دنیا کے کسی دارالحکومت میں سڑکیں بند کرنے کیلئے کنٹینروں کا استعمال ہوتا ہے؟ یہ ہمارا کارنامہ ہے کہ اسلام آباد میں کوئی آندھی چلنے کا اندیشہ ہو، صاحبانِ علم ودانش نے کسی جلسے کا اعلان کردیا اوریہ بھی اصرار کیاکہ جلسہ کرنا ہے تو جناح ایونیو پہ، اور بوکھلاہٹ کے عالم میں اسلام آباد کی انتظامیہ آس پاس کی سڑکیں کنٹینروں سے بند کردیتی ہے۔
یوں تو ہمارے حکمران، موجودہ نہیں سابقہ بھی، نعرے بہت لگاتے ہیں لیکن کبھی کسی کو خیال نہیں آیاکہ یہ کنٹینروں والی مشق کتنی بھَدی لگتی ہے؟ اول تو سڑکیں بند کرنیکی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری حکومتیں کیسی ہیں کہ کسی گروہ کا ایک اعلان نہیں سہہ سکتیں؟ لیکن خوف کے عالم میں سڑکیں بند کرنے کی ضرورت پڑ ہی جائے تو تھوڑے نفیس طریقے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ لندن جیسے شہر میں سڑکوں پہ رکاوٹیں کھڑی کرنا پڑیں تولوہے کے مخصوص بیریئر لگا دئیے جاتے ہیں۔پھر پولیس اہتمام کرتی ہے کہ لگائے گئے بیریئرز سے آگے کوئی نہ آئے۔ ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ جس کا جی چاہے جناح ایونیو پہ جلسے کا اعلان کر دیتا ہے۔ انتظامیہ سے باقاعدہ مذاکرات ہوتے ہیں اورانتظامیہ اِس امرکا اہتمام نہیں کراسکتی کہ طے شدہ پروگرام کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔ مختلف گروہوں سے مذاکرات بھی ہوتے ہیں، پروگرام پہ اتفاق بھی ہوجاتا ہے، لیکن پھر اِدھر سے پکڑ اُدھر سے پکڑکر مختلف اطراف پہ کنٹینر لگا دئیے جاتے ہیں۔ ایسی حکمت عملی سے باہر کے لوگ کیا تاثر لیتے ہوں گے؟
کہنے کو ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ فخر سے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت‘ لیکن چھوٹے موٹے لا اینڈ آرڈر کے مسئلے اُٹھیں تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ایک شہر ہے جو ہمارا دارالحکومت ہے۔ بدبخت ہی اس شہر کو کہنا چاہیے کیونکہ اسے بنانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مطلق العنان حکمران آئے اوراُن کے ذہن میں یہ خیال اُٹھاکہ دارالحکومت کو کراچی سے پوٹھوہار کے اس علاقے میں منتقل کرنا چاہیے۔ دیگر خرچے پورے نہیں ہوتے، نہ تب ہوتے تھے نہ اب ہورہے ہیں، لیکن ایک نئے شہر کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔ چلیں جو بھی وجوہ ہوں ایک نیا دارالحکومت بن گیا' لیکن اُس کی مناسب حفاظت نہیں ہوپاتی۔ جس کا جی چاہے اُس پہ چڑھائی کااعلان کردیتا ہے‘ وقت کی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور حفاظتی اقدامات کے آخری پتے کے طورپہ کنٹینروں کا استعمال ہوجاتا ہے۔
کنٹینر لگائے جاتے ہیں اورپھر اُٹھا لیے جاتے ہیں لیکن اِنکے استعمال سے ہمارے مجموعی ذوق کی ایک جھلک نظر آجاتی ہے۔ نفاست نام کی چیز شاید ہمارے مجموعی ذوق کا حصہ نہیں۔ نتیجتاً یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ قوم جاہل ہے یا اِس کے حکمران؟ ہمارے اجتماعی حافظے میں یا جسے انگریزی میں collective memory کہتے ہیں‘ دو حکمرانیاں نمایاں ہیں، ایک مغلوں کی دوسری انگریزوں کی۔ دونوں سے اختلاف کیاجا سکتاہے، اِن پہ تنقید ہوسکتی ہے، لیکن یہ ماننا پڑے گاکہ دونوں اعلیٰ معیارِ ذوق کی حامل تھیں۔ طرزِ جنگ ہو طرزِ حکمرانی یا طرزِ تعمیر ہر شعبے میں یہ ذوق نظر آتاہے۔ ہم خود کو دونوں وراثتوں کے امین اور جانشین سمجھتے ہیں۔ سلطنتِ مغلیہ کے ہم وارث اورجہاں تک انگریز راج کا تعلق ہے پاکستان کا وجود اُس میں سے ہوا۔ یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ انگریز نہ آتے تو اورجو کچھ بھی ہوتا موجودہ پاکستان اس شکل میں نہ ہوتا۔ لیکن پاکستان کا وجود یا اُس کی پیدائش ہمارا موضوع نہیں۔ بات اجتماعی ذوق کی ہورہی ہے۔ اگر ہم مغلوں اورانگریزوں کے وارث ہیں تو یہ کنٹینر والا ذوق کہاں سے پایا؟
قوموں کی پہچان کن چیزوں سے ہوتی ہے؟ مجموعی رہن سہن کے جو طریقے ہوتے ہیں اورجو تہذیب وتمدن کے زمرّے میں آتے ہیں اُن سے قوموں کو جانا جاتاہے۔ مغلوں نے بڑی شان وشوکت سے اس سرزمین پہ حکمرانی کی۔ انگریزوں نے بزورِ شمشیر ہندوستان پہ اپنا قبضہ جمایا۔ بہت کچھ یہاں سے لے گئے لیکن ورثے کے طورپہ بہت کچھ یہاں چھوڑ بھی گئے۔ سیاسی پارٹیوں کی ضرورت، آزاد اخبارات کا ہونا، انتخابات کا انعقاد، اسمبلیوں کا وجود میں آنا، آئین اورقوانین کی ترتیب... ان سب چیزوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ہماری تاریخ میں ان میں سے ایک چیز بھی موجود نہ تھی۔ ہاں شریعہ کا قانون تھا لیکن جسے ہم قانون کی حکمرانی کہتے ہیں یہ تصور ہماری مسلم ریاستوں میں نہ تھا۔ یہ سب کچھ ہمیں بذریعہ برطانوی راج ملا۔ پوچھنے کی بات تو پھر یہ بنتی ہے کہ پاکستانی خصوصیت کس چیز میں ہے؟ ہم نے کون سی چیز بنائی یا ایجاد کی جسے دیکھ کے اقوامِ عالم کہیں کہ دیکھو پاکستانیوں کا یہ منفرد کمال ہے؟
کنٹینروں والی بات تو ایک علامتی حیثیت سے ہوئی۔ اسلام آباد یاکسی دیگر شہر میں جب اِن کی نمائش سجتی ہے تو دل میں یہ خیال اُٹھتا ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں اورہماری کیسی سوچ ہے۔ بہرحال اصل بات تو کچھ اور ہے کہ ہم ڈھنگ سے چیزیں کیوں نہیں کرپاتے۔ ہندوستان کی ہم سے دشمنی اپنی جگہ۔ اگر اسے دشمنی مان لیا جائے تو بھی ہمارے پاس بہت کچھ تھا جس کی بنیاد پہ ایک شاندار ملک کی تعمیر ہوسکتی تھی۔ مالی وسائل اتنے زیادہ نہ تھے لیکن ادارے اورایک قانونی ڈھانچہ‘ ہمیں ورثے میں ملے تھے۔ ہم بہت آگے نکل سکتے تھے۔ ایشیا کے سرفہرست کے ممالک میں ہمارا شمار ہوسکتا تھا‘ لیکن انگریزوں سے آزادی تو ہمیں مل گئی ذہنی غلامی کے چنگل سے ہم بہت عرصے تک نہ نکل سکے۔ جیسے بھی تھے اپنے پیروں پہ کھڑے رہتے لیکن امریکا کے طفیلی بن گئے۔ وہاں سے ملا بھی کافی کچھ لیکن اُن کی سوچ بھی ہم پہ مسلط ہوگئی‘ جس کی وجہ سے خود سوچنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی۔ پھر اپنے ذہنوں کے گرد ہم نے اور زنجیریں بھی باندھ لیں جن کی گرفت سے آج تک آزاد نہیں ہوسکے۔
اس نکتے پہ کھل کے بات کرنا آسان نہیں۔ اتنا کہنا ہی کافی ہونا چاہیے کہ جس قسم کے فضول اور فرسودہ خیالات ہمارے معاشرے میں عام ہیں اُن کی وجہ سے ہماری قومی سوچ کو وہ وسعت نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔ پاکستانی سوچ محدود سوچ ہوکے رہ گئی ہے۔ اس لئے کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارا تعلیمی نظام برباد ہوکے رہ گیا ہے، ہماری درسگاہیں غوروفکر کی آماجگاہیں نہیں رہیں۔ حکمران اور معاشرے کے منتظمین نے مریخ سے تو آنا نہیں۔ جو ماحول پاکستان میں بن چکاہے اُسی کااثر حکمرانوں اورمنتظمین نے لیناہے۔ پھر کوئی عجیب بات نہیں کہ اسلام آباد کی پولیس کسی ماڈرن دارالحکومت کی پولیس نہیں لگتی اور جو انتظامی فیصلے کرنے کو بیٹھتے ہیں اُن کی سو چ کنٹینروں سے آگے نہیں جاتی۔
جو پہلے کشمیر ہائی وے تھی اور اب سرینگر ہائی وے کہلاتی ہے‘ کچھ سال پہلے تک اسکی مرمت کبھی مکمل ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں اسلام آباد 1978-79ء میں آیا تھا۔ اس کی مرمت ہورہی تھی‘ تیس سال بعد تک ہوتی رہی۔ یہ جوائیرپورٹ اور روات کو سڑک جاتی ہے اس کی بھی یہی حالت رہی ۔ یہ سڑکیں کسی دوردراز علاقے میں نہیں‘ دارالحکومت کی اہم ترین شاہراہیں ہیں۔ اگر ان کی یہ حالت رہی تو اس سے ہماری اجتماعی صلاحیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ متعدد بار اس کا ذکر کرچکا ہوں‘ یہ ایسا دارالحکومت ہے کہ گندگی‘ جسے انگریزی میں سالڈ ویسٹ کہتے ہیں‘ کی ڈسپوزل یا ٹریٹمنٹ کا کوئی نظام نہیں۔ بس پورے شہر کی گندگی کا ڈھیر کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ لگا لیا جاتا ہے۔ باقاعدہ نظام ہم سے اَب تک نہیں بنا۔
جب ایسی حکمرانی ہو تو اندیشۂ آندھی میں کنٹینروں کے علاوہ سڑکوں پہ اور کیا لگ سکتا ہے؟