا رہا۔ نئی سوچ پیدا نہیں ہو رہی۔ پرانے خیالات سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ بھی ہونا تھا کہ ایک اہل منبر آج للکار اور کسی ان ہونی تبدیلی کی علامت بن کے نظر آتا؟ عمران خان تو تھے ہی، اُن کے اوپر مولانا فضل الرحمن۔ کیا یہی ہماری قسمت میں لکھا ہوا ہے؟
مولانا کا مارچ کھیل تماشہ نہیں رہا۔ پڑاؤ اُن کا اسلام آباد میں لگ چکا ہے... دیکھنا یہ ہے کہ پڑاؤ ختم ہوتا ہے یا کوئی لمبی صورت اختیار کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی گفتگو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ مارچ اور اُس سے پیدا شدہ ماحول کی وجہ سے حکومت پہ منفی اثر پڑا ہے۔