بھارت کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کیا چیز ہے، ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہے؟ ہم جو اپنے ساتھ کر رہے ہیں، وہ اس کی عقل و فہم سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے لمبی چوڑی پریس کانفرنس کی یہ بتانے کیلئے کہ دہشت گردی کے فلاں واقعات اور منصوبوں میں یہ ایجنسی ملوث ہے۔ مانا کہ ساری باتیں درست ہیں پھر بھی دشمن کی پیدا کردہ افراتفری کہیں نزدیک بھی اُس افراتفری کے نہیں جو ہم خود برپا کرنے کے ماہر ہیں۔
جج ساجدہ احمد صاحبہ کے ایک کھلے خط کی خاصی تشہیر سوشل میڈیا پہ ہوئی ہے۔ لکھتی ہیں کہ نان پروفیشنل قسم کے وکلا کے ہاتھوں بطور جج انہیں عدالت میں آئے روز جو بے عزتی برداشت کرنا پڑتی ہے اُس سے تو کہیں بہتر تھاکہ وہ اپنی پڑھائی پہ اتنا وقت ضائع نہ کرتیں اور اپنے گاؤں میں گوبر کے اُپلے تھاپتیں۔ ساجدہ احمد کا ایک کردار وکلا مہم میں بھی رہا‘ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ساتھ دینے پر اُن کی ٹرانسفر ایک دور دراز مقام پہ کر دی گئی تھی۔ اب وہ خون کے آنسو رو رہی ہیں کہ اُس تحریک کی پاداش میں کس حد تک وکلا برادری بگڑ چکی ہے اور فراہمیِ انصاف کے تصور تک کو خاک میں ملا دیاہے۔
جو جج صاحبہ لکھتی ہیں اُن حقائق سے ہم سب واقف ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سمجھدار مؤکل وکیل چنتے وقت قابلیت کی بجائے وکیل کے رعب و دبدبے اور غصیلے پن کو دیکھتے ہیں۔ آج کل رعب بنتا ہے بار کی سیاست میں، اس لئے وکلا کے سالانہ انتخابات میں پیسہ اس انداز سے بہایا جاتا ہے کہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ عہدہ لے لیا اور آپ کی وکالت چمک گئی کیونکہ مؤکلوں کا خیال بن چکا ہے کہ ریلیف وہی وکیل صاحب بہم پہنچا سکتے ہیں جن کی کچھ تڑی ہو اور جن کے سامنے منصف صاحبان بھی تھوڑے مرعوب ہو جائیں۔
سوچنے کی بات البتہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن منصوبہ سازی کر لیں اور بیش بہا پیسے بھی لگائیں پھر بھی پاکستانی وکلا برادری میں وہ بگاڑ نہ پیدا کر سکتے جو وکیل صاحبان نے خود کیا ہے۔ بھارتی ایجنسی کیا کر سکتی ہے، ایک بم یہاں لگوا دیا، ایک کہیں اور۔ لیکن اغیار کی سوچ میں بھی یہ بات ہے کہ پاکستان کے سارے نظام عدل کو اس انداز سے متاثر کر دے جس طریقے سے وکلا برادری کے شیر جوانوں نے کر دکھایا ہے؟
ایک اخباری رپورٹ یہ ہے کہ گجرات پولیس کے ایک سابقہ اکاؤنٹنٹ رضوان اشرف گجرات پولیس کے سابق چار ڈسٹرکٹ پولیس افسران کے خلاف نیب کے حوالے سے وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ اُن کی گواہی کی تفصیلات ہلا دینے والی ہیں۔ چاروں پولیس افسران کے نام اس اخباری رپورٹ میں درج ہیں اور رضوان اشرف کہتے ہیں کہ اپنے اپنے ادوار میں ان افسران نے لاکھوں روپے پولیس کے مختلف فنڈز سے اپنے ذاتی استعمال کیلئے ہتھیائے۔ ایک ڈی پی او صاحب کے بھائی کی شادی تھی اور ڈی پی او صاحب نے اُس پہ چالیس لاکھ روپے پولیس فنڈز میں سے نکال کے خرچ کیے۔ دوسرے ڈی پی او صاحب اپنے ذاتی خرچے کیلئے پیسے نکلواتے اور اُن کی بیگم صاحبہ‘ جو آسٹریلیا میں مقیم ہیں‘ کو بھی ماہانہ خرچ انہی فنڈز میں سے جاتا۔ ہاتھ کی صفائی ایسی کہ داد کی مستحق ٹھہرتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا تھا‘ نچلے پولیس ملازمین تو رشوت وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن پولیس سروس آف پاکستان کے افسران اپنے ہاتھ ایسی حرکات سے گندا نہیں کرتے۔ رضوان اشرف کی گواہی بتاتی ہے کہ یہ فرق کب کا مٹ چکا۔ اب تو سینئر پولیس افسران اپنے ماتحتوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں‘ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جس صورتحال کی عکاسی اِس نیب کیس سے ہوتی ہے وہ دوسرے پیدا کر سکتے ہیں؟ زیادہ خطرناک چیز کیا ہے، کسی دور افتادہ مقام پہ ایک بم دھماکہ کروا دینا یا پوری پولیس فورس میں اس کرپشن کے مرض کا پھیل جانا؟ دشمن نے تو نقصان ہمیں پہنچانا ہے۔ ہندوستان کو ہم اپنا دشمن نہیں کہتے؟ دشمن ہے تو دشمنوں سے کیا گلہ؟ کوئی موقع دشمن کو ملے تو اُس نے ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ دہشت گردی کے واقعات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی کیا ہے اورکامیاب رہے ہیں‘ لیکن یہ سرطان جو اندر سے لگا ہواہے اس کا کیا علاج ہے؟
قانون کی حکمرانی پہ کیا گزر رہی ہے جج صاحبہ اُس کا رونا رو رہی ہیں۔ رضوان اشرف کی وعدہ معاف گواہی پولیس فورس کو آئینہ دکھاتی ہے۔ قانون کی حکمرانی اور محافظانِ امن کا یہ حال ہو تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ خفیہ ایجنسیاں ایک حد تک تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ غیروں کے آلہ کاروں نے پاکستان میں شرارت کرنی ہے تو ایک حد تک ضرور کر سکتے ہیں‘ لیکن پورے معاشرے کی تباہی تو ان کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔ جو ہمارے معاشرے کے ساتھ ہو رہا ہے وہ تو ہم خود کررہے ہیں۔ ہمارے مسائل یہودونصاریٰ کے پیدا کردہ نہیں‘ وہ تو خالصتاً میڈ ان پاکستان ہیں۔
اور جو کچھ چاندنی چوک سے فیض آباد تک کے علاقے میں ہوا کیا وہ کسی اور کا کارنامہ ہے؟ دو روز تک راولپنڈی اور اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں شہری زندگی بُری طرح متاثر رہی۔ ایک تو فیض آباد کے قرب و جوار میں احتجاجی لوگوں کے اجتماع سے ٹریفک معطل رہی اور جب فیض آباد کی ٹریفک معطل ہوتی ہے اُس کا اثر ایک طرف روات اور دوسری طرف مری تک جاتا ہے۔ فیض آباد ایک جنکشن ہے۔ وہاں گڑ بڑ ہو تو وسیع پیمانے پہ آمدورفت متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موبائل فون سروس بند کردی گئی۔ آج کل عام زندگی کا مکمل انحصار سیل فون ٹیکنالوجی پر ہے۔ دیکھا نہیں جب کسی جگہ کے کمپیوٹر ڈاؤن ہو جائیں تو سب کام رُک جاتے ہیں؟ یہاں راولپنڈی اور اسلام آباد اور چکوال تک کے علاقوں کے کمپیوٹر ڈاؤن ہو گئے۔ کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مالی لحاظ سے کتنا نقصان ہوا ہوگا؟ دکانیں بند، تجارت متاثر، ٹرانسپورٹ رُکی ہوئی۔ مزید برآں خبر کیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ کس حد تک مانے گئے ہیں وہ تو معلوم ہوگا جب تفصیلات سامنے آئیں گی لیکن اتنی تو خبر ہے کہ اوپر سے آرڈر آگیا کہ تمام گرفتار شدہ ورکروں کی رہائی عمل میں لائی جائے اور کوئی مقدمہ نہ قائم کیا جائے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ایسا ہورہا ہے۔ ایک دوسال پہلے اِسی قسم کا ملتا جلتا احتجاج ہوا تھا جس کے نتیجے میں تین روز تک بیشتر پنجاب بند رہا۔ اس دوران جب موٹروے بند کر دی گئی تھی تو مجھے لاہور پہنچنے کیلئے وسطی پنجاب کے اضلاع کا راستہ چننا پڑا۔ کلرکہار سے لاہور براستہ منڈی بہاؤالدین ، پھالیہ اورگوجرانوالہ مجھے نو گھنٹے لگے تھے۔ ٹی وی شو مس ہوگیا ۔ مختلف مقامات پہ چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کرنے والے تو نظر آئے لیکن اُس نوگھنٹے کے سفر کے دوران حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہ آئی۔ کوئی پولیس والا، کوئی مجسٹریٹ، کوئی ضلعی اہلکار... اُس دن لگتاتھا سب کہیں غائب ہوگئے ہیں۔ تین روز بعد ایک معاہدے کا اعلان ہوا اوراحتجاج کو ختم کیاگیا۔ چند روز بعد ایک آپریشن میں احتجاج کے سربراہان کو تحویل میں لے لیا گیا‘ اور ایسا لیا کہ معلوم ہوتا تھا‘ احتجاجی جماعت ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی ہے لیکن موجودہ قضیے نے ثابت کیا کہ ختم ہونے کے بجائے جماعت میں نیا دَم خَم آ گیا ہے۔
ہمارا ملک کمزور ملک نہیں لیکن اس کی سربراہی میں بیٹھے لوگ کمزور دل ہونے کا ثبوت بار بار دیتے ہیں۔ تھوڑی سی آندھی کا اندیشہ ہو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ طوفان کا آنا نہیں ہوتا لیکن اُس کے آنے کا ڈر اپنے ذہنوں پہ بٹھا لیا جاتا ہے اور پھر حرکت گھٹنوں میں ہونے لگتی ہے۔