"AYA" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی والے استعفے کیوں دیں؟

سندھ میں ان کا راج ہے۔ مقدمات کے باوجود اِن کی جاگیرداریاں اور کمرشل ایمپائر‘ قائم ہیں۔ کس بنا پہ ان سب چیزوں کو داؤ پہ لگائیں؟ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سامنے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ استعفوں کے معاملے پہ اس کی جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔
مولانا فضل الرحمن کا داؤ پہ کچھ بھی نہیں لگا ہوا۔ پی ڈی ایم کی شکل میں انہیں ایک پلیٹ فارم مہیا ہوگیا ہے جس کا وہ بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ اُن کے دل میں ٹھنڈ تبھی پڑے گی جب سیاسی افراتفری عروج پہ جائے اور عمران خان کی حکومت کو کچھ ہو جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ استعفے دئیے جائیں‘ لانگ مارچ ہوں اور نوبت خان صاحب کی حکومت کے خاتمے تک پہنچے۔ نون لیگ کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ نوازشریف کے دل پہ جو چوٹیں لگ چکی ہیں‘ اُن کا مرہم تب ہی ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک طوفان اُٹھے جس کے نتیجے اس کا خاتمہ ہو جائے۔ اُس کے بعد جو بھی ہو اُس سے اُن کو کوئی سروکار نہیں۔ بس عمران خان جائے اور مقتدرہ کی قیادت سے چھٹکارا حاصل ہو۔ اس کے بعد جمہوریت کا بوریا بستر گول بھی ہوتا ہے تو وہ بعد کی بات ہے۔ نوازشریف اور اُن کی دختر کی یہ سادہ سی سوچ ہے۔
جیسے اوپر بیان کیا‘ پیپلز پارٹی کا مسئلہ یکسر الگ ہے۔ مقدمات کی صورت میں پیپلزپارٹی قیادت کو ضربیں ضرور لگی ہیں لیکن دل پہ چوٹ کوئی نہیں آئی۔ اُن کی ذہنی کیفیت وہ نہیں جو نون لیگ کی قیادت کی ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کے دل بھرے ہوئے ہیں۔ اِس کیفیت کا مداوا عمران خان کی تباہی میں ہے‘ لیکن استعفوں کا وار تبھی کارگر ہوسکتا ہے جب پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی اُس میں شامل ہوں‘ لیکن سوال وہی ہے کہ پیپلزپارٹی والے نون لیگ کا آلہ کار کیوں بنیں؟
موجودہ بندوبست کا ختم ہونا نون لیگ کے فائدے میں ہے۔ نئے انتخابات ہوں یا جمہوریت کو کچھ دیر کیلئے نیند کی گولیاں دے دی جائیں یہ نون لیگ کے مفاد میں ہے۔ نوازشریف ہر وہ چیز چاہیں گے جس سے عمران خان کو ہزیمت اُٹھانا پڑے۔ مولانا فضل الرحمن کی ذہنی اور قلبی کیفیت بھی یہی ہے‘ لیکن پیپلزپارٹی کا مسئلہ الگ ہے۔ 
یہ تو معصوم لوگوں کی سوچ ہی ہوگی کہ پی ڈی ایم کی صورت میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی تاریخی اور روایتی چپقلش ختم ہوگئی ہے۔ حالات کے جبر کے تحت یہ چپقلش دَب گئی ہے، ختم نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ ختم تو تب ہو جب اقتدار کی جنگ ختم ہو‘ لیکن دونوں جماعتیں سیاسی میدان کے مخالف اطراف پہ کھڑی ہیں۔ پیپلزپارٹی کا مدعا اور، نون لیگ کا نصب العین یکسر دوسرا۔ پی ڈی ایم کا وجود دائمی نہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ جب یہ وقت گزرا تو ضرورت بھی بدل جائے گی۔ یہی ایک نکتہ حکومت کے فائدے میں ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا ظاہری اتفاق تو ہوگا لیکن وہ یک جان نہیں، نہ ہو سکتی ہیں۔ 
البتہ پی ڈی ایم کی تحریک سے بہت کچھ اور ہورہا ہے۔ دوسال تک پاکستانی سیاست میں تقریباً جمود رہا۔ ان ٹھہرے ہوئے پانیوں میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں کی نئی قیادت سامنے آرہی ہے۔ اب تو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ نون لیگ کے مستقبل کا چہرہ مریم نواز ہیں۔ بطورِ مؤثر لیڈر وہ سامنے آئی ہیں۔ تقریر کا فن اُن کا بہت عمدہ ہوگیا ہے۔ عوام الناس میں کشش پیدا کرنے کی صلاحیت اُن میں نظرآتی ہے۔ 13 دسمبر کے لاہور کے جلسے کی تیاریوں میں وہی لاہور کے باسیوں کو متحرک کررہی ہیں۔ اَب تو وہ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو مخاطب ہوتی ہیں تو بطور لیڈر ایسا کرتی ہیں۔ اُن کے لہجے میں رعب ودبدبہ آگیا ہے۔ اِس کی عکاسی اُن کی اس انتباہ میں ہوتی ہے کہ جو ایم این اے اپنی وفاداریاں بدلنے کی غلطی کرے گا‘ اُس کے حلقے کے عوام اُس کا گھیراؤ کریں گے۔ 
بطور لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی بھی بہت ٹریننگ ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کو وہی لیڈ کررہے تھے‘ اوراب تو اُن کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو کی سیاست میں بڑی دبنگ انٹری ہوچکی ہے۔ ملتان کے جلسے میں اُن کا تقریر کرنے کا انداز نہایت جاندار تھا۔ ابھی اُن کی عمر ہی کیا ہے؟ ایسا لگتاہے کہ مستقبل میں یہی دو چہرے آمنے سامنے ہوں گے۔ ملتان کے جلسے میں آصفہ بھٹو نے بھرپور انداز سے جئے بھٹو کے نعرے لگائے۔ مریم نوازکہتی ہیں کہ ملک میں ایک ہی نام کی گونج ہے اوروہ ہے نوازشریف۔ یہی تو دونوں جماعتوں میں فرق ہے۔ وقتی مصلحتیں ایک طرف، یہ فرق رہے گا۔ 
عمران خان کے حوالے سے یہ اُمید پیدا ہوئی تھی کہ ایک تیسری قوت نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے باہمی تسلط کو توڑے گی۔ لگتا یوں تھا کہ عمران خان دونوں جماعتوں کی سیاست کو بہت حد تک ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ لیکن ایسی اُمیدیں ٹوٹ چکی ہیں۔ ترکی میں طیب اردوان نے ترکی کی پرانی سیاست کو دفنا دیا۔ عمران خان طیب اردوان ثابت نہیں ہورہے۔ وہ کسی کی سیاست کو دفنا نہیں سکے اور اب تو یوں نظر آرہا ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی نئی قیادتیں میدان میں اُتر رہی ہیں۔ تازہ دم اور نئی ہمت کے ساتھ ۔ جس انداز سے اپنے میڈیا ونگ کے کنونشن میں مریم نواز نے عمران خان کا تمسخر اڑایا کبھی وفادار بندہ، کبھی تابعدار بندہ کہہ کے ایسا وہی کر سکتی ہیں۔ اُن کے والد ایسا انداز نہیں اپنا سکتے۔ آصفہ بھٹو اپنے والد سے تو ظاہر ہے بہت اچھا بولتی ہیں لیکن میرے خیال میں تو اپنے بھائی سے بھی وہ بہتر مقرر ہیں۔ اگلے الیکشن پتا نہیں کب ہوں گے‘ لیکن ایک طرف اگر عمران خان ہوئے تو وہ ایک ڈھلتے سورج کی مانند ہوں گے اور دوسری طرف دونوں جماعتوں کی یہ نئی اُبھرنے والی قیادتیں ہوں گی۔ 
یہ بھی مخمصہ ہے کہ عمران خان کے پاس اب کچھ کہنے کو نہیں رہ گیا۔ اُن کی ایک ہی کہانی تھی کہ کرپشن ختم کریں گے اورلوٹا ہوا مال واپس کرائیں گے۔ فلم کا یہ سکرپٹ پرانا ہو چکا ہے۔ یہ دوبارہ چلایا گیا تو اِس پر کون کان دھرے گا؟ اس کہانی کے علاوہ اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ طیب اردوان کی لیڈری بنیادی طور پہ اُن کی معاشی کارکردگی پہ مبنی ہے۔ یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں پرابلم شاید یہ ہوکہ اگلے انتخابات (جب بھی ہوئے) میں کیفیت یہ ہوگی کہ ٹکٹوں کے پیچھے امیدواروں کے بھاگنے کے بجائے ٹکٹ امیدواروں کے پیچھے بھاگ رہے ہوں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں (ق) لیگ ایک تہمت بن کے رہ گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی حالت ایسی بنتی جا رہی ہے کہ ڈر ہے‘پی ٹی آئی کا نام اگلے انتخابات میں تہمت نہ بن جائے۔ 
زیادہ مسئلہ موجودہ بندوبست کے ضامنوں کا ہے۔ ان ضامنوں نے پچھلے الیکشنوں میں عمران خان کے گھوڑے پہ ہاتھ رکھا۔ کیا آئندہ بھی وہ ایسا کر سکیں گے؟ ضامنوں کی اُمید تو یہ تھی کہ نون لیگ تہس نہس ہوجائے گی یا کم از کم پارٹی کی قیادت نوازشریف اور اُن کی دختر کے ہاتھوں سے نکل کے زیادہ محتاط ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوا۔ محتاط ہاتھ اپنی احتیاط ہی کے ہو کے رہ گئے ہیں۔ پہلے پھر بھی کچھ خیال ہو سکتا تھاکہ نوازشریف کی سزا کے بعد نون لیگ کی قیادت شہباز شریف کے پاس چلی جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ اب تو یوں سمجھیے جانشینی کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ ضامنوں کے پاس پھر کرنے کو کیا رہ جاتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں