یہ کیا بات ہوئی کہ آرمی چیف کے عہدے کی توسیع کا نوٹیفکیشن ٹھیک طرح ڈرافٹ نہیں ہوا۔ یہ تو ہم تب کہیں جب باقی چیزیں اس مملکت میں بڑے خوبصورت انداز میں ہو رہی ہوں۔ کوئی بتائے تو سہی کہ کون سے شعبہ ہائے زندگی ہیں جو ٹھیک طرح چل رہے ہیں۔ ذہانت کے سر چشمے کہاں پھوٹ رہے ہیں؟ نکمّا پن ہمارے معاشرے میں بہت دور تک پھیل چکا ہے۔ تو اگر ایک سادہ سا نوٹیفکیشن ٹھیک طرح ڈرافٹ نہیں ہو رہا اور اس میں سُقم رہ جاتے ہیں تو اِس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟
ہمارے جو افلاطون مختلف محکموں میں بیٹھے ہیں اور اُن کو چلانے کا دکھاوا کرتے ہیں‘ کیا وہ کہیں اور سے آئے ہیں؟ یہیں کی پیداوار نہیں؟ اِن میں بھی مجموعی ذہانت کا تناسب وہی ہونا ہے جو باقی قوم کا ہے۔ میں نام نہیں لیتا، ایک صاحب ہیں جو اپنے آپ کو بڑا قانون دان سمجھتے ہیں۔ آئے روز اُن کی تصاویر وزیر اعظم کے ساتھ چھپتی ہیں۔ اُنہیں مضامین لکھنے کا بھی شوق ہے۔ اُن کی طرزِ تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنی قابلیت بات کر رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کے بڑے قریب ہیں۔
ایسے مسائل پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن پہلے حالات اور ہوا کرتے تھے اور مسائل کے حل کیلئے طریقے بھی اور استعمال ہوتے تھے۔ مثال کے طور پہ جنرل مشرف جب براجمانِ اقتدار ہوئے تو قبضۂ اقتدار کی توثیق سپریم کورٹ سے مطلوب تھی۔ لیکن تب کے چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی کچھ اور ارادے رکھتے تھے۔ اِس کا سادہ حل یہ نکالا گیا کہ چیف جسٹس صاحب کو اپنی سرکاری رہائش گاہ میں تقریباً نظر بند کر دیا گیا اور ایک پی سی او جاری ہو گیا‘ جس کے تحت جج صاحبان کو نیا حلفِ عہدہ لینے کا کہا گیا۔ جن کی چھٹی ہونی تھی اُن کی چھٹی کرا دی گئی اور نئے چیف جسٹس مقرر ہو گئے۔ انہوں نے وہ کیا جو جنرل مشرف چاہتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہوا تھا۔ نصرت بھٹو کیس میں چیف جسٹس انوارالحق نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کی توثیق کر دی تھی۔ فیصلہ لکھا جا چکا تھا اور دوسرے دن اُس کو پڑھ کے سنایا جانا تھا۔ اُس رات ایک ضیافت ہوئی جس میں تب کے اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ چیف جسٹس صاحب کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا: نہیں۔ پیرزادہ صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ایک پی سی او آنے والا ہے جس میں نئے حلف لینے ہوں گے۔ اِس سے زیادہ کچھ نہ کہا لیکن چیف جسٹس بلا کے ذہین آدمی تھے، اُن کے لئے اشارہ ہی کافی تھا۔ ضیافت کے فوراً بعد انہوں نے اپنا دفتر کھلوایا اور ٹائپ شدہ فیصلے کے کسی صفحے پر اپنے ہاتھ سے لکھ دیا کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو بغرض انتخابات آئین میں ترمیم کا حق ہے۔
اب حالات اور ہیں۔ عدلیہ اپنی جگہ قائم ہے اور کسی کو کوئی پی سی او لانے کا اختیار نہیں۔ اس لیے حکومت کے نمائندگان بھیگی بلیوں کی طرح سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے تھے اور طرح طرح کی بیکار کی باتیں کر رہے تھے۔ اب بھی لا یعنیاں مار رہے ہیں کہ آرمی چیف کی توسیع چھ ماہ کے لئے نہیں، اِسے تین سال ہی سمجھا جائے۔ یہ ایسی بات ہے کہ اُن کے اپنے دل بھی اِس کے حق میں گواہی نہ دے رہے ہوں گے۔ محض اپنی خِفت مٹانے کی یہ کوشش ہے۔ اور وزیر اعظم کو بھی دیکھیے۔ عین اُس دن جب سپریم کورٹ کا یہ چھ مہینے والا فیصلہ آیا‘ وہ ہمارے ملک کے افریقہ میں تعینات سفیر صاحبان کی ایک کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے۔ بات وہ افریقہ کی کرتے اور وہاں کے حالات کی۔ رائے دینے لگ پڑے سپریم کورٹ کے فیصلے پہ اور اِس دوران یہ کہنے سے نہ رہ سکے کہ ہندوستان میں بی جے پی اور پاکستان میں مخصوص مافیاز سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہوئے ہوں گے کیونکہ اداروں کا تصادم نہ ہوا اور اِس سے اُن کی امیدوں پہ پانی پھر گیا۔ اس پہ کیا تبصرہ کیا جائے۔ نہ سمجھی کی ایک خاص حد کے بغیر ایسی بے تُکی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ حالت جب یہ ہو تو پھر اس پہ کیا اعتراض کہ لاء منسٹری کے قانون دانوں سے نوٹیفکیشن ٹھیک نہ لکھا گیا۔
یہاں عقل کا معیار ہی ایسا ہے۔ ریاست کے خد و خال بھی ایسے بنائے جا چکے ہیں کہ ایسی باتوں سے حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ ایک تو ہم نے آرمی چیف کے تقرر یا توسیع کا مسئلہ اپنے ذہنوں پہ ایسے سوار کیا ہوا ہے کہ لگتا ہے اس سے بڑا عالمی مسئلہ کوئی نہیں۔ اگر حکومت منتخب ہے تو کارکردگی اُس کی ہونی چاہیے۔ یہ کیا ہوا کہ مقتدرہ کا عہدہ فلاں طریقے سے پُر ہونا چاہیے۔ جنرل ضیاء کا دور گزر چکا، جنرل مشرف کا سورج کب کا ڈھل چکا۔ اب ہمیں آگے کو دیکھنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کو دیکھ لیجیے۔ جب اُنہوں نے فاٹا میں کارروائی شروع کی اور پھر کراچی میں ایم کیو ایم مخالف آپریشن ہوا تو ہم جیسوں نے جنرل راحیل کو آسمان پہ چڑھا دیا۔ اُن کی بڑی عزت بنی۔ اُسی پہ اکتفا کرنا چاہیے تھا۔ وقت سے پہلے اُنہوں نے اعلان بھی کر دیا کہ توسیع جیسی کسی چیز میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ پھر جو وقتِ الوداع قریب ہوتا گیا تو اُن کے ارادے ڈگمگانے لگے۔ اِدھر اُدھر سے طرح طرح کی پھلجھڑیاں چھوڑی گئیںکہ مدتِ ملازمت میں اُن کی توسیع ملکی مفاد میں ناگزیر ہے۔ نواز شریف کو سیاست کون سکھائے۔ اوپر سے چپ رہے لیکن ان باتوں میں نہ آئے۔ جب مراد عیاں ہو اور پوری نہ ہو تو اپنے آپ کو خراب کرنے والی بات ہی بنتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے ساتھ یہی کیا۔
ہمارے ہاں مخصوص فنکاروں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ ہر طاقت ور شخص کے گرد یہ فنکار محاصرہ بنا لیتے ہیں۔ تعریفوں کے ایسے پل باندھتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ اور پھر یہ گردان چھڑتی ہے کہ اِس شخص کا رہنا قوم کی تقدیر کے لئے لازم ہے۔ ان فنکاروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے آدمی کا دماغ خراب کر کے رکھ دیں۔ سازشیں کامیاب ہو جائیں تو اِن کے وارے نیارے۔ کوئی طاقت ور چلا جائے تو پھر اُس کی مجلس ایسے خالی ہوتی ہے کہ انسان تکتا ہی رہ جائے۔
جو بھی ہوا اور جیسا بھی ہوا‘ اچھا ہوا۔ اس کے بعد توسیع والا مسئلہ آسان نہیں رہے گا۔ مقررہ وقت میں پارلیمنٹ پتہ نہیں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق مطلوبہ قانون بنا سکتی ہے یا نہیں‘ لیکن آئندہ کے وقتوں میں تین سالہ مدتِ ملازمت میں توسیع آسان نہ رہے گی۔ یہ بحران تو نہیں تھا تماشا تھا۔ تماشا بھی خوب لگا۔ تین دن قوم کا وہ حصہ جو ایسی خبروں پہ زندہ رہتا ہے اور کسی بارے میں سوچ نہ سکا۔ لیکن اس تماشے سے اچھائی کا پہلو یہی نکلا ہے کہ آئندہ کیلئے یہ پیچیدہ مسئلہ تو حل ہوا۔ جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے دیگر مسائل آسان ہو جائیں گے۔ ہماری اجتماعی ذہانت کہاں گئی اگر ایسی آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ لیکن کم از کم یہ ایک مسئلہ تو حل ہوا۔ جو بھی آئے گا اُسے بخوبی پتہ ہو گا کہ بس تین سال کیلئے آئے ہیں۔ اِس لحاظ سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاکستانی تاریخ کے سوکھے اور دلخراش اوراق میں اپنا نام درج کروا لیا ہے۔ یہی بڑا کارنامہ ہے۔
لیکن یاد رہے کہ پانامہ کیس کے پہلے فیصلے میں جو جسٹس کھوسہ نواز شریف کے بارے میں کہہ گئے تھے وہ بھی یاد رکھا جائے گا۔ نواز شریف کی تشبیہ اُنہوں نے اٹلی کے مافیا سے دی تھی۔ جب اور سب کچھ بھلایا جا چکا ہو گا یہ الفاظ شاید ذہنوں میں رہیں۔