لاہور کا جلسہ کیا تھا پی ڈی ایم والوں کی تحریک سے سارا دَم ہی نکل گیا۔ اب اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ آگے کیا کریں۔ لانگ مارچوں کی بات ہو رہی ہے لیکن اُنہیں بھی معلوم ہے کہ ایسی بڑھکوں سے کچھ نکلنا نہیں۔ سوچ تو یہ تھی کہ جلسے مومینٹم (momentum)پیدا کریں گے۔ پھر بھرپور تحریک چلے گی اوراستعفے آئیں گے اورحکومت کہیں راہِ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہوجائے گی۔سارا معاملہ شیخ چلی کے انڈوں والاتھا۔ لیکن بات کچھ بن نہیں پائی اورجس چیز نے ناکامی کی مہر ثبت کی وہ لاہور کا جلسہ تھا۔
حالانکہ موبلائزیشن کی ساری کوشش خود مریم نواز نے کی۔لاہور کے مختلف علاقوں میں گئیں تاکہ لوگوں کو متحرک کیاجاسکے۔ خیال بھی یہی تھا کہ اس کوشش کے بعد جلسے کا ہنگام خوب بھرپور ہوگا۔ لیکن تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ غور کرنے کا نکتہ البتہ یہ ہے کہ سیاسی تحریکوں کا کچھ جواز ہو تب ہی وہ زور پکڑتی ہیں۔ لوگ محض نعروں سے متحرک نہیں ہوتے۔ دل پہ لگنے والی کوئی بات ہوتب ہی سب کچھ لٹانے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ پی ڈی ایم والوں کے شور کے پیچھے نکتہ یاایشو کیا ہے ؟یہ کہہ دینا کہ فلاں 'سلیکٹڈ‘ ہے یا اسٹیبلشمنٹ نے یہ کچھ کیا۔ یہ تو ایسی باتیں نہیں جس سے عوام الناس کے جذبات بھڑک اُٹھیں۔ واویلا کون مچارہے ہیں؟ایسے آسودہ حال لیڈران جن کا شمار دنیا کے امیر ترین اشخاص میں ہوسکتاہے۔ عوامی مسائل اور‘ اِن لیڈروں کا رونا اور۔ دونوں نکتوں کے بیچ کوئی مطابقت نہیں۔ لیڈران کا دُکھڑا صاف نظر آتاہے۔ کرپشن کے مقدمات سے گھبرائے نہ ہوں گے لیکن پریشان تو ہیں۔ آسودہ حال لیڈران کی پریشانیوں سے ایک عام آدمی کا کیا لینا دینا۔ ایسی صورتحال میں کوئی سیاسی شورش تو برپا نہیں ہوسکتی۔ لیکن پی ڈی ایم والوں نے پتا نہیں کیاسمجھ رکھاتھاکہ اسٹیبلشمنٹ کا نام لیں گے اور پنجاب کے لوگ کھڑے ہوجائیں گے اورلیڈران کے اشاروں پہ سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ لاہوریوں کی غلطی نہیں۔ پی ڈی ایم کے لیڈران معاملات کو صحیح سمجھ نہ سکے۔
اوریہ بھی کوئی بات ہے کہ متحرک ِتحریک قبلہ مولانا فضل الرحمان ہوں اورتحریک ایسی اُٹھے کہ ماضی کی زور دار تحریکوں کی یاد تازہ ہو جائے؟ مولانا بڑے ذہین اورزیرک لیڈرہوں گے لیکن اِس پائے کے عوامی لیڈر وہ کب سے بنے ؟مولوی صاحبان جوبھی ہوں سیاسی تحریکوں میں حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن تحریکوں کے روح رواں وہ کب رہے ؟ہلہ شیری ضرورکرسکتے ہیں لیکن یاد نہیں پڑتا کہ کسی سیاسی شروعات کے وہ موجد بنے ہوں۔ یہاں عجیب مخمصہ ہے۔ قیادت کااتنا خلا پیدا ہوگیاہے کہ قبلہ مولانا صاحب جیسے لیڈر اُسے پُرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جو اُن کے مسلک کے ہیں یا پکے سیاسی حمایتی ہیں اُن کے لئے تو وہ کشش رکھتے ہوں گے لیکن پنجاب کا ایک آدمی اُسے قبلہ مولانا میں کون سی کشش محسوس ہوسکتی ہے ؟ مذہبی لیڈران کا اپنااپنا حلقہ ِاثر ہے۔ اُس میں وہ بڑے مؤثر لیڈر کہلائیں گے۔ لیکن حلقہِ اثر کی حدود سے نکل کر وہ کتنے متحرک ہو سکتے ہیں؟
جماعت اسلامی کا حال ہم نے نہیں دیکھا ؟ماضی میں جماعت تب ہی مؤثر سیاسی کردار ادا کرسکی جب کسی اتحاد کا حصہ تھی یا کسی ایک سیاسی پارٹی سے جڑی ہوئی تھی۔ بھلے وَقتوں میں بھی تین چار سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں اُس کے نصیب میں نہیں آئیں۔ نون لیگ کے طفیل اُسے ایک آدھ الیکشن میں کچھ زیادہ سیٹیں مل گئیں۔ لیکن نون لیگ سے اتحاد ٹوٹا تو حالات کے رحم وکرم پہ کس انداز سے آنا پڑا وہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ پاکستانی عوام کئی اعتبار سے رجعت پسندی کا شکار ہوں گے لیکن کئی حوالوں سے پاکستانی عوام کا شعور بہت پختہ ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے ایک عام پاکستانی کسی لغزش کا شکار نہیں ہوسکتا۔ عقیدے پہ مرمٹنے کیلئے تیار ہوتاہے لیکن سیاسی فیصلے کرنے ہوں تو پاکستانی عوام کی سوچ یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اسی لیے ووٹ کا فیصلہ سیاسی تقاضوں نہ کہ مذہبی روّیوں کے حوالے سے ہوتاہے۔ مثا ل کے طورپہ پیر پگاڑا کا کتنا مقام سندھ میں رہا۔ 1970ء میں پیری مریدی پیر پگاڑا کی قائم رہی لیکن ووٹ پیپلزپارٹی کاتھا۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف زبردست تحریک چلی۔ بھٹو کا تختہ اُلٹ گیالیکن جنرل ضیا الحق کو 90دن کے اندر اعلان کردہ انتخابات ملتوی کرنے پڑے کیونکہ حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ انتخابات کا میدان سجا تو بھٹو پھر سے سویپ کرجائے گا۔ اس وقت پنجاب میں سیاسی کشش رکھنے والے دو لیڈران ہیں‘ عمران خان اورنوازشریف۔ دونوں کی حمایت کی بنیاد خالص سیاسی تقاضے ہیں۔ بات شروع ہوئی مولانا فضل الرحمان کے ذکر سے۔ یہ سٹیج پہ نظر آر ہے ہوں تو پنجاب کاووٹر کتنا متحرک ہوسکتاہے ؟
پی ڈی ایم والوں کو یہ بات سمجھنے میں دیر لگ رہی ہے کہ عمران خان جانے والا نہیں۔وہ تو اَب جم کے کھیلنے لگاہے۔ اُس کی حکومت کی کارکردگی سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے۔ حکومت پہ تنقید بھی بجا لیکن کس اُستاد نے یہ سبق سکھایا ہے کہ چند جلسوں اور نعروں کے بعد اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹایا جا سکتاہے؟گزرے ادوار میں اسٹیبلشمنٹ نامی چیز نے کیا کردار ادا کیااِس سے عام آدمی کا کیا واسطہ؟عوام کو واسطہ پڑتاہے تھانہ اورپٹوار سے اور مارکیٹوں اوردکانوں پہ لگے ہوئے نرخوں سے۔ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ‘ لا چار انسانوں کو تھانے سے بھی شکایت اورپٹوار سے بھی۔ پاکستان میں امیرطبقات کیلئے سب کچھ ہے۔ اُن کی زندگیاں آسانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ کمزور اورلاچار طبقات پاکستان میں اتنے آسودہ نہیں۔ اِس صورتحال کا دارومداد نہ جمہوریت پہ نہ آمریت پہ۔ حاصل یہ کہ پاکستان کامسئلہ جمہوریت بمقابلہ آمریت نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ نظام اوروسائل کی تقسیم کاہے۔ اس مسئلے پہ سیاسی پارٹیاں کوئی نقطہ نظر رکھتی ہی نہیں۔ 1970ء میں بھٹو نے ان بنیادی مسائل کی طرف اشارہ کیاتھا۔ روٹی کپڑااورمکان کی بات کی تو کمزور طبقات کے دلوں کو لگی۔ اُس کے بعد بھٹو صاحب بھی بدل گئے‘ اُن کا دور بھی ختم ہوا اورپھر رجعت پسندی کا ایک ایسا زمانہ شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
پی ڈی ایم والوں نے سیاسی گفتگو اتنی سطحی بنا دی ہے۔ اوروہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی باتوں کو سُن کے عوام کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ اُن کی غلط سوچ ہے لیکن وہ سیکھنے کو تیار نہیں۔نواز شریف اقتدار سے معزول ہوئے تو انہوں نے جی ٹی روڈ کا راستہ اپنایا۔ اس امید کے ساتھ کہ جوں جوں وہ وسطی پنجاب سے گزریں گے عوام سراپا احتجاج ہوتے جائیں گے۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ نوازشریف تھک گئے‘ اُن کا گلہ بیٹھ گیا لیکن جس عوامی ردِ عمل کی وہ اُمید لگائے بیٹھے تھے وہ رُونما نہ ہوا۔ اب پھر لندن میں بیٹھ کے خاص قسم کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی کہانی جو وہ پڑھ رہے ہیں مڈل کلاس کے ایک خاص حصے کو اُس میں کشش نظر آسکتی ہے لیکن عوام الناس جو اپنے روز مرّ ہ کے مسائل سے نبردآزما ہونے کی کوشش میں مبتلا رہتے ہیں‘ انہیں ایسی کہانیوں میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟
اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ پی ڈی ایم کی یہ والی تحریک عملی طورپہ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اِس تحریک سے پی ڈی ایم کمزور ہوئی ہے‘ عمران خان کی حکومت کااعتماد بڑھا ہے۔ عمران خان کے خلاف کچھ کرناہے تو پی ڈی ایم والوں کو اپنے ذہنوں پہ کچھ مزید زور دینا ہوگا۔