(آج 18 جنوری کو لافانی گائیک کندن لعل سہگل کی 73ویں برسی ہے)
کندن لعل سہگل نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو اُس سے پہلے بھی فلمیں بنتی تھیں اور اُن میں گائیکی بھی ہوتی تھی لیکن مردانہ آوازیں اُس زمانے کی بس ویسے ہی تھیں۔ آج اُن ناموں کی یاد تک نہیں رہی۔ سہگل آئے تو انہوں نے فلمی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔ آواز ایسی تھی اور گانے کا انداز بھی ایسا کہ جلد ہی اُن کی چھاپ بیٹھ گئی اور پھر ایک سے بڑھ کر ایک ایسی فلم بنی جس میں سہگل صاحب نے خود ایکٹنگ کی اور گیت گائے۔ 1930ء کی دہائی میں جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو بہت قلیل عرصے میں سہگل کی دھوم پورے ہندوستان میں مچ گئی۔
سُپرہٹ گانوں کا سلسلہ اُن کی وفات تک جاری رہا۔ ہر فلم اُن کی باکس آفس پر ہٹ نہیں تھی۔ خاص طور پہ جب وہ 1940ء کی دہائی میں کلکتہ سے بمبئی آئے تو کئی ایک فلمیں اُن کی فلاپ ثابت ہوئیں۔ اِس سے ضرور اُنہیں دھچکا لگا ہوگا۔ مے پرستی کے قائل وہ ہمیشہ سے تھے لیکن بمبئی منتقلی کے بعد اِس میں کچھ اضافہ ہی ہوا جو بالآخر اُن کی ناگہانی وفات کا سبب بنا۔ لیکن فلمیں کامیاب ہوئیں یا فلاپ ٹھہریں، سہگل صاحب کی آواز میں ہر گانا لاجواب ہی رہا۔ اسی لئے دنیا بھر میں جہاں جہاں ہندوستانی اور پاکستانی موجود ہیں وہاں آج تک سہگل صاحب کے پرستار بھی پائے جاتے ہیں۔
اتنے گانے تو اُنہوں نے نہ گائے جتنا کہ بعد کے گوّیوں کے نصیب میں آئے۔ مثال کے طور پہ محمد رفیع صاحب نے ہزاروں کی تعداد میں گانے گائے ہیں۔ اِن سے موازنہ کیا جائے تو سہگل صاحب کے گیت بہت کم ہیں۔ لیکن اُن کا ہر ایک گانا منفرد ہے۔
اس بے مثال گائیکی کا راز کیا تھا؟ ایک تو آواز مدُھر، میٹھی اور سوز سے بھری ہوئی۔ انگریزی میں ٹھیک ہی کہتے ہیں The Golden Voice of K.L.Saigal۔ واقعی گولڈن آواز تھی۔ اُس زمانے کے میوزک ڈائریکٹر بھی اپنے فن کے لحاظ سے عظیم تھے۔ رائے چند بورال نے سب سے پہلے سہگل صاحب کو موقع دیا تھا۔ اُن کا ترتیب دیا ہوا ہر گانا سُپرہٹ ثابت ہوا۔ فلم تان سین میں موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی۔ کیا سُندر موسیقی نواز کھیم چند پرکاش تھے۔ تان سین کے گانے اب بھی سن لیجیے، ہر ایک سے نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ (یہ وہی کھیم چند پرکاش ہیں جنہوں نے فلم محل میں لتا منگیشکر کے پہلے سُپرہٹ گانے 'آئے گا آنے والا‘ کی موسیقی دی تھی) پنکج ملک نے گانے بھی گائے لیکن اصل میں وہ میوزک ڈائریکٹر تھے۔ اُن کی بھی کئی لازوال دھنیں ہیں‘ جن پہ سہگل صاحب نے گانے گائے۔ نوشاد علی بہت بعد میں آئے۔ فلم شاہجہان کی موسیقی اُنہوں نے بنائی اور اُس فلم میں سہگل صاحب کے ہر گانے نے تہلکہ مچا دیا۔ فلم شاہجہان کے ایسے گانے جیسا کہ 'جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے‘ آج تک سُنے جاتے ہیں۔ سہگل صاحب نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پہ یہ گانا سُنایا جائے۔ ایسے ہی ہوا، اُن کی چتا کو آگ لگنے تک یہ گانا بجتا رہا۔
سہگل صاحب کا کوئی گانا سُنیں تو لگتا ہے کہ موسیقی کا کوئی اُستاد گا رہا ہے؛ البتہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سہگل صاحب نے کلاسیکی موسیقی میں باقاعدہ ٹریننگ کسی سے نہیں لی۔ وہ خود ہی اپنے استاد تھے، اُن کا اُستاد کوئی نہ تھا۔ جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ آف کشمیر کی ملازمت میں سہگل صاحب کے والد تحصیلدار کے عہدے پہ فائز تھے۔ کندن لعل پڑھائی میں دلچسپی نہ لیتے تھے اور بس گم صُم رہتے۔ اُن کی والدہ کیسری بائی مندر میں جاتیں تو چھوٹے کندن لال بھی اُن کے ہمراہ ہوتے اور وہاں بھجن وغیرہ گا لیتے تھے۔ والد صاحب کو اس گانے بجانے سے کافی چڑ تھی لیکن والدہ کی ہمیشہ پذیرائی رہی۔ آواز چونکہ قدرتی طور پہ اچھی تھی تو مندروں میں باقاعدگی سے سہگل گانے لگے۔ روایت ہے کہ جموں کی ایک گانے والی تھیں‘ جن کے کوٹھے کے نیچے سہگل کھڑے ہو کے وہاں کی موسیقی سنتے تھے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سہگل صاحب کی غزل کی ادائیگی میں ایک خاص کوٹھے کا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جیسے سہگل صاحب نے غزلیں گائیں اور کوئی نہیں گا سکا۔ بڑے بڑے غزل گائیک آئے، اُن کا اپنا سٹائل رہا‘ لیکن سہگل صاحب کا سٹائل آج بھی سُنیں تو الگ لگتا ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب مشہور تو تھے ہی لیکن عوامی سطح پہ سہگل صاحب کی گائیکی نے اُن کی غزلوں کا چرچا ہندوستان میں کر دیا۔ غالب کے بہت سارے جملے جو عام زبان کا حصہ اور محاورہ بن چکے ہیں‘ اُن کی پہلی مقبولیت سہگل صاحب کی غزل گائیکی سے ہوئی۔ غالب کی درد بھری غزلوں کو اگر کسی نے صحیح گایا ہے تو وہ سہگل ہیں۔ سیماب کا نام اگر آج بھی یاد کیا جاتا ہے تو سہگل کے گانوں کی وجہ سے۔
ہم تھوڑا آگے چلے گئے۔ سہگل جموّں میں ہی تھے تو بارہ سال کی عمر میں اُن کی آواز بیٹھ گئی۔ یعنی گانا گانا محال ہو گیا۔ کیسری بائی تڑپ اُٹھیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ جموّں میں ایک پیر سلمان یوسف ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پاس کندن لعل کو پہلے بھی کیسری بائی لے گئی تھیں اور پیر صاحب نے کہا تھا کہ لڑکا قسمت والا نکلے گا۔ کچھ ریاض کی باتیں بھی بتائیں۔ والدہ پھر سے کندن لعل کو لے کے پیر صاحب کے پاس پہنچیں تو اُنہوں نے پوچھا کہ بتایا ہوا ریاض کیا تھا؟ کندن لعل کو کہنا پڑا کہ اس میں کوتاہی ہوئی۔ پیر صاحب نے پھر ریاض کا بتایا اور کہا: اللہ بہتر کرے گا۔ روایت ہے کہ دو سال تک سہگل صاحب نے ایسا ہی کیا اور اُن کی آواز واپس آ گئی۔ بعد کے سالوں میں جب شہرت بلندیوں تک پہنچ چکی تھی تو سہگل صاحب کہا کرتے تھے کہ تیرہ سال کی عمر میں ایک پیر صاحب کے ہاتھوں اُنہیں دوبارہ زندگی ملی۔
ملازمت ختم ہونے پہ سہگل صاحب کے والد جموّں سے جالندھر آ گئے اور وہاں ٹھیکیداری کا کام شر وع کر دیا۔ چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا بھی اُن کے نقش قدم پہ چلے‘ لیکن کہاں ٹھیکیداری اور کہاں کندن لعل۔ وہ گم صم رہتے اور ہرچند کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن تنگ آ کر والد نے کہا کہ تم اور کسی کام کے ہو نہیں‘ جاؤ باورچی خانے میں ماں کا ہاتھ بٹاؤ۔ باورچی خانے کی طرف گئے تو کھانا پکانے کا ڈھنگ بھی آ گیا۔ بڑی عمر میں جب مشہوری پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی‘ کبھی کبھار سہگل خود سے کھانا پکاتے۔ کہا جاتا تھا کہ اُن کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔
بہرحال گھر کے حالات خراب تھے۔ والد صاحب اپنے کام میں لگے ہوئے تھے اور کندن لعل کا دل وہاں لگتا نہیں تھا۔ ایک دن بغیر بتائے کندن لعل گھر چھوڑ گئے اور ادھر اُدھر بھٹکتے رہے۔ کچھ عرصہ ریلوے میں ٹائم کیپری کی۔ ریمنگٹن (Remington) ٹائپ رائٹروں کی سیلز مینی بھی کی۔ کچھ عرصہ شملہ گئے‘ وہاں سٹیج ڈراموں میں حصہ لیا اور گا بھی لیتے تھے‘ جس سے کچھ پیسے آ جاتے۔ بڑے مشکل دن تھے۔ فاقہ کشی کا بھی سامنا ہوا۔ دھکے کھاتے ہوئے کانپور پہنچے اور وہاں اتفاق سے ایک ساڑھی بیچنے والے سوداگر کی دکان پہ ملازمت ملی۔ ایک مزدور ساڑھیاں سر پہ رکھتا اور سہگل صاحب کچھ گاتے ہوئے گلیوں کے چکر لگاتے۔ پھر کلکتہ چلے آئے اور وہاں بھی شروع میں یہی ساڑھیوں کا پھیری کا کام کیا۔
ہریش چند بالی اُن کے جاننے والے تھے۔ اُن کے کمرے میں زمین پہ سہگل سوتے۔ ہریش چند بالی کی جانکاری مشہور موسیقی نواز رائے چند بورال سے تھی اور وہ اُن سے کہتے کہ ایک پنجابی لڑکا ہے اُس کا گانا تو کبھی سن لیں۔ کلکتے میں ایک سے ایک بڑا گانے والا تھا۔ بنگالیوں کو ویسے بھی اپنے کلچر پہ بڑا ناز تھا۔ ایک پنجابی لڑکے کی وہاں کیا حیثیت سمجھی جانی تھی۔ لیکن ہریش چند بالی کے اصرار پہ آر سی بورال نے کہا: چلو لے آؤ، سنتے ہیں۔ آڈیشن ہوا تو کہتے ہیں کہ سٹوڈیو میں سکتہ طاری ہو گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھگوان کسی روپ میں اُتر آئے ہیں۔ جیسے انگریزی کا محاورہ ہے‘ The rest is history.