یہ جو ہم نے روز کا وتیرہ بنایا ہوا ہے کہ ہندوستان کے فوجی سربراہ کا کوئی بے تُکا سا بیان آیا اور ہم نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پُراعتماد قومیں ہر بے تُکی بات کا نوٹس نہیں لیتیں۔ ہندوستانی وزیر دفاع ہو یا آرمی چیف‘ وہ جو کہتے ہیں کہیں، لازمی نہیں کہ ہم لفظی گولہ باری سے اُس کا جواب دیں۔ جن قوموں کو اپنے پہ بھروسہ ہو وہ حتی الوسع لفظی گولہ باری سے پرہیز کرتی ہیں۔ ہمارے کئی ترجمان ہیں، فارن آفس کے یا کہیں اور کے، جو اپنی لفظی صلاحیتوں پہ بڑا ناز کرتے ہیں۔ انہیں بیان بازی تھوڑی کم کرنی چاہیے۔ پاکستانی قوم کے حوصلے اتنے پست نہیں کہ ہندوستان کی طرف سے کوئی پھلجھڑی آئے اور وہ پریشان ہو جائے۔
تاریخ میں بے شمار نظیریں ملتی ہیں جہاں چھوٹی قوموں نے بڑی دلیری سے بڑے ملکوں کا مقابلہ کیا۔ پاکستان اتنی چھوٹی قوم نہیں اور اتنی بے سروسامان بھی نہیں۔ یہ ٹینک اور لڑاکا جہاز اور اوپر سے ایٹمی ذخیرہ کس کام کیلئے ہیں؟ ہم ہندوستان سے چھوٹے ہوں گے، وسائل کم ہوں گے لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ ہندوستان ہمارے ساتھ کوئی ایڈونچر کرے اور ہم اس کا خاطر خواہ جواب نہ دے سکیں۔ لیکن یہ تواتر کی زبانی گولہ باری کوئی اچھی نہیں لگتی۔
خطرہ پاکستان کو نہیں ہے، اپنے دفاع کیلئے پاکستان کے پاس وہ ہر چیز ہے جو ضروری سمجھی جاتی ہے۔ خطرہ کشمیریوں کو ہے اور ہندوستان کے دیگر مسلمانوں کو۔ وہ نہتے رہ گئے ہیں، اُن کے پاس نہ کوئی ڈھال ہے نہ کوئی سازوسامان۔ اُن کا دفاع ہندوستانی آئین اور اُس میں درج سیکولرازم کی شقیں ہیں۔ یہ آئین کتنا مضبوط دفاع ہے وہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ جب وہاں کی حکمران جماعت نے مقبوضہ کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کیا تو ہندوستانی آئین کشمیریوں کی مدد کو نہ آ سکا۔ اِس وقت باقی ہندوستان میں مسلمان اقلیت پہ بہت پریشر ہے اور یہ پریشر بڑھتا جا رہا ہے۔ ہندوستانی آئین اور ہندوستان کا سیکولرازم اِن کی مدد نہیں کر پا رہے۔ لوگ وہاں مسلمانوں کے حق میں احتجاج بھی کر رہے ہیں لیکن احتجاج کرنے والے یا سیکولر سوچ رکھنے والے کمزور ہیں اور حکمران جماعت اور اُس کے ہمنوا یا اُس کی سوچ رکھنے والے طاقتور ہیں۔ ہندوستانی سیکولرازم کمزور پڑ چکا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ مضبوط تر ہو چکی ہے۔ اس حال میں کشمیریوں کی مدد کو کون آ سکتا ہے اور ہندوستان کی سہمی اور ڈری ہوئی مسلمان اقلیت کو کہاں سے سہارا مل سکتا ہے؟
ایک بات صاف ہے اور اِس میں کوئی دو آرا نہیں ہونی چاہئیں۔ پاکستان اپنا دفاع تو کر سکتا ہے‘ کشمیریوں کی مدد کو نہیں آ سکتا۔ جہاد کا نعرہ بلند کرنا بہت آسان ہے لیکن عملاً موجودہ حالات میں اس راہ پہ چلنا ناممکن ہے۔ ہماری بیان بازی یا ریلیوں سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی زندگیاں آسان نہیں ہوتیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کی صورتحال پہ بہت زور دار تقریر کی۔ پاکستان میں اُس تقریر پہ داد کے ڈونگڑے برسائے گئے لیکن اُس تقریر سے کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ سرینگر اور دیگر شہروں میں جو حصار مسلمانوں کے گرد بن چکا ہے اس میں تو کوئی نرمی نہیں آئی۔ یہی صورتحال باقی مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ وہ ایک خوفناک صورتحال میں قید ہیں اور ہم کسی دور ساحل پہ کھڑے ہیں۔ کچھ کہہ سکتے ہیں تو حکومتی سطح پہ ان محصور مسلمانوں کیلئے کہیں۔ یہ کیا ہوا کہ آئے روز ہماری طرف سے ایک بیان داغا جاتا ہے کہ ہندوستان نے کچھ بارڈر پہ کیا تو ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے؟
اول تونریندر مودی اور اُن کی جماعت بی جے پی اپنے ذہنوں میں بڑی واضح ہیں کہ ہم نے ہندوستان کو ہندو ریاست بنانا ہے جس میں مسلمانوں کی حیثیت ثانوی یا پرلے درجے کے شہریوں کی ہو گی۔ یعنی اُن کی نظروں میں ہندوستان کے نئے اچھوت وہاں کے مسلمان ہیں۔ ثانیاً ہندوستان جب اس ایجنڈے پہ کاربند ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ کسی ایڈونچر میں کیوں مبتلا ہو گا؟ ایسا کرنے سے اُسے حاصل کیا ہو گا؟ یہ تو ہمارے دماغوں کی ایک اختراع ہے کہ اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ہندوستان کوئی جارحیت کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جانی چاہیے کہ جو بھی ہندوستان میں داخلی طور پہ ہو رہا ہے، جو احتجاج مخصوص قانون سازی کے خلاف مختلف جگہوں پہ دیکھنے میں آیا ہے، اُس کی نوعیت ایسی نہیں کہ ہندوستان کی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو۔ کشمیر میں اور باقی ہندوستان میں صورتحال پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے لیکن حکمران جماعت کے بس سے باہر نہیں ہے۔ لہٰذا توجہ ہٹانے کیلئے ہندوستان کو کسی ایڈونچر کی ضرورت نہیں۔ اس بارے میں ہم اپنے دل نہ ہی بہلائیں تو بہتر ہے۔
کچھ ہمیں تاریخ پہ غور کرنا چاہیے۔ جب ہندوستان کی تقسیم کا ہنگام سر پہ تھا تو ظاہر ہے مسلمان قوم میں پاکستان کا مطالبہ زور پکڑ چکا تھا اور کسی دوسری رائے کو بیشتر مسلمان آبادی سننے کیلئے تیار نہ تھی۔ 45-1944ء کے بعد پاکستان ایک ناگزیر حقیقت بن چکا تھا لیکن تب بھی مسلمان قوم میں ایسی آوازیں تھیں جو مستقبل کے بارے میں فکر مند تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان بنا تو اُن علاقوں میں بنے گا جہاں مسلمان ویسے ہی عددی یا بھاری اکثریت میں ہیں اور جہاں اس لحاظ سے باقی ہندوستان کی ہندو اکثریت سے اُنہیں کوئی خوف نہیں‘لیکن اُن مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بھارت میں رہ جائیں گے؟ یہ اہم سوال تھا لیکن مطالبہ پاکستان کے دوران جذبات اس نوعیت کے تھے کہ اِ س سوال کو زیادہ خاطر میں نہ لایا گیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی یہی سوچ تھی کہ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے گئے تو مسلمان قوم کو نقصان پہنچے گا۔ تقسیم ہند کے نزدیک اُن کے خطبات میں یہی بات اٹھائی گئی کہ کہاں جا رہے ہو، اپنا صدیوں کا ورثہ کیوں چھوڑ کے جا رہے ہو؟ جو علاقے اب پاکستان کا حصہ ہیں اُن میں بھی مسلمان حکمرانی کے نشان ملتے ہیں لیکن زیادہ تر ایسی نشانیاں ہندوستان میں تھیں۔ مولانا کا یہ بھی مؤقف تھا کہ مسلمانوں کی اتنی عددی تعداد ہے کہ انہیں کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا اور ہر فیصلے میں اُن کی حیثیت فیصلہ کن ہو گی۔ چوہدری خلیق الزمان کی کتاب ''شاہراہ پاکستان‘‘ میں نے نہیں پڑھی اور اب ارادہ ہے کہ اُسے پڑھنا چاہیے۔ لیکن اُس کے کچھ ماخوذ نظر سے گزرے ہیں جن میں چوہدری خلیق الزمان نے اسی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد جو باقی ماندہ مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے اُن کا کیا بنے گا؟ اُن کا تحفظ کیا ہو گا؟ حسین شہید سہروردی کا بھی یہی خیال تھا۔ ظاہر ہے اس سوچ کو تب کے حالات میں پذیرائی نہ ملی اور پاکستان کے قیام کے بہت عرصے بعد تک ایسی سوچ رکھنے والوں کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھا گیا‘ لیکن آج مودی کے ہندوستان میں وہ سارے خدشات‘ جن کا کمزور سا اظہار تب کیا گیا تھا ایک زندہ اور خوفناک حقیقت بن کے سامنے آ گئے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان کے مسلمان تو خود کو بے بس پاتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ ساتھ ہم بھی عملی طور پہ بے بس ہیں۔ زبانی جمع خرچ کے علاوہ نہ ہم کشمیریوں کی مدد کر سکتے ہیں نہ ہندوستانی مسلمانوں کے کسی کام آ سکتے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ اُتر پردیش ہے۔ یہ سرزمین مسلمان تہذیب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی۔ آج بھارتیہ جنتا پارٹی کا وہاں اقتدار ہے اور وہاں کے چیف منسٹر ایک پکے ہندو انتہا پسند ہیں، یوگی ادتیا ناتھ۔ اُنہیں مسلمانوں سے قطعاً کوئی ہمدردی نہیں۔ بی جے پی کے لوگ مسلمانوں کے خلاف زیادتی کر رہے ہیں اور اُتر پردیش کی سرکار اور پولیس ہر موڑ پہ ایسے لوگوں کی معاون ثابت ہورہی ہیں۔ اور اُترپردیش کے مسلمان بے بس ہیں۔
جہاںدیگر چیزیں ہوئیں 1947ء کے اردگرد یہ بھی ہوا کہ مسلمان قوم کے جن رہنماؤں کو ہندوستان میں رہنا چاہیے تھا، جنہیں وہاں مورچے سنبھالنے چاہئیں تھے، اُن میں سے بیشتر یہاں آ گئے۔ غریب اور نہتے مسلمان بے یارومددگار رہ گئے۔ تاریخ میں پیچھے ہٹنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں لیکن مسلمان امرا اور بالائی طبقات جس طریقے سے ہندوستان چھوڑ کے آئے یہ بھی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ سمجھا جائے گا۔