جسے بُرا سمجھا جاتا تھا اس کی آج تلقین ہو رہی ہے، کہ دنیا سے الگ تھلگ اپنے میں رہیے۔ تنہائی میں رہیے اور لوگوں سے اجتناب کیجیے۔ زندگی میں تنہائی ہم نے بہت دیکھی اور اُسے بُرا ہی سمجھا۔ زیادہ ہاتھ ملانے سے چڑ سی ہو جاتی تھی اور قدرت کی شان دیکھیے کہ آج کہا جا رہا ہے کہ ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔
کبھی عید کی چھٹیاں آتیں تو تین تین روز ہم گھر میں ہی بند رہتے۔ اول تو کسی نے آنا ہی نہ ہوتا تھا۔ لیکن کسی کے آنے کا خدشہ بھی ہوتا تو کہلوا دیتے کہ گھر پہ نہیں۔ تین روز کی چھٹیاں مقفل دروازے کے پیچھے کوئی اچھی کتاب پڑھتے ہوئے گزر جاتیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے آپ کو کوستے کہ کیسی طبیعت پائی ہے۔ آج وہی ہماری کمزوری کام آ رہی ہے۔ تنہائی میں گاؤں میں بیٹھے ہیں اور مزے لے رہے ہیں۔ پہلے تو تنہائی کی وجہ سے خود سے ملال کرتے تھے، اب اُس کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ عجیب بیماری ہے جس نے سب کچھ اُلٹ پُلٹ کرکے رکھ دیا ہے۔
اَب تو کوئی دور سے ہاتھ لہرائے آتا ہے تو چند قدموں کے فاصلے پہ ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہاتھ نہیں ملانا اور وہ بیچارہ آدھا شرمند ہ ہو کے ہاتھ پیچھے کر لیتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ہماری یہ حرکت اب بدتمیزی کے زمرے میں نہیں آتی۔ ہاتھ ملانا تو ایک طرف رہا، مصنوعی جپھیوں سے جان چھوٹ گئی؛ البتہ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بہانے تراش کے جن کے تھوڑا قریب آنا چاہتے ہیں اُس حرکت کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ یعنی کئی ایک لوگ ہیں جن کی طرف کسی بہانے سے ہاتھ بڑھانے کو دل چاہتا ہے لیکن ظاہر ہے اُس سے بھی اجتناب کرنا پڑ رہا ہے۔ یعنی یہ جو نئی روایات اس بیماری نے پیدا کرنا شروع کر دی ہیں ان میں نفع بھی ہے اور تھوڑا سا نقصان بھی۔
کچھ اور نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ معمولات کے حساب سے ہمارے دن تقسیم ہوا کرتے تھے۔ اپنے مرد دوستوں سے ملاقاتیں دن کو ہی اچھی لگتی تھیں۔ شام ڈھلے مرد حضرات سے ملنے کا دل بالکل نہیں کرتا تھا اور کسی نے ضد کرکے کہا کہ ضرور ملنا ہے تو پھر ہم ہوتے اور ہمارے عذر۔ کسی نے کہا نہیں کہ شام کو ملنا ہے اور زبان پہ خوبصورت سا بہانہ فوراً ہی آجاتا کہ فلاں جگہ جانا ہے، فلاں ضروری مصروفیت ہے۔ لیکن اس کمبخت بیماری نے ایسا کیا ہے کہ ہر قسم کی ملاقات پہ پابندی لگ گئی ہے۔ کسی کو فون کرو‘ کچھ کہنے سے پہلے ہی توبہ توبہ کہہ دیتے ہیں، کہ ہم تو مکمل قرنطینہ میں ہیں، بالکل اپنے آپ کو تنہا رکھا ہوا ہے، ملنے جلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی تنہائی تو تھی ہی، اب یہ ڈبل تنہائی سہنی پڑ رہی ہے۔ تنہائی بھی تب ہی اچھی لگتی ہے جب اپنی مرضی کی ہو۔ یہ تو زبردستی والی تنہائی بنتی جا رہی ہے۔ کوئی ملنے کو تیار ہی نہیں۔
پہلے اسلام آباد یا لاہور جاتے اور اپنی تنہائی میں وقفہ آجاتا‘ یعنی گاؤں کی خود ساختہ تنہائی کے لئے تازہ دم ہو جاتے۔ اب تو کیفیت ہی بدل گئی ہے۔ ہر لحاظ سے تازہ دم ہونے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ پہلے روتے تھے کہ اُس قوم کا کیا بنے گا جس کے میخانے بند ہو جائیں۔ اب سب چیزیں بند ہیں۔ انسان جائے تو جائے کہاں؟ وہ جو ہم عیدکے تین دن خود اسیری میں گزارتے وہ اپنی پسند کی قید ہوتی۔ مجبوری کی کوئی چیز طبیعت ایک حد تک ہی برداشت کر سکتی ہے۔ ہمارے ساتھ اب یہی کیفیت ہو رہی ہے۔ موسیقی سنیں تو کتنی سنیں۔ کتب بینی پہ مائل ہوں تو کتنی کتابیں پڑھیں۔ یہ سب کچھ کرکے جی میں اور خیالات بھی اُبھرتے ہیں‘ لیکن فارسی کا وہ کیا گانا ہے جو انٹرنیٹ پہ بڑا مقبول ہوا کہ شہر خالی سب کچھ خالی۔ یہ حالت ہر طرف ہے۔ مہربان کیا ہوں گے، ہر کوئی بند دروازوں کے پیچھے جا چکا ہے۔
ایسے میں پھر پودوں کی طرف جاتے ہیں۔ گلاب کھلے ہوئے ہیں اور عجیب سرمستی میں ہیں۔ کچھ دیر اُن سے دل بہل جاتا ہے۔ پھر کسی کتاب کو اُٹھا لیتے ہیں۔ نہیں تو کوئی گانا سُن لیا، غزل سُن لی۔ چارپائی پہ لیٹ گئے۔ اُٹھے تو کچھ چہل قدمی کر لی۔ دل کو یہ آس رہتی ہے کہ شام کے سائے لمبے ہوں گے تو کچھ نہ کچھ ہاتھ آ جائے گا۔ لیکن یہ سب ہونے کے باوجود دل میں ایک خلش اُٹھتی ہے۔ خیالات اِدھر اُدھر بھٹکنے لگتے ہیں۔ پھر بس فون ہی رہ جاتا ہے‘ لیکن کوئی پوچھے کہ ایسی حرکتوں سے کیا حاصل؟ وہ جو شاعر کہتے تھے کہ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا۔ مرزا غالب کی غزل ہے اور سہگل صاحب نے کیا خوب گائی ہے۔ اب یہ کیفیت اپنی ہوگئی ہے۔ تنہائی سے نہیں، مجبوری کی تنہائی سے۔
فیض صاحب کی جو نظم ہے 'کچھ عشق کیا کچھ کام کیا‘ کہتے ہیں کہ عشق کام کے آڑے آیا اور کام کی وجہ سے عشق بے دھیان رہ گیا۔ آخر تنگ آ کر دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔ یہ تو اُن کی حالت تھی جب مکمل آگاہی ایک طرف نہ رکھ سکے اور دھیان اُن کا دو چیزوں میں بٹ گیا لیکن وہاں کیا بنے جہاں نہ عشق ہو نہ کام ہو۔ سب کام بند، عشق کے تمام دروازوں پہ بڑے بڑے تالے۔ اس حالت میں تو شاعری بھی مر جائے۔ آدھی اردو شاعری محبوب کے نہ ملنے کے گرد گھومتی ہے۔ ہجر کی شاعری ہے۔ یعنی محبوب ہے، اپنی پوری حقیقت میں موجود ہے، لیکن دسترس سے باہر ہے‘ لیکن جہاں محبوب سرے سے موجود ہی نہ ہو وہاں خاک کوئی شاعری ہو سکتی ہے۔
پہلے جب اپنی فطری تنہائی ہوتی تھی تو اُس تنہائی کو توڑنے کا اختیار اپنے پاس ہوتا۔ منت ترلے سے کام چل جاتا یا کوئی اور حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہ نہیں کہ خواری نہ ہوتی۔ زندگی میں دو ہی چیزیں افضل رہی ہیں، تنہائی اورخواری۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ حالات کا سدباب ہو جاتا۔ لیکن اب کی خواری شاعرانہ خواری نہیں رہی۔ یہ تو سراسر مجبوری کا شاخسانہ ہے۔ صبح اکیلے رہنا اچھا لگتا ہے، کچھ پڑھ لیا اور کچھ اور اُس سے ملا جلا کام کر لیا‘ لیکن ہر شام بھی وہی کرتے رہیں جو صبح کیا تھا اُس سے زیادہ کیا بوریت ہو سکتی ہے؟ اوپر سے یہ بھی نہیں پتا کہ یہ حالات کب تک رہیں گے۔ میخانے کا لفظ میں محاورتاً استعمال کر رہا ہوں۔ اس کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ میخانے بند ہیں تو ٹھیک ہے لیکن کب تک بند رہیں گے۔
پچھلے دنوں جب لاہور گئے تو جس سرائے میں ٹھہرتے ہیں وہاں ہُو کا عالم تھا۔ لابی کیا تھی دیکھ کے ڈر لگتا تھا۔ دو راتیں قیام ہوا، پہلی رات تو چلیں ٹھیک گزر گئی لیکن دوسرے دن وہاں سے بھاگنے کا دل کیا۔ یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ کمال کی چیز ہے اور اس نے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ انٹرنیٹ پہ بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن یہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں انہوں نے انٹرنیٹ کو بھی نیچے کر دیا ہے۔
شروع میں ہم کتنے خوش ہوئے تھے کہ کتابیں پڑھیں گے، فلاں چیز سنیں گے۔ لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہم زبردستی کے برہما چاری ہو گئے کیونکہ ہر چیز ہاتھ سے گئی۔ پرہیز ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو بوریت کے کھاتے میں آجاتی ہے۔ ہم نے رگڑ رگڑ کے ہاتھ دھوئے، باغ کی سیر کی، نیک خیالات کو ذہن میں آنے کی مسلسل دعوت دی لیکن طبیعت ہے کہ اس حد سے بڑھ کے اچھائی سے اُکتانے لگی ہے۔ آسمان کو دیکھتے ہیں، تاروں کو دیکھتے ہیں۔ کیا دُھلے دُھلے اور اُجلے لگتے ہیں۔ پھر دل میں اور طرح کی خلش کیوں پیدا ہو رہی ہے؟