"AYA" (space) message & send to 7575

قدرت کی لاٹھی

کم عمری سے دل میں دو ہی مقصدِ حیات تھے ۔ ایک یہ کہ صحافت کو اپنا پیشہ بنانا ہے اوردوسرا یہ کہ سیاست کرنی ہے ۔عمرکا تقاضاہے کہ اب یہ اتنے عظیم مقاصدنہیں لگتے ۔ صحافت سے وابستگی ہے مشغلے کے طورپہ اورکچھ مجبوری کے تحت ۔ روزگار کا ذریعہ کچھ تو ہونا چاہیے۔ لیکن سیاست کا جو چسکاتھا وہ تقریباًختم ہوچکاہے۔
جنون کی حدتک یہ خیال دل میں رہتاتھا کہ کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا ۔حالات خراب بھی ہوتے تو سمجھتے کہ بہتری آئے گی۔ ایسے خواب شاید جوانی کے ہوتے ہیں۔ اب حالات کو دیکھتے ہیں تو مسکرا دیتے ہیں یا کوئی جملہ کَس دیتے ہیں۔ ایسی سوچ اب نہیں آتی کہ صحیح معنوں میں جمہوریت آئے گی اورملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہوگا ۔اُس کی جگہ اس یقین نے لے لی ہے کہ حالات ایسے ہی چلیں گے ۔
ایک زمانہ تھا کہ ایسی خبروں پہ بڑا جوش آتا کہ کون مشیر اطلاعات بناہے اورکس کی کرسی تبدیل ہوگئی ہے ۔ اب اپنی بلاجانے کہ کون آیا اور کون گیا ‘ کس نے کیا کارنامے سرانجام دئیے اورنئے آنے والوں سے کیا توقعات باندھی جارہی ہیں۔ یہ تو نہیں کہ فضول کی باتیں لگتی ہیں لیکن اتنی کوئی اہم بھی نہیں لگتیں۔
میں فوج میں کپتان تھا اورعمر اکیس سال تھی جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے ۔ وہ تقریر دھڑکتے دل سے سُنی جس میں انہوں نے کہا کہ اندھیری رات ختم ہوچکی ہے اورایک نئی صبح کاآغاز ہے ۔ میں نے واقعی سمجھا کہ کتنا خوش نصیب ہوں کہ جوانی کی دہلیز پہ قدم ہے اورایک نئی صبح کا آغاز ہورہاہے ۔ یہ یقین بھی تھا کہ ایوب خان اوریحییٰ خان جیسی آمریتیں پاکستان کے نصیب میںپھر کبھی نہ ہوںگی ۔ بھٹو صاحب کا دور گزرتا گیا اور جہاں بہت اچھی چیزیں ہوئیں وہاں بہت تلخ حقائق بھی سامنے آئے ۔ میں ماسکو میں تھا جب 77ء کے انتخابات کاانعقاد ہوا ۔اُس کے بعد جو ہنگامہ ہو ا اُس نے دل پہ گہرے جذباتی اثرات چھوڑے۔ ملک میں مارشل لاء لگا اوراسلام کے حوالے سے نئے نئے نعرے سننے کو ملے ‘لیکن عمر اتنی بیتی نہیں تھی اوردل میں یہ اُمید جگمگاتی رہی کہ یہ سیاہ رات بھی ختم ہوگی اورایک نیا اُجالا آئے گا۔ 
اُسی زمانے میں سرکاری نوکری کو خیر باد کہا اور صحافت کے میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کی ۔ مشکل دن تھے اورآگے چلنا اتنا آسان نہ تھا۔لیکن ہمت ہاری نہ کبھی مایوسی ہوئی ۔ ہمیشہ یہ پختہ یقین رہا کہ بہتری آئے گی۔ بینظیر بھٹو کاستارہ سیاسی اُفق پہ چمکا تو اُسے اُمید کی کرن سمجھا ۔ تب دل کی کیفیت ایسی تھی کہ سمجھتے تھے کہ کسی انقلاب کے دھانے پہ ہیں۔ وہ انقلاب ہوگا اورہم ہوں گے ۔آج قدرے ہنسی آتی ہے جب ماضی کے دریچوں سے ایسے رومانوی تصورات کی یاد آتی ہے ۔ 
سیاست نے پھر اورکروٹ لی اورملکی حالات بدلے ۔ نئی سیاسی حقیقتیں سامنے آئیں لیکن یہ خیال دل سے کبھی نہ گیا کہ سیاست کا ارتقاء ہوگا اوراچھے دن آئیں گے ۔ اب دل سے تمام ایسے خیالات جاچکے ہیں۔ شاید انسانی زندگی میں ایسے ہی ہوتاہے ۔ شیکسپیئر کی وہ کیاکمال تقریر ہے The seven stages of man۔یوں لگتاہے کہ جیسے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک انسان کی زندگی کے تمام باب اُس میں بیان ہو گئے ہیں۔سکول جاتا ہوا بچہ کیسے ہوتاہے ‘ پھر جوانی میں جائے تو شہرت کے پیچھے کیسے بھاگتاہے‘ پھر تھوڑا بڑا ہو کے اپنے آپ کوکیسا دانا اورسیانا سمجھتا ہے اورپھر بڑھاپا اُس کا مقد ر بن کے رہ جاتاہے ۔ ایک ایک لائن میں شیکسپیئر ایسی منظر کشی کرتاہے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتاہے ۔ شہرت کی کشش جوانی کا مرض ہے۔ ایک خاص عمر کے بعد شہرت اورنام پیدا کرنے کی خواہش اُس تپش سے نہیں رہتی ۔ایک زمانہ تھا جب گاؤں یاتحصیل میں کوئی الیکشن ہوتا تو وجود پہ بخار سا طاری ہوجاتا ۔ یہاں سے وہاں بھاگ رہے ہوتے اورسارا سارادن پولنگ سٹیشنوں کے سامنے کھڑے رہتے ۔ شاید عمر کے اُس حصے کا یہی تقاضا تھا ۔ اب کیونکہ وہ عمر نہیں رہی تو تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ 
پہلے دیگر چیزوں پہ دل کڑھتا تھا۔ اب ملال کا رخ بدل چکاہے۔ موٹروے پہ دورانِ سفر یوکلپٹس درختوں کو دیکھ کر ہمیشہ غصہ آتاہے ۔کیوں یہ بیکار کے درخت لگائے گئے ۔ اس کے برعکس کہیں اچھے درخت دیکھنے کو ملیں تو جی چاہتاہے کہ وہیں کھڑے نظارہ کرتے رہیں۔ پلاسٹک شاپروں کی گندگی سے بھی دل میں غصہ اُٹھتا ہے ۔ موقع ملے تو خود ہاتھ سے پلاسٹک کے ٹکڑوں کو چن چن کے اکٹھا کرتا ہوں ۔ گھرمیں تاکید ہے کہ کہیں پلاسٹک کے پرزے نظر نہ آئیں ۔موسمی تباہی جو انسانی ارتقاء نے کرڈالی ہے وہ دل کو اچھی نہیں لگتی ۔ اسی لحاظ سے پریشان ہونے کی بجائے دل میں اطمینان آتاہے کہ وجہ جو بھی بنی زندگی کی رفتار آہستہ توہوگئی۔جیسے بھی ہوا زمین کا بھلا تو ہورہاہے ۔ 
کسی سیاسی انقلاب سے بڑا انقلاب یہ ہے ۔ انسان جو اس دھرتی کے ساتھ کررہاتھا اُس میں کوئی رکاوٹ آئے اس کا کوئی سوچ بھی سکتاتھا؟کہ سڑکیں موٹرکاروں سے خالی ہوجائیں‘آسمان کی فضائیں ہوائی جہازوں سے خالی ہوجائیں‘ ایسی چیزیں کس کے تصورمیں آسکتی تھیں ؟ لیکن ایسا ہواہے ۔ دنیا ہل کے رہ گئی ہے ۔دنیا کی معیشت جیسے جام ہوجائے ‘ اُسے تالے لگ جائیں ‘یہ ہمارے سامنے ہورہاہے ۔انسانی سرگرمیوں کی روک تھام کی وجہ سے دریاؤں اورسمندروں کے پانیوں کو تھوڑا آرام پہنچ رہاہے ۔ سمندروں میں رہنے والے مکین سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ ماحول میں بہتری آچکی ہے ۔کلائمیٹ چینج کی کانفرنسوں میں جب ٹارگٹ رکھے جاتے تھے تو انہیں سنجیدگی سے نہیں لیاجاتاتھا۔ لیکن انسانی سرگرمی پہ ایسی قدغنیں لگی ہیں جو ناقابلِ تصور تھیں ۔ یہ کیا اچھی بات نہیں ؟
کسی نے فیس بک پہ خوب تبصر ہ کیا کہ وہ ریستوران ہمدردی کے مستحق ہیں جن کا وتیرہ ماہ رمضان میں مہنگی افطاریوں کا اہتمام ہوتاتھا۔ فی کس تین ہزار روپے یااُس سے زیادہ کاافطار ڈنر۔ اورایسے ریستورانوںاورہوٹلوں میں افطار کے وقت جگہ نہیں ملتی تھی ۔ کلبوں کا بھی یہی حال تھا۔ ٹیبل بھرے ہوئے اوربس وسیع وعریض دسترخوان ۔ بھلا ہو اس بیماری کا کہ اس رمضان میں ایسے ہوٹلوں پہ ہو کا عالم طاری ہے ۔ لیکن کیا ایسی افطاریوں کے بند ہونے سے زندگی بند ہوگئی ہے ؟شادی ہالوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواہے ۔ مقام آن پہنچاتھا کہ کوئی شادی مکمل نہ سمجھی جاتی جب تک تقریب کسی شادی ہا ل میں منعقد نہ ہوتی ۔ کیا شادی ہالوں کی موجودہ بندشوں کے بعد شادیاں بند ہوگئی ہیں ؟سادگی اور کچھ کفایت شعاری کاسبق ہم ویسے نہ سیکھتے لیکن اس مجبوری کے ہاتھوں سیکھنا پڑگیاہے۔ 
کئی لوگوں کیلئے دبئی جیسے مقامات یوں تھے جیسے اُن کادوسرا گھر ہو۔ شاپنگ کہاں ہوتی تھی ‘ دبئی میں ۔چھٹیاں منانے کہاں جارہے ہیں ‘دبئی یابنکاک میں۔ اب جوایسے سفروں پہ پابندی لگ چکی ہے کیا زندگی ختم ہوگئی ہے؟ہوائی جہازوں کا حشر وہ ہواہے جو ہمارے شادی ہالوں کا ۔ ائیرپورٹوں پہ ہوائی جہازوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جو وہاں ناکارہ کھڑے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہوائی سفرکے بغیر ماڈرن زندگی ممکن نہیں ۔ ہوائی جہاز بند پڑے ہیں لیکن آفتاب اب بھی طلوع وغروب ہورہاہے ۔ چاند ستارے اب بھی جگمگا رہے ہیں اورشاید فضائی آلودگی کم ہونے کی وجہ سے زیادہ جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ انسانی زندگی ہم نے ویسے ہی کچھ ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنالی تھی ۔ اورکوئی نصیحت کام نہیں آرہی تھی ۔ انسان بضد تھا کہ جوماڈرن زندگی کے خدوخال بن چکے ہیں اُن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ یعنی یہ خدوخال ناگزیر ہیں۔ اس بیماری نے سب کچھ کیسے اُلٹ پُلٹ کردیاہے۔ عالمی معیشت پہ بریکیں لگ گئی ہیں ۔سالوں میں نہیں چند ہفتوں میں یوں لگتاہے زندگی کافلسفہ تبدیل ہوچکاہے ۔
پتہ نہیں کب تک موجودہ حالات رہتے ہیں لیکن اب تک جوہواہے کرۂ ارض کیلئے اچھا ہی ثابت ہورہاہے ۔ ویسے ہم نے سمجھنا نہیں تھا۔ اپنی رفتار ہلکی سی بھی آہستہ نہیں کرنی تھی ۔ قدرت کی لاٹھی ہی سمجھیے ‘ چلی ہے تواُس کے سامنے انسان کیسے بے بس دکھائی دے رہاہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں