عقل مندی کا تقاضا ہے کہ انسان جان سکے کہ کیا چیز تبدیل ہوسکتی ہے اورکون سے حالات اٹل ہیں۔ جو حقیقتیں پختہ ہوں اُن پہ گزارہ کرنے کاڈھنگ سیکھنا چاہیے ۔مثال کے طورپہ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ تعلیم اورصحت پہ خاطر خواہ وسائل خرچ نہیں ہوتے ۔شروع سے ہی ایسا ہورہاہے ۔ ترجیحات ہماری اور ہیں اور جب تک یہ نہیں بدلتیں صحت اورتعلیم کے حالات ایسے ہی رہیں گے ۔ ان پہ پھرکُڑھنے کا کیا فائدہ؟
ہم جیسے کہتے رہتے ہیں کہ سکولوں اورکالجوں میں نصاب ایک ہونا چاہیے۔ یہ فضول کی بات ہے ‘ یہاں پہ کسی نے ایسا کرنا نہیں ۔ تعلیم کے میدان میں موجودہ صورتحال فیصلہ کرنے والوں کو سُوٹ کرتی ہے۔ بڑے طبقات کے بچے انگریزی سکولوں میں جاتے ہیں ‘ جن کو بڑے طبقات کی سہولتیں میسر نہیں وہ اورسکولوں میں گزارہ کرلیتے ہیں۔ اس صورتحال سے سب ہی مطمئن لگتے ہیں۔ اسے پھر بدلے گا کون؟
طبقات میں بٹا ہوا معاشرہ ہے لیکن جہاں جہاں کوئی فِٹ ہے گزارہ کررہاہے ۔ شہروں کی ہیت دیکھ لیجیے‘ خاص طورپہ بڑے شہروں کی۔ تقسیم نہایت ہی واضح ہے ۔ کچھ آسودہ علاقے ہیں جن کی مسلسل آرائش کیلئے وسائل خرچ ہوتے رہتے ہیں‘ دیگرعلاقے جو پسماندہ ہیں وہ بھی صاف نظر آتے ہیں۔ معاشرے کے موجودہ نظام نے بدلنا نہیں۔اس لیے ایسی تفریق رہے گی ۔ جس کسی کا بس چلے گا شہروں کے پسماندہ علاقوں سے بہتر جگہوں پہ منتقل ہونے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہاتھ میں پیسہ آیا تو پرانے علاقوں سے بہتر علاقوں کی طرف ہجرت ہوتی رہے گی ۔
صفائی اورگندگی کے معیار ایسے ہی رہیں گے ۔کراچی کا کچرا ہمارے اجتماعی مزاج کے عین مطابق ہے ۔ وہ اورلوگ تھے جن کی وجہ سے کراچی مختلف قسم کا شہر ہوا کرتاتھا۔ ماڈرن کراچی کی بنیاد انگریزوں نے رکھی اورپھر شہر کے ارتقا میں پارسیوں کا بڑا ہاتھ رہا۔ معاملات خالص دیسی ہاتھوں میں آئے تو کراچی کا حشرہوتاچلا گیا۔کسی ایک قبیلے یا فرد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ سب کا اس میں ہاتھ ہے ۔ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ہے اور روزانہ ٹنوں کے حساب سے گندگی پیدا ہوتی ہے۔ اُس کے یاتو ذخیرے لگ جاتے ہیں یا آسان راستہ اپناتے ہوئے گندگی کو سمندر کی لہروں کے سپرد کردیاجاتاہے ۔یہ بیکار کی باتیں ہیں کہ ایک زمانہ تھا کراچی کی ساحل سے ٹکراتا ہوا سمندر صاف ہوا کرتاتھا ۔ وہ زمانہ گیا۔ اوراب اُس صفائی نے واپس نہیں آنا ۔
آپ پلاسٹک شاپروں کی بیماری کو ہی لے لیجیے۔بے عقلوں کو بھی سمجھ آنی چاہیے کہ اس کا استعمال تباہی کا موجد ہے لیکن جو فیصلہ کرسکتے ہیں اُن کی آنکھیں بند ہیں ‘ یاآنکھوں سے زیادہ عقلوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ اورکوئی نہیں تو وزیراعظم عمران خان کرسیٔ اقتدار سنبھالتے ہی اِس بیماری پہ فوراً پابندی کا اعلان کردیں گے۔ لیکن خیال غلط تھا اورایسا نہ ہوا۔ ملک میں آدھے سے زیادہ کچرا اس ایک بیماری کی وجہ سے ہے اورجب بیماری کاسدباب نہیں ہونا تو پھر ملک میں پھیلی ہوئی گندگی کو برداشت کرنا ہی ایک راستہ رہ جاتاہے۔ صرف اتنا کہتا جاؤں کہ ملک کا کوئی کونہ نہیں جو اس بیماری سے بچا ہواہے ۔ دیہات ہویا شہر کونے کھدرے پلاسٹک شاپروں سے لت پت رہتے ہیں ۔
یہ کہنا غلط ہے کہ ملک میں کچھ نہیں ہوا ۔ ترقی ہوئی ہے ‘ چیزیں تبدیل ہوئی ہیں ۔گزرے ادوار میں آبادی کم تھی لیکن حالات ِ زندگی پسماندہ تھے ۔ 1947ء کی نسبت آبادی کم ازکم چھ سات گنا بڑھ چکی ہے‘اور ڈیویلپمنٹ بھی ساتھ ساتھ ہوئی ہے ۔ جو دھرتی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا گزارہ چلاتی تھی وہی دھرتی اب بائیس کروڑ نفوس کو سپورٹ کررہی ہے ۔سڑکیں بن چکی ہیں ‘موٹرویز بھی بنی ہیں۔ آمدورفت کی سہولت پیدا ہوچکی ہے ۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ کئی شعبے ایسے ہیں جیسا کہ تعلیم کا میدان جس میں ہم پیچھے گئے ہیں اوراس کی کسی کو فکر نہیں ۔ لیکن گزارہ چل رہاہے ‘ اس بارے میں جو فکر یا پریشانی نظر آنی چاہیے وہ کہیں نظر نہیں آتی ۔
ہماری عمر کے لوگ پرانے وقتوں کو روتے ہیں کہ پرانا لاہور ایسے ہوا کرتاتھا ‘ مال پہ بہترین ریستوران ہوا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ حالت اب یہ ہے کہ لاہور سیکرٹریٹ سے ائیر پورٹ تک ایک چائے کی پیالی کیلئے آپ کو ڈھنگ کا ریستوران نہیں ملے گا۔ لیکن حالات چل رہے ہیں ۔ پرانے حالات نہ ہوں گے لیکن ڈھونڈنے کو ہر چیز مل جاتی ہے ۔ بہتوں سے ہمارے حالات پیچھے ہیں لیکن بہتوں سے بہتر بھی ہیں ۔ ہم آزادیوں کے سلب ہونے کا روتے ہیں لیکن بیشتر مسلم ممالک سے ہمارے ہاں سیاسی آزادیاں زیادہ ہیں۔ جیسی بھی ہوں ‘ جو بھی اس میں قباحتیں ہوں ‘ جمہوری نظامِ حکومت یہاں چل رہاہے۔ یہاں کسی عرب بہار کی ضرورت نہیں پڑی۔
البتہ یہ اچنبھے کی بات رہے گی کہ گو بیشتر مسلمان ممالک سے سیاسی آزادیاں یہاں زیادہ ہیں جنہیں ہم سوشل آزادیاں کہتے ہیں وہ کم ہیں۔ مثال کے طورپہ سوشل آزادیاں جو دوبئی ‘ مراکش ‘تیونس ‘ بغداد یا قاہرہ میں میسر ہیں وہ یہاں آپ کو نہیں ملیں گی ۔ ہمارا سیاسی سفر اور رہا ہے اور خاص طور پہ ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کے بعد جو صورتحال یہاں پیدا ہوئی وہ اب تک موجود ہے اور اُسے ہم تبدیل نہیں کر سکے۔ حالانکہ تبدیل کرنے میں اتنی ہمت درکار نہ تھی ۔ بس ہمارے حکمران ڈرے ڈرے رہتے ہیں اورچھوٹے چھوٹے اعتراض کو بڑا سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ گو ہم سیاسی طورپہ بیشتر اسلامی دنیا سے آگے ہیں سوشل لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ اس سے اجتماعی ذہنیت میں ایک تفریق پیدا ہوتی ہے جس کا اثر معاشرے پہ پڑتاہے ۔ لیکن ہم اس صورتحال کو بھی برداشت کررہے ہیںاوراس سے سمجھوتہ کرنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔
اسی لیے اجتماعی زندگی میں ہم بہت ساری چیزیں وہ جو پنجابی کا لفظ ہے' چھپاندرے‘ میں کرتے ہیں ۔ یعنی پردے یا چلمن کے پیچھے ۔ یہ ہماری قومی عادت سی بن چکی ہے ۔ اس سے زیادہ نقصان نہ بھی ہو لیکن ایسی روشوں سے منافقت کی ایک فضا کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ ایسی فضا ہمارے ہاں پیدا ہو چکی ہے ۔ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔ کاش ایسا نہ ہو لیکن خوف اور مصلحت قومی مزاج کاحصہ بن چکے ہیںاوراسی پہ ہم گزارہ کر رہے ہیں۔
ہماری جنریشن کو زیادہ باہمت ہونا چاہیے تھا لیکن حالات سے ہم نے سمجھوتہ کیا ‘مقابلہ نہ کرسکے ۔ جو نظریات کا غلبہ قوم پہ آیا اس کا ہم حصہ بن گئے ۔ جنرل مشرف ایک نئے آغازکی ابتدا کرسکتے تھے لیکن اُن میں نہ اتنی ہمت تھی نہ اُس قسم کی سوچ۔ نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے بس وقت ٹپایا اورساتھ ہی ساتھ اپنی جیبیں بھریں۔ اس سے اُن کو کسی اورچیز کیلئے فرصت ہی نہ ملی ۔ مشرف کے بعد عمران خان بہت کچھ کرسکتے تھے ‘ بہت کچھ اب بھی کرسکتے ہیں ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اِن کی سوچ بھی بس ویسے ہی ہے ۔ مہاتیرمحمد کوئی ویسے ہی نہیں بن جاتا۔ اس کیلئے اپنے پلے کچھ ہونا چاہیے ۔ لیکن ہم گزارہ کررہے ہیں۔ جو ہے سو ہے ۔
ایک نتیجہ البتہ اس گزارہ کرنے والی روش کی وجہ سے پیدا ہو رہاہے ۔ جو ایک رَمق قوم میں ہونی چاہیے ‘انگریزی کا کیا لفظ ہے ڈائنامِزم (dynamism) وہ نظر نہیں آتا۔ حالات خراب ہوتے رہتے ہیں۔ قومیں جنگوں کے اثرات سے بھی نمٹتی رہتی ہیں لیکن ان میں وہ خاص رَمق نظر آتی ہے ۔ شام کی مثال ہی لے لیجیے ۔ شام تباہ کن خانہ جنگی کا شکار رہا ہے لیکن وہاں کے حکمران ہمت نہیں ہارے ۔ سنگین سے سنگین صورتحال کا انہوں نے مقابلہ کیاہے اور بہت حدتک برے حالات سے نکل آئے ہیں۔ چھ سات سال پہلے کہا جاتا تھا کہ ملک ٹوٹ جائے گا لیکن سنگین مشکلات کے باوجود ایسا نہیں ہوا۔ ایران کی بھی مثال ہے‘ امریکا کے سامنے کھڑا ہے لیکن ہمت کبھی نہیں ہاری۔
ہم میں بھی ہمت پیدا ہونی چاہیے۔ اس کیلئے ایک تو ضروری شر ط ہے کہ یہاں کی اجتماعی منافقت میں کچھ کمی آئے۔ اس کا اہتمام کون کرے گا؟