جنم دن کیسے منایا جاتا ہے یا یوں کہیے کہ کیسے منانا چاہیے؟ گاؤں آ گیا تھا کہ ارادہ ایسا ہی کیا کہ آج شام وہاں گزاری جائے۔ قدرتی امر ہے کہ ایسے موقعوں پہ خیال بیتے ہوئے دنوں کی طرف جاتا ہے کہ کیا ٹھیک کیا، کون کون سی فاش غلطیاں ہوئیں، ارمان رہ گئے ہیں تو کن چیزوں کے بارے میں۔
ہماری جنریشن دوسری یا تیسری پوسٹ پارٹیشن (Post-Partition) جنریشن ہے۔ گویا ہماری زندگی ملک کی زندگی کے تقریباً ساتھ ساتھ ہی رہی ہے۔ جب کچھ چیزیں سمجھنے کے قابل ہوئے اس وقت ایک اور قسم کا پاکستان تھا۔ انگریز دور کے اثرات چل رہے تھے اور اجتماعی زندگی میں بہت سی اقدار ایسی تھیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انگریز دور کی پیداوار تھیں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ معاشرے میں برداشت کا عنصر کتنا ہے یا معاشرہ تنگ نظری کا کتنا شکار ہے کیونکہ موازنہ کرنے کیلئے کوئی معیار موجود نہ تھا۔ ہم نے تو وہی دیکھا جو تب موجود تھا۔ بعد کے ادوار نے ابھی تک جنم نہیں لیا تھا۔
کھلا معاشرہ تھا لیکن ہمارے کس کام کا۔ وقت کے تقاضوں پہ ہم پورے نہ اُتر سکتے تھے کیونکہ تب عمر ہی کیا تھی۔ 65ء کی جنگ ہوئی اور میڈم نور جہاں کے ملی نغمے ہوا میں گونجے تو عمر بمشکل پندرہ سال تھی۔ سکول چونکہ مری میں تھا تو اتوار کو چھٹی کے روز باجماعت ہو کے وہاں کی سیر کرتے۔ سستا زمانہ تھا لیکن سوائے چند طالب علموں کے‘ جن کو مناسب امداد اپنے گھر والوں سے مل جاتی تھی‘ ہمارے جیسوں کا حال پتلا ہی ہوتا تھا۔ جیبوں میں کچھ ہوتا بھی تو اُس عمر میں کیا کر پاتے۔ تب گرمیوں میں پورے پاکستان کی ہائی کلاس جنٹری (gentry) مری کا رخ کرتی تھی۔ مری کے مال پہ شام کے وقت کیا منظر ہوتا تھا۔ لوگ ٹہل کیا رہے ہوتے تھے۔ لگتا یوں تھا کہ ہمہ وقت ایک فیشن پریڈ چل رہی ہے۔ پاکستان کے کسی شہر کی کسی سڑک پہ یوں دلفریب چہروں کا اکٹھ نہ ہوتا ہو گا۔ لیکن اُس عمر میں ہم سے کون سے تیر چل سکتے تھے۔
مال پہ دو تین ریستوران بہت مشہور تھے۔ صاحب طرز قسم کے لوگ شام کی چائے لِنٹاٹس (Lintott's) میں پینا پسند کرتے تھے۔ اُس عمر میں ہم وہاں شاذ ہی جاتے کیونکہ اُس جگہ کے نرخ ہمارے لیے تھوڑے مہنگے تھے‘ لیکن مال پہ کھڑے ہو کے صاف نظر آتا تھا کہ کیسے کیسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ویٹروں کا بھی ایک اپنا انداز تھا، سفید کلف لگی ہوئی یونیفارم میں ملبوس، سر پہ چمکتی ہوئی پگڑی۔ آج کل رواج نہیں رہا لیکن اُس زمانے میں چائے کی میز پہ تین پرتوں کی اونچی ٹرے رکھی جاتی تھی۔ ایک میں پیسٹری، دوسری میں پیٹیز وغیرہ۔ شیزان کے جو ریستوران راولپنڈی اور لاہور میں اُس زمانے میں آباد تھے‘ ان میں بھی یہ رواج قائم تھا۔
مری میں ایک اور ریستوران تھا سیمز (Sam's)۔ لکڑیوں کی سیڑھیوں سے چڑھ کر اس میں پہنچا جاتا تھا۔ سیمز کا سارا فرش لکڑی کا تھا۔ ہفتے کی شام کو وہاں خوب محفل سجتی اور لائیو بینڈ پرفارم کر رہا ہوتا۔ بینڈ کی دھمک نیچے مال تک پہنچتی۔ ہم جیسے وہیں سے اُن آوازوں کو سُنتے۔ اُس عمر میں ایسی جگہ پہ ہمارا جانا بنتا نہیں تھا۔
لہٰذا ہماری سمجھ میں یہی تھا کہ یہ پاکستان کی شکل ہے اور ہمیشہ ایسے ہی رہے گی۔ 65ء کی جنگ کا اثر پاکستانی معاشرے پہ کیا ہوا‘ وہ ہم سمجھنے سے قاصر تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دیواریں تب بھی تھیں‘ لیکن اتنی اونچی نہیں جتنی کہ جنگ کی وجہ سے آناً فاناً ہو گئیں۔ ماحول میں ایک تُرشی آ گئی۔ تاشقند معاہدے اور اُس سے پیدا ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے ماحول زیادہ ترش ہو گیا۔ یہ بھی ہمیں سمجھ نہیں آ سکتی تھی کہ ایک دور کا جانا ٹھہر گیا ہے اور ایک نیا دور جنم لے رہا ہے۔ جانے والا دور فیلڈ مارشل ایوب خان کی ذات سے منسوب تھا۔ آنے والے دور میں نئے حکمرانوں نے زمامِ اقتدار سنبھالا۔ پاکستان کے پہلے جنرل الیکشن ہوئے اور ملک کی بنیادیں ہل کے رہ گئیں۔ پاکستان ایک لمبے بحران میں پھسلتا گیا۔ نتیجے میں ہندوستان سے ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔
اُس کے بعد کی ملکی کیفیت وہ نہ رہی جو پندرہ سالہ معصوم آنکھوں کے سامنے نظر آتی تھی۔ مری میں لوگ پھر بھی آتے تھے۔ ہفتے کی شام سیمز میں پھر بینڈ بجتا تھا۔ انگریزیاں بولی جاتی تھیں لیکن ماحول بدل چکا تھا۔ کچھ تو بھٹو صاحب کی آمد کے ساتھ نئے نئے نعرے عام ہوئے۔ ایشیاء سرخ ہے اور اِس قسم کی اور آوازیں۔ لیکن سوشلزم کے نعروں کے ساتھ ساتھ دوسری قسم کے افکار بھی نمایاں ہونے لگے تھے۔ دائیں بازو کی تحریروں میں جب 1971ء کی شکست کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش ہوتی تو گفتگو اس نکتے پہ ٹھہرتی کہ چونکہ اسلام سے روگردانی کی گئی اورحکمرانی عیاش ہاتھوں میں آ گئی تھی تو شکست ایسی روشوں کا منطقی نتیجہ تھا۔ یعنی ایک طرف سوشلزم کے نعرے اور اُس کے مقابل میں اسلام کے گرد گھومتے ہوئے جذبات۔ یہ سب چیزیں اتنی واضح نہ تھیں لیکن ظاہری سطح کے نیچے نہ صرف چل رہی تھیں بلکہ آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی تھیں۔ 1977ء کے انتخابات نے موقع فراہم کیا کہ یہ زیر زمین روشیں آنکھوں کے سامنے آ جائیں۔ انتخابات میں دھاندلی کی آوازیں اُٹھیں تو ایک طرف بھٹو صاحب تھے اور دوسری طرف پاکستان نیشنل الائنس کی جماعتیں جن کا نعرہ دھاندلی سے ہوتا ہوا نظام مصطفی تک پہنچا۔ کھینچا تانی نے طول پکڑ لیا تو تیسری قوت کو مداخلت کا موقع ملا۔
1973ء کے آئین کے تحت جمہوریت تو تھی لیکن داغ دار۔ کچھ بھٹو صاحب کا قصور جن کی طبیعت ہمیشہ آمرانہ رہی، کچھ ہماری اجتماعی نالائقی، جمہوریت کی کشتی کو ٹھیک طرح چلا نہ سکے۔ لیکن جمہوریت جیسی بھی تھی جب اُس کا بستر گول کیا گیا تو نئی حکمرانی نے اپنا جواز اسلام کے اُن نعروں میں تلاش کیا جو بھٹو مخالف قوتوں نے دورانِ انتخابات لگایا تھا۔ بھٹو صاحب پہ مقدمہ چلا، اُنہیں پھانسی ہوئی اور سخت قسم کی آمریت ملک پہ مسلط کر دی گئی۔ ہر نئے حربے کا جواز انہی نعروں میں ڈھونڈا گیا۔
سیاست پہ تو شب خون ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی معاشرہ بھی بدلتا چلا گیا۔ وہ مری اور وہاں کے مال کے مناظر پاکستان کی زندگی سے ہمیشہ کیلئے غائب ہوگئے۔ نہ وہ ہفتے کی شامیں رہیں نہ وہ لائیو بینڈ پرفارمنس۔ پھر ہمیں سمجھ آئی کہ پاکستان کس شکل میں ہوا کرتا تھا اور کیا نئی شکل اُس نے اختیار کرلی ہے۔ اُس پرانے پاکستان کو ہم نے معصوم آنکھوں سے دیکھا۔ معصومیت زیادہ دیر نہ رہی اور عمر جب بڑی ہوئی تو حالات بدل چکے تھے۔ زیادہ تر عمر ان بدلے حالات میں گزری ہے۔ زیادہ جنم دن بھی اب خلوتوں میں گزرتے ہیں۔
ذاتی زندگی میں ایسے موڑ آئے جب اپنے سے غلط فیصلے سرزد ہوئے۔ اُس طرف جاسکتے تھے لیکن کسی اور طرف نکل پڑے۔ قومی زندگی میں بھی کئی ایسے حادثات آئے کہ قوم کی تقدیر بدل کے رہ گئی۔ ایک حادثہ تو بھٹو صاحب کا تھا جو حالات کو سنبھالا دینے کی بجائے اُن میں بگاڑ لاتے رہے۔ دوسرا حادثہ افغانستان کی نسبت سے تھا۔ وہاں کمیونسٹ اقتدار میں آئے تو تب کے پاکستانی حکمرانوں پہ جہاد کا بخار طاری ہوگیا۔ بخارکی شدت ایسی تھی کہ پاکستان کا حلیہ بگڑ کے رہ گیا۔ وہ نعرے لگے جو کبھی سُنے نہ تھے۔ اُس اسلحے سے آشنائی ہوئی جس کا کبھی علم نہ تھا۔ اس بخار اوراس سے پیدا ہونے والی تپش سے اُس پرانے پاکستان کے نقوش اتنے مدہم ہوئے کہ اب انہیں یاد کرنے کیلئے ذہن کو جھنجھوڑنا پڑتا ہے۔
قوم کے غموں کا علاج ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اپنے ارمان کیا ہیں؟ کچھ تو کتابیں پڑھنا رہ گئی ہیں۔ ان کو پڑھ ڈالیں تو بڑی بات ہے۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں مطالعہ ادھورا ہے۔ یہ احساس دل پہ بھاری گزرتا ہے۔ جتنی دنیا کی سیر کرنی چاہیے تھی وہ نہ کی۔ اب بھی وقت ہے کہ سفر کا سامان باندھیں اور اُن جگہوں کو دیکھیں جن کو دیکھنے کی تمنا تا حال دل میں ہے۔ ایک دو اور بھی چھوٹے چھوٹے ارمان ہیں لیکن اُن کو جانے دیجیے۔