"AYA" (space) message & send to 7575

بحران کی نوعیت واضح ہو چکی ہے

سب سے پہلے تو قیادت کا بحران ہے۔ بات اب ناقدین تک نہیں رہی، پُرجوش حامی بھی مایوسی کی گہرائیوں میں ڈوب رہے ہیں‘ اسی بناء پہ کہ موجودہ قیادت میں دَم نہیں۔ اب تو لانے والے بھی پریشان ہوں گے۔
نااہل قیادتیں پاکستانی نصیبوں کا حصہ رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے نااہلی کے نئے ریکارڈ قائم کر دئیے ہیں۔ اپنے وقتوں میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف جب مسندِ اقتدار پہ رہے تو اُن پہ طرح طرح کے الزام لگتے تھے۔ انہیں کرپٹ کہا جاتا تھا، نااہلی کی مہر بھی لگتی تھی لیکن چاہے بینظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ اُن کی کارکردگی سے عوام کو کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچتی تھی۔ آج کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ لوگوں کو موجودہ حکومت کی کارکردگی سے تکلیف پہنچ رہی ہے‘ اور موجودہ بحران کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ اب صرف نچلے طبقات کی چیخیں نہیں نکل رہیں بلکہ اپنے آپ کو جو مڈل کلاس میں شمار کرتے ہیں‘ وہ بھی مہنگائی کی زد میں آچکے ہیں۔ 
بجلی کے بلوں میں اضافہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہو سکتا ہے لیکن بلوں سے ہٹ کر جو مہنگائی کا طوفان ہے اس کا تعلق نہ آئی ایم ایف سے ہے‘ نہ ہی تیل کی عالمی قیمتوں سے۔ آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق اس حکومت کی نااہلی سے ہے۔ آئی ایم ایف یا امریکا نے نہیں کہا تھا کہ گندم برآمد کی جائے۔ یہ موجودہ حکومت کا اپنا فیصلہ تھا۔ نہ پچھلی گندم کی فصل کا صحیح تخمینہ لگا سکے نہ ہی یہ دیکھ سکے کہ ملکی ضروریات کے مطابق گندم کے ذخائر ہوں گے یا قلت پڑنے کا اندیشہ ہے۔ نتیجتاً آٹے کی قیمت جو اوپن مارکیٹ میں پہنچ چکی ہے وہ حکومت کی سمجھ اور کنٹرول‘ دونوں سے باہر ہے۔ جہاں تک چینی کی قیمت کا تعلق ہے وہ تو تقریباً مذاق بن چکی ہے۔ سو روپے فی کلو اس قیمت کا ہونا پاکستانی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے اور اس کا سہرا جناب عمران خان کی حکومت کے سر بندھتا ہے۔ 
بطور وزیر خزانہ اسد عمر کی ناسمجھی قصہ پارینہ ہو چکی ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی دیر کر دی‘ یا روپے کی قدر کو اتنا کم ہونا چاہیے تھا؟ یہ بھی اب پرانی کہانیاں ہیں اور لوگ انہیں بھول چکے ہیں‘ لیکن چینی اور آٹے کی قیمت تو آج کے مسائل ہیں‘ اور ان بنیادی اشیاء کی قیمتیں کیسے کنٹرول سے باہر ہوئیں اس کا کوئی خاطر خواہ جواب اس حکومت کا کوئی کارندہ اب تک پیش نہیں کرسکا۔ وزیر اعظم کے یہ اعلانات کہ فلاں چیز کا نوٹس لوں گا مذاق بن چکے ہیں۔ لوگ کہنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کسی چیز کا نوٹس نہ ہی لیں تو بہترہے کیونکہ وہ جب نوٹس لیتے ہیں تو مزید تباہی کا اندیشہ پیدا ہوجاتاہے۔یہ بھی معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو یہ رائے کہاں سے ملتی ہے کہ جو چند نام نہاد پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں وہاں جاکے اپنی فوٹو کھنچوائیں۔ انہیں کس نے بتایا ہے کہ ایسی حرکتوں سے اُن کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوگا؟ عام آدمی کو سمجھ نہیں آرہی کہ روزمرّہ کی اشیا کا خرچہ کیسے پورا کرے اور وزیر اعظم صاحب کو یہی بتایا گیاہے کہ ایک آدھ پناہ گاہ میں فوٹوکھنچوا لیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 
تیسرا زاویہ موجودہ بحران کا مغربی بارڈر پہ صورتحال کا ہے۔ اب تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی کہ وزیرستان کی صورتحال خراب ہے اور بلوچستان میں مخصوص علاقوں کی بھی۔ آئے روز کہنا تو شاید مبالغہ ہو لیکن کوئی ہفتہ نہیں جاتا کہ سکیورٹی فورسز پہ حملہ بلوچستان کے کسی علاقے میں یا وزیرستان میں ہو جاتا ہے۔ نقصان بھی خاصا ہو رہا ہے۔ اس نقصان کی زد میں ہمارے نوجوان افسر اور جوان آرہے ہیں۔ بلوچستان میں شورش کرنے والے اور ہیں جبکہ وزیرستان میں شورش کے ڈانڈے طالبان سے ملتے ہیں۔ وزیرستان میں جو تکنیک استعمال کی جارہی ہے وہ عراق والی ہے جہاں امریکی فوج کو طرح طرح کے چھپے ہوئے بارودی مواد کا سامنا کرنا پڑا۔ 
2014ء میں جب وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو ایک لحاظ سے دشمن کا تعین مشکل نہ تھا کیونکہ ٹی ٹی پی کے واضح ٹھکانے تھے۔ اس آپریشن کی وجہ سے اس کو اپنے ٹھکانے چھوڑنا پڑے۔ اب کوئی واضح ٹھکانہ نہیں ہے اور یوں لگتا ہے کہ ایک باقاعدہ گوریلا جنگ ہماری فورسز کے خلاف شرو ع کر دی گئی ہے۔ پوچھنے والا سوال یہ بنتا ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کمزور ہو گی یا مضبوط؟ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان نے افغان طالبان سے تعلقات برقرار رکھے۔ ایسے تعلقات نہ ہوتے تو ہم طالبان کو کیسے قائل کرسکتے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بیٹھیں؟ لیکن اگردہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو پاکستان کا پوچھنا تو بنتا ہے کہ طالبان سے تعلقات رکھنے کا ہمیں کیا فائدہ پہنچا۔ 
ہمارا مخمصہ یہ بھی ہے کہ قیادت کے بحران کے حوالے سے کوئی متبادل واضح نہیں۔ عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ کتنے پانی میں کھڑے ہیں۔ ان کی جملہ صلاحیتوں کو سامنے آنے کیلئے یہ پچھلے دو سال کافی ثابت ہوئے ہیں۔ مزید آزمائش کی گنجائش انہوں نے چھوڑی نہیں‘ لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ ان کے بعد کون؟ پاکستان میں سب گھوڑے آزمائے جا چکے ہیں۔ نوازشریف کا مسئلہ تو نسبتاً آسان تھا۔ جب سپریم کورٹ نے انہیں کرسی سے فارغ کیا اور پھر مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنی تو عام ذہنوں میں نقشہ تھا کہ آنے والا وقت عمران خان کا ہے۔ حالات الیکشن کی طرف گئے تو ایک عمران خان کا اپنا زور تھا اور پھر ماحولیاتی تبدیلیاں بھی ان کے حق میں ہوئیں۔ اندھیروں میں سے جو مدد ہو سکتی تھی وہ بھی ان کے پلڑے میں پڑی۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی اور ظاہر ہے نادیدہ قوتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ لیکن ان جذبات بھرے دنوں میں کتنوں کو معلوم تھاکہ اقتدار میں تو آئے لیکن شاید اقتدار کیلئے قابل ثابت نہ ہوں؟ اب احساس بڑھ چکا ہے کہ کچھ بھول ہو گئی، اندازے ہمارے غلط نکلے، صلاحیتوں کا تخمینہ ہم صحیح لگا نہ سکے‘ لیکن یہ کوئی کمپیوٹر کی گیم تو ہے نہیں کہ آپ سکرین کے بٹن دبائیں اور کوئی سپر مین آ جائے اور چیزوں کو یہاں سے وہاں کر دے۔ ملک کی سیاست اور تقدیر کا مسئلہ ہے۔ ملکی معاملات کیسے چلائے جائیں گے؟ درپیش چیلنجوں کا سامنا کیسے ہو گا؟
ایک بات شاید واضح ہو رہی ہے کہ مزید تین سال یہ تجربہ چل نہیں سکتا۔ چلایا جاتا رہا تو عوام کی چیخیں جو نکل رہی ہیں وہ آسمانوں کو چھو جائیں گے۔ لیکن پھر وہی بات، کہ یہ نہیں تو کون؟ میدان میں دو نئے سیاسی پلیئر ہیں جو اپنی اپنی وراثتوں کو لے کے میدان میں اترے ہیں، ایک مریم نواز، دوم‘ بلاول زرداری۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی قابلِ قبول ہو گا؟ یہ کہنا تو کتابی بات ہے کہ اندھیروں کا کیا تعلق ایسے فیصلوں سے۔ تعلق رہا ہے اور تعلق رہے گا۔ پاکستانی سیاست کو بیساکھیوں کی ضرورت رہے گی لہٰذا جنہیں ہم مقتدرہ قوتیں کہتے ہیں ان کا سیاست میں عمل دخل رہے گا۔ اُن کا چہیتا کون تھا وہ تو ہم جانتے ہیں لیکن ا ب تو چہیتے کی کارکردگی اور صلاحیتوں کے بارے میں کوئی شک نہیں رہا۔ 
ایک اور بات ذہن نشین رہے کہ موجودہ کارکردگی ہی وجہ بنی ہے کہ ادارے بھی سیاسی تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ جو زبان اب استعمال کی جا رہی ہے ایسا پہلے نہ تھا۔ یہ امر اداروں کیلئے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں