متحدہ پنجاب کے آخری وزیراعلیٰ ملک خضر حیات ٹوانہ کی جاگیر کا نام کالرا اسٹیٹ تھا۔ ہزاروں ایکڑ زمین پہ محیط یہ جاگیر تھی۔ کچھ کو کہتے ہوئے میں نے سنا کہ گیارہ بارہ سو مربعے اس اسٹیٹ کا حصہ تھے۔ کچھ لوگ زیادہ بتاتے ہیں۔ بہرحال متحدہ پنجاب کی بڑی زمینداریوں میں اس کا شمار تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے جب مسلم لیگ کی آواز نے پنجاب میں زور پکڑا تو ملک خضر حیات کو وزارتِ اعلیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔ یہ یاد رہے کہ پنجاب اور بنگال کے سیاسی سربراہ وزیراعلیٰ نہیں کہلاتے تھے۔ انہیں پریمیئر کہاجاتا تھا۔ منصب سے اُترے تو ملک خضرحیات کی سیاست ختم ہوگئی۔ اُن کی وفات 1975ء میں ہوئی لیکن سیاسی طور پہ اُس سے بہت پہلے گوشۂ گمنامی میں جاچکے تھے۔
لاہور میں کوئین میری کالج سے ملحق دولتانہ ہاؤس ہوا کرتاتھا۔ لاہور کے دل میں واقع اس جائیداد کا کل رقبہ 17 ایکڑ تھا۔ آج دولتانہ ہاؤس کا صرف نام رہ گیاہے، دولتانہ فیملی کا اُن 17 ایکڑوں میں ایک مرلہ بھی نہیں رہا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اتوار کو میں دولتانہ ہاؤس کے بچے کھچے آثار دیکھنے گیا اور عجیب کیفیت ہوئی جب سوچا کہ ایک زمانے میں اس جگہ کی کیا شان وشوکت ہوتی ہوگی اور اب اس کا حال کیا ہوگیا ہے۔ لڈن ضلع وہاڑی میں گزرے زمانے کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی زمینیں بھی تقریباً ختم ہوچکی ہیں‘ اور واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وہاں کی پرانی حویلی بھی ایک اجاڑ کا سماں پیش کرتی ہے۔ یہی کچھ دیکھنے کیلئے میں کالرا اسٹیٹ کا دورہ کرنا چاہتاتھا‘ لیکن ایک دودن پہلے ہی وہاں جانے کا موقع ہاتھ آیا۔
سردیوں کا خوبصورت دن تھا، سورج نکلا ہوا تھا۔ بھیرہ اور شاہ پور کا علاقہ ویسے بھی بہت خوبصورت ہے۔ کالرا چھوٹا سا قصبہ ہے۔ وہاں پہنچے تو ایک رکشے والے سے راستہ پوچھا۔ ہاتھ کے اشارے سے اُس نے بتایاکہ اُس طرف ملکوں کی پرانی حویلیاں ہیں۔ بڑی حویلی سے پہلے ایک مہمان خانہ طرز کی بلڈنگ ہے۔ صرف وہی کسی کی ملکیت ہو تو گاؤں میں اُسے چوہدری یا ملک جانا جائے۔ ایک مقامی صاحب ہیں جو یونین کونسل وغیرہ کی سیاست میں کئی سالوں سے حصہ لے رہے ہیں۔ وہ وہاں مقیم ہیں۔ اُن سے درخواست کی تو انہوں نے اندر کا ایک کمرہ کھلوایا۔ اُس زمانے کی ہندو سکھ اور انگریز طرزِتعمیر کا یہ ایک نمونہ ہے۔ نہایت ہی اونچی چھت، لکڑی کے شہتیر اور بالے اور اینٹوں کا استعمال۔ اندر تمام لیپائی مٹی کی اور مٹی کے اوپر پرانے طرز کے چونے کی لیپائی ۔ یہی طرزِ تعمیر حویلیوں کا ہوا کرتا تھا اور یہی طرزِ تعمیر گورنر ہاؤس لاہور اور پرانے جمخانہ کلب‘ جوکہ اب قائد اعظم لائبریری ہے‘ کا ہے۔ کمرہ خستہ حال تھا۔ اندر کچھ فرنیچر اورایک جانب ملک خضرحیات کا ایک بڑا پورٹریٹ۔ ایک طرف کی دیوار سے پتا چل رہاتھا کہ بارش کے پانی نے نقصان کیاہے اور جو مرمت ہونی چاہیے وہ نہیں کی گئی۔ اس بنگلہ نما کنسٹرکشن کے سامنے اور ارد گرد باغ ہونا چاہیے تھا اور شاید ایک زمانے میں ہو بھی لیکن اب ارد گرد وہی گند ہے جو ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں دیکھاجاتا ہے۔
کچھ گپ شپ کے بعد ہم بڑی حویلی کی طرف چل دئیے۔ کیا کہا جائے، اس جگہ کا ایک عجیب سماں ہے۔ گم گشتہ وقتوں کی جھلک ان دیواروں سے آتی ہے لیکن موجودہ حالت ایک عجیب ویرانی کی سی ہے۔ میں پوچھتا رہاکہ کوئی دیکھ بھال نہیں کرتا۔ ملک صاحب کی اولاد یا جانشینوں میں یہاں کوئی نہیں آتا؟ ملک خضر حیات کی چار شادیاں تھیں، تین چار بیٹے بھی تھے لیکن ایک بیٹا اُن کی زندگی میں ہی اُن سے کچھ ناراض ہوکر امریکا چلا گیا تھا۔ سب سے چھوٹا بیٹا ثمر حیات تھا‘ جس کا لاہور میں قیام تھا‘ اور جیساکہ پرانی یادوں کے لوگ جانتے ہوں گے 1980ء کی دہائی میں اُس کی دوستی تب کے ایک گینگسٹر نما شخص ٹبی سے ہوئی اور پھر پراسرار حالات میں ثمر حیات کا قتل ہوگیا۔ لاہور کی کچھ جائیدادیں جو ثمر کے پاس تھیں اُن پہ سُنا ہے قبضہ اب اوروں کا ہے اور کچھ مقدمات بھی چل رہے ہیں۔
مجھے غرض البتہ ملک خضر حیات یا اُن کی فیملی کی کہانی سے نہیں۔ یہ دنیا کا دستور ہے کہ جہاں عروج ہوتا ہے وہاں زوال بھی آتاہے۔ بڑے بڑے خانوادوں کے دن آئے اور پھر چلے گئے۔ خاندانوں کو چھوڑیے، سلطنتوں کا بھی ایسا ہی حال ہوتاہے۔ کہاں مغل بادشاہت کی عظمت اور پھر اس بادشاہت کا حشر نادر شاہ کے ہاتھوں۔ نادر شاہ کاحملہ تو ایک منفرد قصّہ ہے نہیں تو مغلوں کے طویل زوال میں اُن کی بے حرمتی کبھی جاٹوں کبھی مرہٹوں اورکبھی غلام قادر روہیلہ کے ہاتھوں ہوئی۔ غلام قادر نے تو کمال ہی کردیا۔ نو ہفتے شہنشاہ شاہ عالم اس کے قبضے میں رہا اور غلام قادر نے وہ ظلم ڈھائے کہ پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ اور یہ غلام قادر شاہ عالم کا چہیتا ہوا کرتاتھا، بالکل اسی طرح جیسے ایاز اپنے زمانے میں سلطان محمود کا چہیتا تھا۔
بہرحال اس زوال کی داستان سے زیادہ کھٹکا مجھے کسی اور چیز سے لگا۔ اسٹیٹ کی زمینوں کی بات جب ہورہی تھی تو وہاں کے لوگوں سے پتا چلا کہ نوازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو اُن کی نظریں بھی ان زمینوں کی طرف گئیں۔ زمینوں کو دیکھنے کیلئے انہوں نے ایک دورہ بھی رکھا‘ لیکن مقامی لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ پھر تجویز یہ بنی کہ جاگیر کی حدود کے گرد درختوں پہ جھنڈے لگا دئیے جائیں اور وزیراعلیٰ پنجاب ہیلی کاپٹر پہ بیٹھ کے اس منظر کا جائزہ لے لیں۔ ایسا ہی ہوا، درختوں پہ نشاندہی کی غرض سے جھنڈے لگائے گئے اور میاں صاحب نے ہیلی کاپٹر پہ اسٹیٹ کی انسپکشن کی۔ ملک خضر حیات کی کچھ زمین جو زرعی اصلاحات میں آئی تھی اس میں سے ساٹھ ستر مربعوں پہ ضابطے کے تحت ڈیری فارم بنایا گیا۔ اس وجہ سے وہ زمین ملک صاحب کی تحویل میں رہی‘ لیکن ان کی وفات کے بعد جب زمینوں کی تقسیم کے تنازعات خاندان میں اُٹھے تو وہ ڈیری فارم والی زمین محکمہ لائیوسٹاک کی تحویل میں آگئی۔ بڑے لوگوں نے ترکیب یہ بنائی کہ ڈیری فارم کی ساری زمین لیز پہ لے لی جائے۔ ننانوے سال کی لیز نواز شریف کے والدِ گرامی میاں محمد شریف کے نام تیار کی گئی اور یہ ساری زمین اُن ہاتھوں میں منتقل ہو گئی۔ روئیداد جب یہاں تک پہنچی تو قصّہ سنانے والے ہنس پڑے اور انہوں نے کہا کہ یہ میانوالی کا خان آیا اور اس نے ساری زمین حکومت کے نام واپس کرا لی ہے‘ یعنی وہ ننانولے سال والی لیز ختم ہو گئی ہے۔ ماجرا سنتے ہوئے بے اختیار میرے دل و دماغ میں سوال اُٹھا کہ انسانی ہوس کی کوئی حد بھی ہوتی ہے؟ کہاں کہاں جائیدادیں نہیں بنیں۔ چھانگلہ گلی میں گھر بنا تو درختوں کو کاٹ کاٹ کے سوئی گیس پہنچائی گئی۔ دولت کے قصّے شروع کریں تو ختم نہیں ہوتے‘ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے مقابلے میں کوئی اُٹھا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ کارکردگی کے حوالے سے عمران خان پہ لاکھ تنقید کی جا سکتی ہے‘ لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پہ یہ واحد شخص تھا جس میں ہمت اور صلاحیت تھی کہ سرمایے کے ان بڑے ٹھیکیداروں کا غرور اور تکبر توڑ ڈالے۔ اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
جو آپ کا تکبر توڑے اُسے آپ کبھی بھول سکتے ہیں؟ اُسے کبھی بخش سکتے ہیں؟ عمران خان کو دیکھ کے ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی۔ یہ اب محض سیاسی لڑائی نہیں رہی۔ اس میں اب ذاتی عنصر آ چکا ہے۔ نواز شریف جب بیانیے کی بات کرتے ہیں تو اندر سے تلخ یادوں کے یہ انگارے دل کے پھپھولوں میں سُلگ رہے ہوتے ہیں۔