کچھ علاقوں میں مونگ پھلی کی فصل کا چُننا شروع ہو چکا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں یہ عمل زوروں پہ آجائے گا۔ ہمارے بارانی علاقوں میں یہ ایک فصل ہے جس سے کاشتکاروں کو کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ ایک دم تو نہیں ملتے کیونکہ آڑھتی حضرات ٹرخا ٹرخا کے پیسوں کی ادائیگی کرتے ہیں‘ لیکن پھر بھی کاشتکار کی کچھ امید بندھ جاتی ہے کہ پیسے آئے نہیں تو کہیں پڑے ہوئے تو ہیں۔
گندم کی کاشت کیلئے تو زمین تیار کرلی گئی ہے یا تیار ہورہی ہے۔ پچھلی بارشوں کے بعد اب زمین میں تھوڑی خشکی آ گئی ہے لیکن اگر اس ماہ بارش ہو جائے اور زمین میں وتر آ جائے تو گندم کی کاشت شروع ہو جائے گی۔ ملک کی بیشتر آبادی ان کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ اس موسم میں سیاست کرنا فارغ لوگوں کا کام ہے۔ بہرحال سیاسی میدان میں جو دَنگل لگ رہا ہے وہ دو مختلف نالائق قوتوں کے درمیان ہے۔ یہ جو آج ہمیں جمہوریت کا درس دینے آرہے ہیں وہ مختلف شکلوں میں ملک پہ 35 سے 40 سال مسلط رہ چکے ہیں‘ یعنی جو مدتِ حکمرانی پنجاب پہ انگریزوں کی تھی، 98 سال، اس کا آدھا عرصہ یہ حکومت کرنے میں گزار چکے ہیں۔ ملک کی تقدیر سنورنی ہوتی تو اب تک سنور چکی ہوتی۔ 35 تا 40 سالہ والے نالائق گئے تو ایک اور ٹولہ نالائقوں کا ملک پہ بیٹھ گیا ہے۔ ان سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ یہ اول درجے کی نالائقی ہے کہ آج ہم گندم اور چینی درآمد کرنے چلے ہیں۔ ایک زرعی ملک میں اس سے بڑی نااہلی کی نشانی نہیں ہو سکتی۔ اس حکومت کے ہوش ٹھکانے ہوتے تو گندم اور آٹے کی قلت پیدا نہ ہوتی‘ لیکن اگر قلت پیدا ہو چکی ہے تو اس حکومت کا کارنامہ ہی سمجھنا چاہیے۔
جہاں تک چینی کا تعلق ہے‘ اس کا تو مخمصہ ہی عجیب ہے۔ گندم تو کاشتکار پیدا کرتا ہے‘ چینی البتہ ملوں میں تیار ہوتی ہے‘ اورملیں کس کے پاس ہیں؟ بیشتر شوگر انڈسٹری کے مل مالکان نہ صرف سرمایہ دار سیٹھ ہیں بلکہ سیاسی سیٹھ بھی ہیں۔ کچھ چینی کے کارخانے پی ٹی آئی والوں کے ہیں لیکن بیشتر کارخانے ان سیاسی سیٹھوں کے ہیں جن کا تعلق ان سیاسی جماعتوں سے ہے جو آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی چھتری تلے جمع ہورہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے لیڈر جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں، عوام مہنگی چینی پہ دُہائیاں دے رہے ہیں۔ ان سیاسی سیٹھوں کو تو چاہیے کہ راشن کی دکانیں کھول دیں جہاں سستی چینی مہیا ہو۔ پہل اس نیک کام میں شریفوں کو کرنی چاہیے۔ جاتی امرا کے گیٹ پہ ایک راشن دکان کھول دیں اوراپنی ملوں کی تمام چینی وہاں پہنچا دیں۔ لاہور کی نچلی آبادیوں کے لوگ جاتی امرا کی طرف منہ کریں گے اور شریفوں کو دعائیں دیں گے۔ سندھ میں اومنی گروپ تھوڑی چینی پیدا کرتاہے؟ وہاں بھی ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن کبھی نہیں کیا جائے گا۔
پاکستانی سیاست کا اٹل اصول بن چکا ہے کہ نعرے لگانا ایک چیز ہے اورپیسے کمانا بالکل مختلف کام۔ ان کا جوڑ کہیں نہیں ہوتا سوائے الیکشن کے زمانے میں جب الیکشن کے نتائج ہموار کرنے کیلئے پیسوں کی کھپت کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہرحال مقصد پی ڈی ایم کوہدف تنقید بنانا نہیں۔ سیاست میں کچھ نہ کچھ گہماگہمی ہونی چاہیے اور نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن نے مل کر کچھ نہ کچھ ہلچل پیدا کر دی ہے۔ نکمّوں کا علاج بھی یہی ہے۔ پریشر رہنا چاہیے نہیں تو نکمّے بھی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگ پڑتے ہیں۔ لیکن ٹی وی سکرینوں اوراخبارات کے کالموں سے نکل کر آپ وہاں کا رخ کریں جہاں بیشتر پاکستانی آبادی رہتی ہے تو پتا چلے گا کہ اس وقت عوام کی دلچسپی نہ حکومت میں ہے نہ جمہوریت کے نعرے مارنے والوں میں۔
گندم کے علاوہ یہ مہینہ ہے سردی کی سبزیاں اگانے کا۔ اربابِ اختیار میں عقل ہو یا زراعت کے بارے میں معلومات ہوں تو ٹی وی پہ آئیں اور دیہی آبادی کو تلقین کریں کہ کیا کچھ کرنا چاہیے۔ باہرکے ملکوں میں بہت سی سبزی تو فارموں سے آتی ہے لیکن بہت سی ایسی سبزیاں بھی ہوتی ہیں جو چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پہ اُگائی جاتی ہیں۔ بہت سے کاشتکار ہیں جو سبزیوں کی کاشت کی طرف مائل ہوچکے ہیں لیکن امر واقعہ تو یہ ہے کہ ہم سبزیوں کی پیداوار میں خود کفیل نہیں۔ کچھ سبزیاں انڈیا سے امپورٹ ہوتی ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے۔ کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن سبزیوں سے لے کر پام آئل تک ہم درآمد کرتے ہیں۔ یا تو ہم بہت بڑی انڈسٹریل قوت ہوتے اورمشینری اورہوائی جہاز بنا رہے ہوتے‘ لیکن ان چیزوں میں بھی گداگر‘ اورکھانے پینے کی چیزیں بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ لے دے کے ایک نظریہ رہ گیاہے۔ اس میں ہم خود کفیل ہیں۔
اس حکومت کے کاموں کو دیکھیے۔ ابھی لاہور ریور (river) فرنٹ پروجیکٹ کے شوشے کی بازگشت تھمی نہیں کہ کراچی سے باہر سمندر میں جو دو بڑے جزیرے ہیں ان کے بارے میں ایک شوشہ چھوڑدیا گیا ہے۔ کہاجا رہاہے کہ ان جزیروں کو ڈویلپ کیاجائے گا۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دبئی پیچھے رہ جائے گا۔ روزمرّہ کی کارکردگی کو تو تھوڑا بہتر کرلیں، شوشوں پہ پھر دھیان دیاجا سکتاہے۔ لیکن اس حکومت کی باتیں ہی نرالی ہیں۔ اب تو ان کے حمایتی بھی پریشان لگتے ہیں کیونکہ کہنے کو کچھ زیادہ رہا نہیں۔
بہرحال خدا جانے کن گناہوں کی سزا پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ عوام کا بڑا گناہ تو یہ ہے کہ وہ ایسے حکمران چنتے ہیں اور پھر انہیں برداشت کرتے ہیں‘ لیکن یہ الزام بنتا نہیں۔ عوام سے کسی نے پوچھا ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں تو فیصلے عوام سے بالا بالا ہی ہو جاتے ہیں۔ ایک بار حکمران مسلط ہو جائیں تو عوام کے پاس کوئی اختیار نہیں رہتا کہ انہیں ہٹا سکیں۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں کہ آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ ہماری مملکت میں عوام کی حیثیت کیا ہے؟ ملکی وسائل پہ چند طبقات بیٹھے ہیں اور قوم کی تقدیر کے فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُن طبقات کے سوچنے کی صلاحیت محدود ہے۔ بیشتر اوقات سوچ اُن کی اپنی نہیں ہوتی۔ پہلے ان طبقات نے امریکا کو سر پہ بٹھایا ہوا تھا۔ جو فیصلے امریکا کے حق میں ہوتے تھے وہ یہ طبقات کر ڈالتے تھے۔ عوام کو ان پالیسیوں کے نتائج بھگتنے پڑتے تھے۔ اب حکمران طبقات نے اپنی قسمت چین کے ساتھ جوڑی ہوئی ہے۔ اُن کی گفتگو سنیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کی تقدیر سنورے گی تو چین کی بدولت‘ یعنی اپنی سوچ ہماری ہے ہی نہیں۔
اپنی سوچ نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کے طبقات کو خریدنا اتنا مشکل نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستانی سوچ ہموار کرنا اور جو انگریزی کا لفظ ہے مولڈ (mould) کرنا آسان ہے۔ نام نہاد افغان جہاد کے جب ڈھول پیٹے گئے تو سارا ملک اس طرف لگ گیا۔ کسی متبادل رائے کی جگہ ہی نہ چھوڑی گئی۔ اب سی پیک کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور متبادل سوچ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جا رہی۔ بیشتر عوام سی پیک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ معاشی اعتبار سے پاکستان سی پیک کے منصوبوں کا کیسے فائدہ اٹھائے گا، منظر عام پہ ایسی باتوں کا ذکر عموماً نہیں ہوتا۔ قرضہ جات کیسے واپس ہوں گے، ایسی گفتگو بھی نہیں چھیڑی جاتی‘ جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سی پیک کے منصوبے ملک کے فائدے میں نہیں لیکن کم از کم تفصیلات تو سامنے آنی چاہئیں۔ تفصیلات کے بارے میں یہاں پرہیز برتی جاتی ہے۔
بس چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ نکمّوں کا راج کہیں جلد ختم ہونے والا نہیں۔