چھوٹا منہ بڑی بات لیکن کہنے کی اجازت ہو کہ غالب کے اِس فرمان سے اتفاق نہیں کہ فلاں چیز... نام کیا لینا... سے غرضِ نشاط کس رو سیاہ کو۔ ہمیں غرضِ نشاط رہتی ہے، ہر روز نہیں لیکن کبھی کبھی۔ لیکن مسئلہ جو یہاں درپیش ہے غالب کو نہ تھا۔ غرضِ نشاط یا اُس قسم کی اور حرکیات کیلئے غالب کو کسی پردے کا اہتمام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ روحانی ساز و سامان گدھے پہ بھی لاد کے لاتے تو کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیزکے لئے ہم نے پردے کا اہتمام لازم قرار دے دیا ہے۔
مانا کہ نظریاتی مملکت ہے۔ لیکن اتنا پردہ اور اتنا اہتمام... یہ تو بوریت کا سامان پیدا کرنے والی بات ہے۔ بیماریوں میں ڈپریشن سے بری چیز کوئی نہیں۔ اور زندگی کے جو روگ ہیں اُن میں بوریت سے بڑا روگ کوئی نہیں۔
اَب جو لاہور چھوڑ کے آئے ہیں، مزدوری کی غرض سے تین شامیں اسلام آباد میں گزارنا پڑتی ہیں۔ پروگرام نو بجے ختم ہوتا ہے۔ اُس کے بعد کیا کریں؟ یہی رہ جاتا ہے کہ کسی جاننے والے کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ لیکن روز ایسا کرنا اچھا نہیں لگتا۔ مملکت کا حال ہم نے یہ کر دیا ہے کہ باہر دیکھیں تو ویرانی کے سوا کچھ نہیں۔ مملکت کے کسی شہر میں شام کو آپ نکلیں تو سوائے کھانے پینے کے اور کوئی شغل نہیں۔ باقی تمام چیزوں‘ جو کہ نشاط کے زمرے میں آ سکتی ہیں‘ کو اندرون خانہ ہم نے کر دیا ہے، یعنی تہہ در تہہ پردوں کے پیچھے۔ ان کیلئے پردوں کو چاک کرنا پڑتا ہے۔ زور آور لوگ ایسا کر سکتے ہوں گے، ہم دارالخلافہ آتے ہیں تو مسافر کی حیثیت سے۔ کیا مزدوری ختم کر کے پردوں کو چاک کرنے میں لگ جائیں؟ کیا عجیب معاشرہ بنا ڈالا ہے۔ کہنے کو تو مملکت کا دارالخلافہ ہے لیکن اِس سے زیادہ اُکتا دینے والی جگہ دریافت نہیں کی جا سکتی۔
ایک دو بڑے ہوٹل ہیں لیکن وہاں بھی سوائے کھانے کے اور کیا رکھا ہے۔ جس کلب کے ہم ممبر ہیں وہاں بھی بس کھانا ہی۔ لندن، پیرس وغیرہ کو چھوڑئیے۔ غریب سے غریب ملک کے دارالخلافے میں جس انداز سے بھی ہو نشاط کا کوئی سامان ہوتا ہے۔ اِسے عجوبہ نہیں سمجھا جاتا۔ اسلام آباد میں ہمارے رات کے نو بجتے ہیں اور دھڑکا لگ جاتا ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ کوئی جگہ ہو جہاں جا کے کچھ دیر بیٹھ سکیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دوست ہی ہوں تو اچھی شام گزرے۔ کبھی اکیلے رہنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کلب ہو یا کوئی ریستوران‘ کونے میں کہیں بیٹھ سکیں، بے شک اکیلے میں۔ اور لازم نہ ہو کہ کلو ڈیڑھ کلو کڑاہی گوشت آرڈر کرنا پڑے بیٹھنے کے لئے۔ ہر شام مرزا غالب کو دہلی کے چاندنی چوک میں کڑاہی گوشت کھانا پڑتا تو اپنی آدھی شاعری بھول جاتے۔
پتلی جیبوں والوںکے مسائل الگ ہیں۔ آسودہ حال طبقات کے لئے بس کھانے پینے سے زور آزمائی رہ گئی ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ شادیوں پہ لوگ کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور کریں بھی کیا؟ اسلوب کچھ اور آئیں تو کچھ کریں۔ یقینا مملکت کے سایوں اور اندھیروں میں بہت کچھ ہوتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ پردوں کے پیچھے۔ ہر اچھی چیز یہاں نقاب پوش ہے۔ واردات کرنے والے اتنا نقاب استعمال نہیں کرتے جتنا شرفاء کو کرنا پڑتا ہے۔
قوم کا کیا حال ہے اِس سے اَب ہمیں کچھ زیادہ غرض نہیں۔ ذاتی طور پہ بہت سے غموں سے ہم نجات پا چکے ہیں۔ اسے ہماری خوش قسمتی سمجھیے۔ اِن غموں میں قوم کا درد بھی شامل ہے۔ مملکت نے اپنا کیا حال بنایا ہے وہ مملکت جانے۔ ہمیں غرض اپنی تین شاموں سے ہے۔ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ کے جس کونے میں میڈیا کے دفاتر ہیں اور جہاں ہم مزدوری کرنے جاتے ہیں‘ وہ ایسا لگتا ہے کہ کسی قبرستان میں زیادہ رُونق ہو۔ گھپ اندھیرا، دفاتر کے سامنے گارڈ اُکتاہٹ کی تصویر بنے ہوئے۔ میڈیا کے ایسے دفاتر کسی اور ملک میں ہوں تو چہل پہل ہو۔ لوگوں کے منہ پہ کچھ رونق ہو۔ کچھ قدم لڑکھڑا رہے ہوں۔ ماحول میں تھوڑی سی مستی ہو۔ کوئی پروگرام بن رہے ہوں کہ اِس کے بعد کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ یہاں تو ایسی اُداسی چھائی رہتی ہے کہ ناتواں دل اور بیٹھ جائے۔ پھر وہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ گاؤں واپس ہو لیں یا کسی دروازے پہ جائیں۔ یہ کسی چکوال یا گوجر خان کا حال نہیں۔ یہ اسلام آباد the beautiful کا حال ہے۔
زندگی میں پہلی بار ٹیلی ویژن پہ آنے کا اتفاق مجھے لندن میں ہوا۔ چاچا ہمدانی جو کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ہوا کرتے تھے اور جلا وطنی کی زندگی لندن میں گزار رہے تھے‘ اُن کے فلیٹ پہ میں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ وقتِ مقررہ پہ ٹی وی سٹوڈیو سے ایک مرسڈیز کار آئی۔ دیکھا کہ نہایت ہی خوبرو خاتون مجھے لینے آئی ہیں۔ ٹریفک تو لندن میں ہوتی ہے لیکن اُس خاتون سے گپ شپ میں ٹریفک کا کیا پتہ چلنا تھا۔ چینل پہنچے تو دو منٹ میں واجبی سا میک اپ ہوا اور پھر سٹوڈیو میں چلے گئے۔ آدھے گھنٹے کا پروگرام تھا، ختم ہوا تو ساتھ کمرے میں ہمیں لے جایا گیا۔ اُس شو کے ساتھ منسلک تمام لوگ یعنی پروڈیوسر وغیرہ موجود تھے۔ میز پہ سینڈوچ لگے ہوئے تھے اور ساتھ ہی روحانی قسم کے اجزا تھے‘ جن کا تعلق غالباً فرانس سے تھا۔ کچھ دیر گپ شپ لگی اور پھر مجھے کہا گیا کہ تمہارے لئے ٹیکسی باہر کھڑی ہے۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ ٹیکسی کو کہاں تک لے جا سکتا ہوں۔ اُس نے کہا کہ رات بھر گھمانا ہے تو کر سکتے ہو۔ یہاں روحانیت تو دور کی بات ہے نہ سینڈوچ نہ کچھ اور۔ بس ہم اور شام کی تنہائی۔ منیر نیازی نے پتہ نہیں کس خیال میں وہ لازوال گانا لکھا ''اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘۔ ہمارا دارالخلافہ کسی بے وفا کا شہر نہیں۔ ہوتا تو پھر کیا غم تھا۔ یہ تو بس بوریت کا گہوارہ ہے اور اِسے یار دوستوں نے beautiful کا لقب دیا ہوا ہے۔
بات کچھ اور ہے کہ ہم نے اِس ملک کا کیا بنا دیا ہے۔ سارے کا سارا ملبہ جنرل ضیاء الحق کے سر ڈالنا سراسر بے انصافی ہے۔ اُن کو گئے کتنے سال بیت چکے ہیں؟ آج کل کی کوئی بات کرے تو ہم فوراً ضیاء الحق تک پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کیا کیا؟ پرویز مشرف کا دور قدرے بہتر تھا۔ کچھ نرمی آ گئی، کچھ آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ لیکن پردہ نہ ہٹایا گیا۔ آسانیاں بھی پیدا ہوئیں تو پردوں کے پیچھے۔ یہ جنرل صاحب کی بزدلی کی عکاسی تھی۔ اقتدار کے پہلے دو تین سالوں میں وہ سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جو چاہے کر سکتے تھے۔ لیکن مملکت پہ ایک عجیب سا خوف طاری ہے کہ فلاں کریں تو وہ ہو جائے گا۔ اِس ڈر سے ہمت ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ پرویز مشرف تھوڑی ہمت دِکھاتے تو آنکھ جھپکنے میں جنرل ضیاء الحق کے نافد کردہ قوانین کو ایک طرف کر سکتے تھے۔ ہم نے سنگا پور یا جنوبی کوریا کیا بننا تھا، کچھ ماحول میں آسودگی آ جاتی، لوگوں کے دلوں سے کچھ خوف نکل جاتا۔ لیکن ہمارے کمزور دل حکمران مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں۔ پھر جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا اور جہاں اُن کی آدھی مصلحت پسندی تھی اُن کے بعد کے حکمرانوں کی مکمل مصلحت پسندی ملک پہ چھا گئی۔
یہ تو اچھی بات ہے کہ ایک سے زیادہ اہلِ منبر کے پروں سے ہوا نکل گئی ہے۔ شیخ الاسلام کا دھرنا اُنہیں مہنگا پڑا۔ علامہ خادم رضوی نے اچھی خاصی اُڑان لے لی تھی لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ اُنہیں قدم کہاں تک بڑھانا چاہیے۔ اَب قبلہ مولانا فضل الرحمن کا بھی حشر کچھ اچھا نہیں ہوا۔ لیکن اِن سب واقعات کا فائدہ کیا نکلا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان تجربات کے بعد پردے ذرا چاک ہوں۔ لیکن پردے وہیں ہیں اور دارالخلافے کی شامیں پہلے کی طرح ہی ویران ہیں۔