وزیراعظم سے ملاقات ڈاکٹر شہبازگل کے کہنے پہ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب بڑے ایکٹیو قسم کے آدمی ہیں اور چونکہ اُن کاکام میڈیا سے متعلق ہے اس لئے شاید انہوں نے سوچاکہ ملاقات کرا دی جائے۔ ظاہر ہے اس کی خبر کہیں نہیں آنی تھی لیکن جب گاؤں لوٹے اورشام کو ترنگ میں بیٹھے تھے تو ہمارے چکوال کے دوست راجہ نذیر کا فون آیاکہ ملاقات کی کوئی فوٹو شوٹو ہے؟ ہم نے کہا: فوٹو تو ہے لیکن تشہیر کیلئے نہیں۔ انہوں نے کہا: چھوڑیں ایسی باتیں، فوٹو بھیجیں۔ جیسے ہرچیز نیٹ پہ چڑھا دی جاتی ہے‘ چاہے فوٹو شیخ رشید صاحب کا ہو یا ہم جیسے فقیر کا، فوٹو نیٹ پہ چڑ ھ گئی اور چکوال کے یار دوستوں کیلئے ایک اور موضوعِ سُخن بن گیا۔
کچھ نے کہا: بڑی اہم ملاقات تھی جس میں چکوال کی سیاسی صورتحال زیر گفتگو آئی۔ کچھ مہربانوں نے سینیٹ کے آنے والے انتخابات سے ملاقات کو جوڑدیا۔ کاش ایسا ہوتا لیکن ملاقات میں گفتگو اور نوعیت کی تھی۔ میں نے دو تین گزارشات ہی کیں۔ وزیراعظم صاحب نے سیمنٹ کی قیمتوں کا کہیں ذکر کیا تو میں نے کہاکہ سیمنٹ کے موضوع پہ کچھ کہنا چاہوں گا۔ عرض کیا کہ سیمنٹ کی پروڈکشن ناگزیرہے لیکن اِس کی قومی ضروریات سے وافر پروڈکشن کسی کام کی نہیں کیونکہ سیمنٹ کی مینوفیکچرنگ میں ماحولیاتی تباہی بہت ہوتی ہے۔ مزید کہاکہ پنجاب کے محکمہ انڈسٹریز کے پاس چودہ سیمنٹ فیکٹریوں کی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں‘ کچھ منظور ہو گئی ہیں لیکن یہ ساری کی ساری فیکٹریاں کہیں لگ گئیں تو چکوال کی شکل بگڑ کے رہ جائے گی۔ وزیراعظم صاحب نے ہدایت کی کہ امین اسلم‘ جو اُن کے ماحولیاتی ایکسپرٹ ہیں‘ کو کہیںکہ کسی فیکٹری کے لگنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے جب تک اُس کی ماحولیاتی رپورٹ OK نہ ہو۔ لہٰذا نوٹس تو میرے نکتے کا وزیراعظم نے لیا لیکن بات کچھ بنی نہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہم قومی ضروریات سے زیادہ سیمنٹ پروڈیوس کررہے ہیں‘ مزید سیمنٹ فیکٹریاں نہیں لگنی چاہئیں۔ یہ بات آئیں بائیں شائیں ہوگئی۔
دوسرا میں نے کہا کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پہ تو مکمل پابندی لگا دیں۔ یہ بھی کہا کہ آپ نہیں لگائیں گے تو پھر کوئی بھی نہیں لگا سکے گا۔ ڈاکٹر شہباز گل کی طرف دیکھتے ہوئے وزیراعظم صاحب نے کہا کہ یہ پابندی لگ نہیں گئی؟ میں نے کہا: اسلام آباد میں کچھ اقدامات کئے گئے تھے لیکن پھر مہم ٹھنڈی پڑ گئی تھی اور جہاں تک باقی ملک کا سوال ہے تو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز اپنی تباہیاں بدستور پھیلا رہے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ انہوں نے پھر اشارہ کیا کہ اس کا کچھ کریں۔ میں تھوڑا سا حیران ہوا کہ اگر باخبر ہونے کا یہ عالم ہے تو پھر ملکی حالات کیلئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
تیسرا موضوع جو میں نے چھیڑا وہ قدرے حساس نوعیت کاتھا اس لئے تھوڑی سی تمہید باندھی۔ میں نے کہا: آپ تو سپورٹس مین ہیں لیکن ہم جیسے گناہگاروں کا بھی کچھ خیال ہونا چاہیے۔ اس بات پہ وہ تھوڑے عجیب طریقے سے میری طرف دیکھنے لگے کہ میں کیا کہہ رہاہوں۔ میں نے کہا: محکمہ ایکسائز کے حوالے سے قوانین آپ شاید تبدیل تو نہ کر سکیں لیکن اُن میں کچھ نرمی تو لائی جاسکتی ہے۔ جب میں نے محسوس کیا کہ وہ بات کو بالکل نہیں سمجھ رہے تو میں نے کہا: عرب امارات میں سوشل نوعیت کی تبدیلیاں آچکی ہیں، سعودی عرب میں بھی تبدیلی آرہی ہے لیکن ہم جنرل ضیاالحق کے زمانے میں ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔ بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ لاہور میں ایک ہوٹل کے اجازت نامے کا مسئلہ تھا اوراُسے بھی تماشا بنادیا گیا۔ یہاں انہوں نے پوچھاکہ اجازتیں اور ہونی چاہئیں؟ میں نے کہا: بالکل ہونی چاہئیں۔ انہوں نے پھر ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھ کے کچھ کہا۔ اب منحصر پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پہ ہے کہ وہ اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں یا یہیں پہ وہ ٹھپ ہوکے رہ جاتی ہے۔
آخر میں ایک اور بات کہی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے بڑا احسن اقدام کیا ہے کہ ایک مقدمے میں آئی بی والوں سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت اُن کے محکمے کے افسران حاضر سروس ہوتے ہوئے ریئل اسٹیٹ کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ عدلیہ کی بجائے ایسی تنبیہ اور ہدایت حکومت کی طرف سے آنی چاہیے۔ لیکن میری اس استدعا کا وزیراعظم نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا اورصر ف اتنا کہا کہ حکومتی معاملات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر بات پہ دھیان دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی پہ ملاقات کا اختتام ہوا۔ نہ چکوال کا ذکر ہوا نہ کسی سینیٹ کے انتخابات کا۔ایک بات وزیراعظم ہاؤس کے ماحول کی اچھی لگی کہ عمران خان کے دور میں یہاں کوئی چائے پانی کا سلسلہ نہیں چلتا۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ گزرے وقتوں میں کبھی وزیراعظم ہاؤس آتے تو دستانے پہنے ویٹر چائے کافی کا پوچھتے۔ نوازشریف صاحب کے دور میں تو مہمانوں کی تواضع اچھی خاصی ہوا کرتی تھی۔ ظاہر ہے اُس تواضع کا سارا خرچہ ذاتی جیب سے نہیں دیا جاتا تھا۔ بہرحال وہ دور اور تھا اور عمران خان صاحب کا مزاج اور قسم کا ہے۔
جہاں تک سینیٹر ہونے کا سوال ہے تو یہ چاہت ضرور ہوتی اگر بیروزگار ہوتے اور کچھ کرنے کو نہ ہوتا۔ سینیٹ کی خواہش یا تو کاروباری لوگ رکھتے ہیں جن کیلئے‘ اگر وہ سینیٹ میں آجائیں تو‘ بہت سی آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہم نے کاروباری کیا بننا ہے ہم سے آٹے کی چکی یا کریانہ سٹور نہ چلے۔ کوئی منافع میں چلنے والی فیکٹری بھی ہمیں دے تو ایک دو ماہ میں اُس کا تمام حساب ہم پورا کر دیں۔ یا وہ لوگ سینیٹ کی تڑپ رکھتے ہیں جن کو سیاست کا چسکا لگا ہوا ہو لیکن اُن کا اپنا حلقہ انتخاب نہ ہو اور وہ کسی جنرل الیکشن میں کھڑا ہونے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔ ہمیں جتنا سیاست کا شوق تھا وہ پورا کر چکے۔ مرزا غالب کے وہ مشہور الفاظ ہیں کہ سوسال سے ہے پیشہ سپہ گری۔ ہمارا پیشہ صحافت ہے اور یہی ایک چیز ہے جو بیشتر عمر ہم کر سکے ہیں۔ یہ تو ذاتی تجربہ رہا ہے کہ صحافت اور سیاست کو ملا کے چلانا آسان کام نہیں۔ صحافت پہ دھبہ لگ جاتا ہے اور سیاست بھی ڈھنگ کی نہیں کی جا سکتی۔ پرانے دنوں میں جب پیپلز پارٹی سے تھوڑا بہت تعلق تھا تو بینظیر بھٹو صاحبہ نے کہا تھا کہ اس سے پوچھو کہ صحافت کرنی ہے یا سیاست۔ اُن کا بھی یہی مفہوم تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
بہرحال یہ گفتگو ایک لحاظ سے غیر متعلق ہے۔ متعلق تو تب بنے کہ اگر کسی نے کہا یا پوچھا ہو۔ ایسے جب سرے سے بات ہی نہیں تو ماہرانہ رائے زنی کا فائدہ کیا؟ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جو نکات ملاقات میں اُٹھائے تھے اُن کا کیا بنتا ہے۔ موجودہ حکومت کے شروع کے دنوں میں جب پنجاب کے چیف منسٹر سردار عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی تھی تو اُن سے بھی گزار ش کی تھی کہ پلاسٹک کے شاپروں پہ فوراً پابندی عائد کر دیں۔ تب ڈاکٹر شہباز گل چیف منسٹر کے خصوصی معاون تھے اور ملاقات میں موجود تھے۔ مجھ سے کہا گیا کہ سمجھیے پابندی لگ گئی‘ اگلے ہفتے اِس کا نوٹیفکیشن ہو جائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن، ذکر کبھی کبھار پلاسٹک کے لفافوں کا ہو جاتا ہے لیکن ان کے بے دریغ استعمال پہ کوئی کنٹرول نہیں۔ جہاں تک محکمہ ایکسائز کا تعلق ہے اُس کا بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا بنتا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری جرأت کریں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے‘ لیکن جن کی اپنی شامیں ٹھیک ہوں انہیں دوسروں کی شاموںکی اتنی کیا پروا؟