مت پوچھیے اہلِ دل پہ کیا گزری۔ ہر دروازہ بند، سرائے ویران، راحت افزا کمرے مقفل۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ زہد اور تقویٰ والوں سے کم ہی راہ و رسم رہی ہے لیکن جو اہلِ دل ملتے اُن کو بس روتا ہی دیکھا۔ فلاں چیز نہیں مل رہی، فلاں نایاب ہو گئی ہے، اور قیمتیں کہیں آسمان سے بھی اوپر کی باتیں کر رہی ہیں۔
اب متعلقہ حکام کے دلوں میں کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے۔ ہوٹل اور سرائے ہفتے میں تین چار دن کھول دئیے جاتے ہیں۔ فقط اہلِ دل ہی یہ تصور کر سکتے ہیں کہ فقل کھلتے ہیں تو ان کا کیا حشر ہوتا ہے‘ لیکن اگر بینکوں کے سامنے لائنیں لگی ہوئی ہیں، نادرا کے دفتروں کے باہر بھیڑ دیکھی جا سکتی ہے، تو اہلِ دل کون سی خاص مخلوق ہیں کہ اُن کو بھیڑ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہرحال جو نرمی پیدا ہوئی ہے اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے؛ البتہ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس ساری تالا بندی میں ہمارا حال ٹھیک ہی رہا۔ کوئی ایک شام بھی ایسی نہ گزری کہ جی میں خیال آیا ہو اور پورا نہ ہوا ہو۔ بھلا ہو ہمارے مہربانوں کا کہ آڑے وقت کام آتے رہے۔ ایک دو بار اُن کو ایمرجنسی کال کرنی پڑی کہ حالات مخدوش ہیں۔ مدد بہم پہنچانے میں اُنہوں نے کوئی دیر نہ کی۔ اس لحاظ سے اپنے آپ کو خوش قسمت ہی سمجھیں گے کہ موضع بھگوال کے لان میں بیٹھے ہیں، فون ملایا اور ضرورت پوری ہو گئی۔ یہ محاورہ سُنتے آئے ہیں کہ انصاف گھر کی دہلیز پہ ملنا چاہیے۔ انصاف تو شاید ہمیں کبھی اس صورت میں نہیں ملا لیکن اس بحران میں بھی ضروریاتِ زندگی دہلیز پہ پہنچتی رہیں۔ اپنی جیب کا اتنا کمال نہ تھا، مہربان ہی کام آئے۔
لاہور کا سفر کم ہو گیا ہے۔ چھوٹی عید منانے وہاں گئے تھے اوراس کے بعد حوصلہ نہ بندھا پھر جانے کا۔ آثارِ قدیمہ تو وہاں ہم نے جا کے دیکھنے نہیں ہوتے، بس ایک دو چیزیں ہیں جن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو ہمیں عظیم پنجابی اور نامور لکھاری سردار خشونت سنگھ کی تلقین یاد رہتی ہے کہ باقاعدہ مالش صحت کیلئے ازحد ضروری ہے۔ بڑھاپے میں بھی وہ روزانہ مالش کراتے تھے۔ ایسی آسودگی ہمیں کہاں نصیب کیونکہ چھوٹے شہروں کا یہ مسئلہ ہے کہ ایسے کام کیلئے تجربہ کار ہاتھ آسانی سے فراہم نہیں ہوتے۔ لاہور میں اس کام کی خاطر خواہ فراوانی ہے۔
مسئلہ البتہ انگریزی زبان نے پیدا کیا ہوا ہے۔ مالش ہماری پنجابی اور اردو کا ایک سادہ سا لفظ ہے۔ استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی‘ لیکن انگریزی میں اس بے ضرر سے کام کو مساج کہتے ہیں۔ مساج کا لفظ آپ کے لبوں پہ آیا اور ذہن میں ایسے مفہوم اُبھرنے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ آپ کسی دوست سے کہیں کہ میں نے مالش کرانی ہے یا کرانے جارہا ہوں تو چہرے پہ کوئی خاص تاثر نہیں آئے گا‘ لیکن آپ مساج کا نام لیں تو آپ کا دوست یا ہنس پڑے گا یا آنکھوں میں ایک عجیب سی شرارت چھلکنے لگے گی۔ اوپر سے جہاں یہ صحت کاکام چلتا ہے اس کا نام بھی انگریزی میں عجیب سا لگتا ہے۔ غور فرمائیے کہ انگریزی میں ایسی جگہوں کو مساج پارلر کہتے ہیں۔ ویسے تو ان الفاظ میں کوئی خاص معنی ہونا نہیں چاہیے لیکن دو شہروں نے سارا کام خراب کیا ہے۔ ایک بنکاک دوسر ا دوبئی۔
وہاں ایسی جگہوں کا کوئی خاص مفہوم اور مقام ہو گا لیکن ہمارا اُس سے کیا لینا دینا۔ سیدھے سادے لوگ اور سردار خشونت سنگھ کی تلقین۔ مال روڈ کی جس سرائے میں قیام رہتا ہے اُس کے عین عقب میں ایک اور سرائے ہے جس میں صحت کے مسلمہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے جسمانی تھکاوٹ کا سدِ باب کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہاں کبھی قدم لے ہی جاتے ہیں‘ لیکن اس زمانہِ دشوار میں اُس راحت کدہ کے دروازے بھی بند ہو گئے۔ اب اطلاع ملی ہے کہ دوبارہ سے کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ دیکھیں کب لاہور جانے کی ہمت بندھتی ہے۔
بہرحال ہمارے نیک نام معاشرے میں الفاظ کا مناسب خیال رکھنا چاہیے۔ چند اوپر درجے کے ہوٹلوں میں مراکزِ صحت کو ہیلتھ سپا (health spa) کانام دیاجاتا ہے۔ یہ قدرے بہتر لگتا ہے۔ میرے خیال میں حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدِ نظر رکھنے والے ایسے مقامات کو نعمت کدہ بھی کہاجا سکتاہے۔ اردو ادب پہ زیادہ دسترس رکھنے والے شاید بہتر متبادل تجویز کر سکیں۔
اور رہ کیا گیا ہے؟ ملت کی بہتری کی نصیحتوں سے ہم کب کے باز آ چکے۔ ویسے تو اب ہماری مسلمہ رائے ہے کہ ملت کو بہتری یا اصلاح کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جس حال میں ہے بس وہی ٹھیک ہے۔ اور اگر ناصحِ قوم سمجھتے ہوں کہ بہتری کی ضرورت ہے تو ملت خود ہی یہ کام کرلے گی۔ ہمارے جیسوں کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ویسے داد دینی چاہیے اپنے حاکموں کو کہ آئے روز سامانِ لطیفہ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہماری قومی ائیر لائن پہلے بھی کوئی مزید درد یا بوجھ سہنے کی پوزیشن میں نہ تھی‘ لیکن اب جو حال اس کے اپنے وزیر یعنی وزیر ہوابازی نے کردیا ہے وہ تو صفحۂ کمالات میں ہی لکھا جا سکتا ہے۔ کسی دشمن نے بھی قومی ائیر لائن کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنانا ہوتا تو اس خوش اسلوبی سے نہ کر سکتا جیسا کہ اس حکومت نے کیا ہے۔ پائلٹوں کے لائسنس جعلی تھے تو کچھ ایکشن لینا چاہیے تھا۔ تمام ثبوت جمع کیے جاتے اور کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ ایسا تو کچھ نہ ہوا لیکن وزیر ہوابازی نے قومی اسمبلی میں بیان داغ ڈالا کہ تقریباً ایک تہائی پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس مشکوک ہیں۔ جگ ہنسائی کیا ہونی تھی جس نے یہ سنا اپنے کان پکڑ لیے۔ باہر کی دنیا میں بغیر لائسنس موٹر کار چلانا دشوار ہے اور یہاں بات ہو رہی ہے ہوائی جہازوں کی۔ ایک پوری فہرست ہے ممالک کی جن میں ہماری قومی ائیر لائن پہ چھ ماہ کیلئے پابندی لگ چکی ہے۔ قومی ائیر لائن پہلے ہی وینٹی لیٹر پہ جی رہی تھی۔ اس خود ساختہ واردات کے بعد اس کا کیا حشر ہوتا ہے وہ آگے جا کے پتا چلے گا۔
یہ صرف ایک مثال ہے بہتری کی طرف ملت کے سفر کی‘ لہٰذا قوم جانے اور اس کا مستقبل۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ جتنے دن ہیں قوم کے حالات ایسے ہی رہیں گے۔ اس ضمن میں ایک اور بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ نیو یارک میں بہت قیمتی جگہ پہ روز ویلٹ ہوٹل واقع ہے جو قومی ائیر لائن کی ملکیت ہے۔ کوئی حکومت آئے اور قومی ائیر لائن کے بارے میں بحث چھڑے تو اس ہوٹل کا ذکر ضرور اُٹھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اسے چلایا جائے یا بیچا جائے۔ یعنی ہم ایسی ہنر مند قوم ہیں کہ اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس ایک پراپرٹی کے ساتھ کون سا سلوک روا رکھا جائے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہتری کی دیگر منزلیں ہم نے کون سی طے کرنی ہیں۔
بہرحال اصلاحِ احوال سے زیادہ ثقیل کوئی اور موضوع نہیں۔ اولاد بھی تواتر کی نصیحت سے تنگ پڑجاتی ہے۔ قوم کا حال ہم جانتے ہیں، اب فکر صرف اپنی ہے۔ جو دن ہیں اچھے گزریں۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ محکمہ ایکسائز کے مہربانوں پہ تکیہ نہ کرنا پڑے۔ آج کے لیڈران نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ میری عمر کے لوگوں کو کسی نئے پاکستان کی خواہش نہیں۔ ہمارے ساتھ تو یہ مہربانی کی جائے کہ پرانا پاکستان‘ وہ پاکستان جو 1977ء سے پہلے کا تھا‘ کسی معجزے کے تحت واپس لوٹ آئے۔ اُس پاکستان کی تو اب یادیں رہ گئی ہیں۔ اس نئے پاکستان کو ہم کیا کریں گے۔ کیا کہتے ہیں اُستاد ذوق اپنی اُس مشہور غزل میں:
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے
کندن لعل سہگل نے اس انداز سے یہ غزل گائی کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔