پوچھتے ہیں مملکت کے ساتھ کیا ہوا۔ کارواں منزل سے بھٹک کیوں گیا۔ بھٹکنا کیا تھا کارواں کی ترتیب ہی نہ ہو سکی اور جہاں تک سمت کا تعلق ہے یہ تو فیصلہ ہی نہ ہو سکا کہ کارواں کا راستہ کیا ہونا چاہیے۔
کچھ چیزیں آج تک سمجھ نہیں آئیں۔ اسرائیل اہل یہود کے ملک کے طور پر معرضِ وجود میں آیا۔ دنیا بھر کے یہودی اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ کے اسرائیل میں بسنے کیلئے آئے۔ ہر آنے والے کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔ رہنے کا بندوبست ہوا‘ لیکن ایسا نہ ہوا کہ کوئی پولینڈ یا جرمنی سے آیا ہو اور اس نے کلیم داغ دیا کہ میرے تو جرمنی میں محل تھے مجھے نئی ریاست میں بھی محل الاٹ کیے جائیں۔ ہمارے ہاں کہانی ہی کچھ اور تھی۔ جو آئے انہوں نے کہا‘ اتنی جائیدادیں چھوڑ کے آئے ہیں‘ اتنی ہی نئی ریاست میں الاٹ ہونی چاہئیں۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی جائیدادوں کے پیچھے ایسی دوڑ لگی کہ جس کے ہاتھ جو آیا اس نے ہڑپ کر لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو ہجرت کرکے آئے ہر ایک کو برابر کی جگہ رہنے کیلئے دی جاتی۔ ہندو اور سکھ جائیدادوں کی بندر بانٹ نے ایک ایسی روایت رکھی جو نئی ریاست کے وجود میں رچ بس گئی۔ پراپرٹی کی لت ایسی لگی کہ جانے کا نام نہیں لیتی۔ اس وقت یہاں ایک ہی قابلِ ذکر انڈسٹری ہے اور وہ پراپرٹی کا کاروبار۔ اور تو اور صرف پرائیویٹ لوگ نہیں بلکہ ہر حکومتی ادارہ‘ جس کا بس چلتا ہے‘ پراپرٹی کے کاروبار میں آیا ہوا ہے اور نہیں آیا تو تمنا بیتاب یہی رہتی ہے کہ اس نیک کام میں ہم بھی اپنا مقام بنائیں۔ اداروں کے نام کیا لینے، لمبی فہرست ہے لیکن تذکرہ نازک مزاجوں پہ گراں گزرے گا۔
ایک اوربات سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان بن گیا لیکن ثقافت کے لحاظ سے جو بڑے نام تھے انہوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیوں کیا۔ کہاں سے شروع کیاجائے۔ استاد بڑے غلام علی خاں قصور کے تھے، سارا خاندان یہاں تھا لیکن گائیکی کے حوالے سے انہوں نے یہاں کا ماحول سازگار نہ پایا۔ ہندوستان منتقل ہوگئے اوروہاں ہراعزاز جو ملنے کو تھا اُن کے قدموں پہ رکھاگیا۔ اُن کا آرٹ یعنی اُن کی گائیکی اپنے عروج کوپہنچی تو ہندوستان میں۔ آج بھی ان کے راگ جو سنے جا سکتے ہیں وہ آل انڈیا ریڈیو پہ پہلے سنے گئے یا موسیقی کی محفلوں میں جو ہندوستان کے بڑے شہروں میں منعقد ہوئیں۔ سوچنے کا مقام ہے، ایسا کیوں ہوا۔ وہ کیا چیز تھی جو ان جیسے استادوں کے دلوں پہ بھاری گزری؟ ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے۔ استاد بڑے غلام علی خاں بھارت نہ جا بستے تو رُل جاتے۔ ہم نے اور استادوں کے ساتھ کیا کیا ہے کہ ہمارا بے رحمانہ ماحول ان کو بخش دیتا۔
سعادت حسن منٹو کا المیہ یہ نہیں تھاکہ وہ مے نوشی کے رسیا ہوگئے۔ دیکھا جائے تو اُن کا المیہ یہ تھا کہ انہوں نے ممبئی سے لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔ ممبئی کی فلمی دنیا میں اچھا بھلا نام بن چکا تھا‘ بطور سکرپٹ رائٹر نمایاں پہچان تھی‘ لیکن فیصلہ کیاکہ نئے ملک جانا ہے اور لاہور آئے تو کوڑی کوڑی کو ترسنے لگے۔ مے سے آشنائی تو ممبئی میں بھی ہوگی لیکن یہ جو تباہ کن عادت بن گئی اسکے پیچھے خدا جانے کیا اسباب تھے۔ فرسٹریشن اور ڈپریشن بھی تو اسباب ہوتے ہیں انسان کے بھٹک جانے کیلئے۔
ساحر لدھیانوی اس لحاظ سے خوش قسمت رہے۔ تقسیم ہند سے کچھ پہلے لاہور آچکے تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد تقسیم سے پیدا ہونے والے فسادات نے جو ماحول پیداکیا وہ انہیں راس نہ آیا۔ 1948ء میں لاہور چھوڑ کے ہندوستان چلے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے حساس لوگوں کو یہاں کا ماحول کیوں نہ راس آیا؟ عظیم مصنفہ قراۃ العین حیدر بھی پاکستان آئیں لیکن جلد احساس ہواکہ فیصلہ صحیح نہ تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرونے اپنے ہاتھوں سے قراۃ العین حیدر کو دوبارہ ہندوستان کی شہریت دی اوروہ یہاں سے چلی گئیں۔
اے ٹی نقوی کراچی کے کمشنر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے جوش ملیح آبادی کوقائل کرنا شروع کیاکہ وہ بھارت سے پاکستان آجائیں۔ ہجرت کا ارادہ ظاہر ہوا تو پنڈت نہرو‘ جن سے جوش کے قریبی تعلقات تھے‘ نے روکنے کی بہت کوشش کی۔ یہ بھی کہا کہ پکے منتقل نہ ہو‘ آیا جایا کرو‘ لیکن نقوی صاحب نے جوش صاحب کے ذہن میں پتا نہیں کیا چیز ڈال دی تھی اور شاعر انقلاب‘ جن کا ہندوستان میں مقام ومرتبہ بہت اونچا تھا‘نے ہندوستانی شہریت ترک کردی اورپاکستان آگئے۔ پھر جو ان کے ساتھ یہاں ہوا، نہ وہ مقام حاصل ہوسکا جو بھارت میں تھا نہ انہیں وہ پذیرائی ملی جس کی ان کو جائز توقع ہوسکتی تھی۔ اپنے ایک آدھ مضمون میں جوش نے بہت دلچسپ پیرائے میں لکھا ہے کہ انہیں پاکستانی دفتروں میں کن کن تجربات سے گزرنا پڑا۔ کچھ اندازہ یہاں کے ماحول کا اس واقعے سے کیجیے کہ جوش کے انتقال پہ ایک اردو معاصر میں اُن پہ مضمون چھپا جس کے اوپر حفیظ جالندھری کے یہ فرمودات آویزاں تھے: ''مرنے سے پہلے اُسے مرجانا چاہیے تھا۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن کا معاملہ اب اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق جنابِ حفیظ جالندھری ہیں اور جہاں جوش ملیح آبادی کی شاعری فرنگی کے خلاف اوردعوتِ انقلاب کا درجہ رکھتی ہے وہا حفیظ جالندھری کا قلم تقسیم ہند سے پہلے فرنگیوں کی تعریف میں اکثراستعمال ہوتاتھا۔ دوران جنگ عظیم دوم انہوں نے ایک نظم برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کے حق میں لکھی۔ نظم یوں ہے:
ادھر پہنو ہو ٹوٹی جوتی، ادھر پہنو گے بوٹ/ بھرتی ہو جائو!
جنرل ایوب خان کے زمانے میں جنابِ حفیظ جالندھری کو آرمڈ فورسز میں ڈائریکٹر جنرل اخلاقیات کا عہدہ عطاہوا۔ جنرل صاحب نے انہیں اپنا مشیر بھی مقررکیا۔ اس پہ شاعرِ بغاوت حبیب جالب نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ہے، مشیر۔ اس نظم میں ایک یہ لائن آتی ہے:
دس کروڑ یہ گدھے /کیا بنیں گے حکمران
ہم بھی کمال کے لوگ ہیں۔ ہمارا یہ منفرد کارنامہ ہے کہ اقبال ہمارے ہاتھوں ایک انقلابی شاعر نہیں بلکہ ایک مولویانہ شاعرلگتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کا نچوڑ دعوت انقلاب ہے‘ لیکن مفہومِ اقبال پاکستانی قوم کبھی نہیں سمجھی۔ نمائش کی غرض سے اقبال کا ہم نے ایک مجسمہ بنادیا ہے لیکن ان کی دھرتی ہلا دینے والی شاعری نہ ہم پڑھنے کے قابل نہ سمجھنے کے۔ قائداعظم کے ساتھ بھی ہم نے کیا کیا۔ آخری سالوں میں ازراہِ سیاسی مصلحت انہوں نے اچکن اور شلوار تو پہن لی جو جوانی اوردرمیانی عمر میں وہ کبھی نہ پہنتے تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد ہم نے ان کے خیالات پہ بھی ایک اچکن چڑھا دی۔ پوری پاکستانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک غلاف ہم نے اقبال کے خیالات پہ چڑھایا اوردوسرا قائداعظم کی سوچ پر۔ اور بھی کارنامے ہوں گے لیکن ان سے عظیم تر ہمارا کوئی قومی کارنامہ نہیں۔
آسمانوں کا رس اپنے گلے میں رکھنے والا گائیک محمدرفیع، جن کے کچھ رشتے دار شاید اب بھی لاہور میں ہوں، نے بھی اچھا نہ جاناکہ وہ پاکستان رہیں۔ کیا وہ مسلمان نہ تھے؟ ان کی چوائس تو یہاں کی ہونی چاہیے تھی۔ اوریہ کوئی بات ہی نہیں کہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اوروہاں آرٹ اور ثقافت کے حوالے سے زیادہ مواقع پائے جاتے ہیں۔ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں جن کی آبادی ہمارے ایک بڑے شہر سے کم ہے۔ وہاں بھی آرٹ اورآرٹسٹ گلستان کی مانند لگتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں کے گوّیے پرفارم باہر کرتے ہیں لیکن اپنی دھرتی سے تعلق برقرار رکھتے ہیں۔ ایسے فضول کے سوال کبھی کبھی ذہن میں آ جاتے ہیں۔
(حفیظ جالندھری صاحب کے بارے میں جو حقائق درج ہیں وہ سبطین نقوی صاحب کے ایک انگریزی کے کالم سے لئے گئے ہیں)