تحفظِ بنیادِ اسلام بل... جس کسی نے بھی اس مجوزہ قانون کا نام تجویز کیا ہے داد کا مستحق ہے۔ تحفظِ اسلام کی اصطلاح تو ہم سنتے آئے تھے لیکن یہ تحفظِ بنیادِ اسلام تو کسی ذہین اور زرخیز ذہن کی اختراع ہے۔
ظاہر ہے ہم عالم نہیں اور بے حد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متقی بھی نہیں۔ ہماری وہ سمجھ نہیں ہو سکتی جو کسی عالم یا زہد و تقویٰ کے علم بردار کی ہو۔ ہماری سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے کہ اسلام کی بنیاد اُس نکتے میں پنہاں ہے جو خلیفہ دوم حضرت عمرؓ بن خطاب نے نہایت فصاحت سے یوں بیان کیا کہ ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوکا رہا تو روزِ محشر سوال اُن سے یعنی خلیفۂ اسلام سے پوچھا جائے گا۔ ہماری گناہ گار نظروں میں سار ے کا سارا اسلام اس ایک تشریح میں سمو دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ خلیفۂ اسلام انسان کی ذات کا ذکر نہیں کر رہے۔ مثال کس کو بنا رہے ہیں‘ کتے جیسے جانور کو۔ ایسے جانور کو جو نگاہِ مسلم میں پاک نہیں سمجھا جاتا۔ وہ اس لئے کہ اُن کی بات زیادہ سمجھ آ سکے۔
دوسرا نکتہ اسلام کا جو ہم جیسے گناہ گاروں کو سمجھ آتا ہے وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول میں ہے کہ غیر مسلم حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم پہ مبنی حکومت نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جسے پیغمبر ِاسلامﷺ نے مولا کا درجہ دیا تھا۔ من کنت مولا فھذا علی مولا... ہر قوال یہ قول پہلے پڑھتا ہے اور پھر باقی قوالی جاری رہتی ہے۔
بغور جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ پورے اسلام کا مفہوم ان دو اقوال میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اور ان اقوال پہ غور کیا جائے تو مفہوم کے دریچے در دریچے کھلے جاتے ہیں۔ یعنی جب بھوک کا ذکر آئے تو یہ اسی معاشرے میں ختم ہو سکتی ہے جو انصاف اور مساوات پہ مبنی ہو۔ بھوک کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ہر کام کرنے کے قابل بالغ برسرِ روزگار ہو۔ یعنی روزگار کی ذمہ داری ریاست پہ آن پڑتی ہے۔ یہ بھی ملاحظہ ہو کہ عمرؓ بن خطاب مکے یا مدینے کی بات نہیں کر رہے۔ اپنی بات کرنے کا مفہوم اجاگر کرنے کے لئے مثال دے رہے ہیں تو دریائے دجلہ کے کنارے کی‘ یعنی اس زمانے کے مکہ اور مدینہ سے بہت طویل مسافت پہ۔ جتنی بار اس قول پہ ذہن جائے محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حضرت علیؓ کے فرمان سے اجاگر ہوتی ہے۔ اُن کی بات میں زور اسلامی ریاست پہ نہیں ظلم کے دستور پہ ہے۔ مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو بظاہر اسلامی ریاست ہو لیکن اس میں ظلم کا دستور کارفرما ہو تو اس کا رہنا مشکل ہے۔ مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جو ریاست اپنے آپ کو اسلامی نہ کہلائے لیکن انصاف پہ مبنی ہو وہ قائم رہ سکتی ہے۔ جہاں اخلاقیات کے درس دئیے جا رہے ہوں‘ جو مولا علیؓ کہہ رہے ہیں اس سے بڑھ کے کچھ کہا جا سکتا ہے؟
اُس وقت کے اسلام کا اُس وقت کی دنیا پہ اتنا گہرا اثر اتنی مختصر مدت میں کیسے پڑا؟ اس لئے کہ اسلام کے پیغا م میں وہ انقلابی اجزاء تھے جن کا اظہار ان دونوں عظیم خلفاء نے کیا۔ جنت کا تصور تو اہلِ یہود کو بھی ملا، انجیل کے پیروکاروں کو بھی۔ یہود و نصاریٰ‘ دونوں میں تصورِ بہشت و آخرت ہے۔ اس لحاظ سے اسلام نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ اسلام مختلف تھا تو اپنے پیغام میں۔ اور یہ پیغام ایسا تھا کہ اس نے دلوں کو ہلا کے رکھ دیا اور ایک نئی اُمنگ پیدا کی۔ عربوں کی تلوار تھی تو اوروں کے پاس بھی تلوار تھی۔ تلوار سے زیادہ تیز اور طاقت ور وہ پیغام تھا جو ریگستان کی خلوتوں میں سے نمودار ہوا۔
ہم جو آج کل کے مسلمان ہیں‘ جس قسم کی باتیں ہم کرتے ہیں اور جن فروعی بحثوں میں پڑے رہتے ہیں دراصل اس عظیم پیغام کی وقعت اور اہمیت کو کم کر دیتی ہیں۔ جسے ہم حالتِ موجود یا status quo کہتے ہیں اسلام کے پیغام نے اس زمانے کی حالتِ موجود کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔ دورِ حاضر میں ہم ہر جگہ اور ہر ریاست میں حالتِ موجود کے معاون اور ساتھی ہیں۔ وہ اس لئے کہ اسلام کی نمائش ہم نے بچا رکھی ہے لیکن اسلام کا مفہوم ہم نے مکمل طور پر بھلا دیا ہے‘ نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر خلیفہ دوم اور خلیفہ چہارم کے اقوال کو معیار بنایا جائے تو دورِ حاضر میں رہ جاتی ہے کوئی ریاست جو اپنے آپ کو اسلامی کہہ سکے؟
ہم باقی تاریخ نہیں پڑھتے کم از کم تاریخِ اسلام تو پڑھ لیں۔ وہ شمع جو عرب کے ریگستانوں میں روشن ہوئی اتنی صدیوں تک ہر زمانے کی دنیا کو منور کرتی رہی۔ خلفائے راشدین کے بعد بنو اُمیہ کی سلطنت نے بہت عروج دیکھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن بہرحال اپنی انتہا کو عباسیوں کے دور میں پہنچی۔ اس وقت کی سپر پاور سلطنتِ عباسیہ تھی، محض عسکری طاقت کا محور نہیں بلکہ علم و روشنی کا گہوارہ بھی۔ ہارون الرشیدکا بغداد اس وقت کا نیو یارک تھا۔ یہ جو اصطلاح ہم روشن خیالی کی استعمال کرتے ہیں اگر اس وقت کی دنیا میں کہیں روشن خیال سوچ تھی تو بغداد میں۔ علم و فضیلت کے اعتبار سے یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس وقت کے یورپ میں سب سے طاقتور شہنشاہ شارلے مین دی گریٹ (Charlemagne the Great) تھا۔ وہ اور ہارون الرشید ہم عصرتھے۔ شارلے مین کا دارالحکومت جرمنی کا شہر آخن (Aachen) تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد کے مقابلے میں آخن ایک دور دراز جنگل کا گاؤں لگتا تھا۔ یہ وہ عروج تھا جس سے پھر مسلمانوں کا زوال شروع ہوا۔ ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی اور ہندوستان میں مغلوں کی بادشاہت‘ لیکن جس طرح سے علم کی شمع نے بغداد کو منور کیا سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان کے مغل علم کی ان بلندیوں تک نہ پہنچ سکے۔ علم کی شمع تب مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر یورپ میں منتقل ہو چکی تھی۔ آنے والی صدیوں میں مغربی تہذیب کو کسی نے چیلنج کیا تو کچھ عرصے کے لئے جاپان نے اور دورِ حاضر میں چین کی مثال دی جا سکتی ہے۔ لیکن پچھلے سات آٹھ سو برسوں میں علم کی کشمکش میں مسلمانوں کا سرے سے کوئی وجود ہی نظر نہیں آتا۔ ایک طرف مغرب ہے، دوسری طرف چین اور جاپان۔ عددی تعداد میں مسلمان تھوڑے نہیں۔ تیل کی وجہ سے دولت بھی بہت ہے‘ لیکن مفہومِ عمرؓ اور مفہومِ علیؓ آج کی مسلمان دنیا میں نظر نہیں آتے۔
ایک وضاحت ضروری ہے۔ جب ہم مغرب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ کسی ایک ملک کی طرف نہیں ہوتا‘ لیکن مغربی تہذیب‘ جس کی شروعات یونان اور پھر رومن ایمپائر سے ہوئی‘ ایک حقیقت ہے۔ قومیں وہاں مختلف ہیں لیکن سوچ اور تہذیب کے لحاظ سے ان میں ایک بنیادی مماثلت ہے۔ اسی لحاظ سے کوئی ایک اسلامی ریاست نہیں لیکن سوچ اور فکر کے اعتبار سے جو قومیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں‘ ان میں ایک یگانگت ہے۔ اگر آج مغربی تہذیب یا ریاستِ چین علم اور طاقت کی جستجو میں آگے ہیں تو مسلمان ریاستیں بحیثیت مجموعی ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم سب ملکوں کی حالت اچھی نہیں۔ علم کے خزانے اوروں کے پاس ہیں۔ ہمارا اُن میں حصہ کچھ بھی نہیں۔
کون کہتا ہے کہ ہمارا دین خطرے میں ہے؟ لیکن پاکستان میں ایسی ایسی بحثیں چھڑی رہتی ہیں جیسے اسلام کو ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ ماڈرن دنیا میں بظاہر مذہب کا وہ مقام نہیں رہا جو گزرے ہوئے زمانوں میں تھا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا جہاں بھی جا رہی ہے دنیا کے بڑے مذاہب رہیں گے۔ اسلام رہے گا۔ خطرہ ہمیں ہے تو اپنی لا علمی سے، کم عقلی سے اور اپنی فضول کی بحثوں سے۔ پاکستان کے سامنے بڑا چیلنج نہ ہندوستان ہے نہ کوئی اور۔ ہمارا چیلنج ہے علم کا گہوارہ بننا۔ اس سے ہم انکاری رہتے ہیں۔ ذہن بند تو ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ہم نے ہر وہ چیز کرنی ہے جس سے ہمارے ذہنوں پہ مزید تالے لگ جائیں۔