سال کے یہ دِن جب موسم سرد اورشامیں لمبی ہوتی ہیں توخیال پھر اور چیزوں کی طرف جاتاہے۔ہمارے سیاستدانوں نے پتا نہیں کون سا موسم چُنا ہے شور مچانے کیلئے حالانکہ سردی کے دن اوراُداس شاموں کو بیکار کی سیاسی گفتگو کی نذر کردینے سے کوئی بڑی زیادتی نہیں ہوسکتی۔ بیشتر سیاسی لیڈروں کے معاشی حالات ٹھیک ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے جلسوں میں بھی آنا ہو تو جو تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے وہ تھوڑے وقت کیلئے ہوتی ہے۔مارے تو بیچارے عوام جاتے ہیں جنہیں سردی اورمسافت برداشت کرنی پڑتی ہے۔
اِ ن شاموں میں تو آگ جل رہی ہو‘ڈرائی فروٹ کا سامان ہواورموسیقی کا اہتمام۔ اگر کمپنی بھی اچھی مل جائے تو انسان مولا سے اور کیا مانگے۔ ہماری شامیں تونسبتاً سادگی سے گزرتی ہیں۔ خود ہی ہوتے ہیں اورساتھ کوئی کتاب یا پڑھنے سے تھکاوٹ ہوجائے تو پھر کچھ موسیقی ہوجاتی ہے۔ لاہور کا رُخ ہوا تو بھلی کمپنی کا اہتمام بھی ہو جاتاہے۔ لیکن ہماری نسبتاً سادگی کے برعکس کچھ ایسے خوش نصیب لوگوں سے بھی آشنائی ہے جو شاموں کو نہایت ہی رنگین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ذوق اُن کا‘ لیکن یہاں صرف ذوق سے کام چلتانہیں۔ رزق میں وسعت بھی ضروری شرط ہے۔
ہمارے ایک جاننے والوں کا تعلق وسطی پنجاب کے ایک بڑے شہر سے ہے۔ رہتے وہاں ہیں لیکن چونکہ رزق میں وسعت ہے اس لئے ڈیفنس لاہور میں ایک بنگلہ لیا ہواہے‘اب میں کیا کہوں کس لیے لیا ہواہے۔ بس یوں سمجھیے کہ آرام کیلئے یا جسے انگریزی میں ریلیکسیشن (relaxation)کہتے ہیں۔ ویکنڈیعنی جمعے یا ہفتے کی شام کو اپنے شہر سے اس بنگلے میں آگئے جہاں کسی محفل کا اہتمام ہوجاتاہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کی ایسی محفلوں میں کوئی بھیڑ یا کسی قسم کا ہنگام نہیں ہوتا۔ بس میزبان ہوئے ایک آدھ اوردوست ا اورہم ہوئے۔ موسیقی کا بندوبست آج کے کمپیوٹر کے دورمیں مشکل نہیں۔ بڑا سا سپیکر جس میں ہر چیز ہوتی ہے ہال روڈ یا کہیں اورسے آسانی سے دستیاب ہیں۔ اپنے موبائل میں Bluetoothآن کیا اورجوبھی پسند کی موسیقی ہو بڑے بڑے سپیکروں سے آنے لگتی ہے۔یوں تو وہ تاریخی محلہ جو مشہورِ زمانہ سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے تقریباً ویران ہوچکاہے۔ پرانے گھرانے جو اپنے فن کے لحاظ سے مشہور ہوا کرتے تھے کب کے اُس علاقے کو چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن جو کاروبارِ زندگی ایک عرصے تک اُس علاقے کی پہچان تھااب لاہور کے نئے یا ماڈرن علاقوں میں منتقل ہوگیاہے۔ ڈیفنس لاہور میں تو باقاعدہ مستند قسم کی اکیڈمیاں ہیں جہاں مختلف فنون کی تربیت دی جاتی ہے۔اس میں رقص بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے جہاں ایسی اکیڈمیاں ہوں وہاں متعلقہ فن کی کھپت یا ڈیمانڈ بھی ہوگی۔ محفلیں نہ سجیں تو فن پانے والے اپنے فن کا مظاہرہ کہاں کریں۔
لیکن پاکستان میں جو ماحول پیدا ہوچکاہے اُس کے پیش نظر ایسی محفلیں اب نجی نوعیت کی رہ گئی ہیں۔ سردار ہیرا سنگھ کے محلے کی روشنیاں تو ماند پڑچکی ہیں۔ وہاں فن کا مظاہرہ اور نوعیت کا ہوا کرتاتھا۔ شام کے مخصوص اوقات گھرانوں میں آنے جانے کی کوئی قدغن نہ ہوتی تھی۔ جس کی جیب کی استطاعت اجازت دیتی وہ ایسے گھرانوں میں قدم رنجہ ہوسکتاتھا۔ لیکن کیونکہ بہت کچھ اُجڑ چکاہے اور فن کی نمائش کرنے والوں کو بوجہ مجبوریِ حالات اپنے پرانے مسکنوں کو چھوڑ کے نئے مسکن ڈھونڈنے پڑے ہیں نمائشِ فن کے طریقہِ کار بھی بدل گئے ہیں۔ اب نجی گھروں میں فن کی محفلیں سجتی ہیں۔ لیکن سمجھنے والے یہ سمجھ رکھتے ہوں گے کہ ایسا سارا اہتمام بہت مہنگا پڑتاہے اورہر ایک کی دسترس میں ا ب یہ کام نہیں رہا۔شوقین مزاج ہونا تو اور بات ہے۔شوقین مزاجی پہ کوئی پیسہ نہیں لگتا۔ لیکن ایسی محفلوں کا صحیح انتظام استطاعت مانگتاہے۔ یعنی ایک تو آپ کے پاس معقول جگہ ہو۔ کوئی بیچارا لاچار کسی نچلے درجے کے محلے میں ایسی محفل کا اہتمام کرے تو پولیس کا چھاپہ پڑ جائے۔ موسیقی کی آواز گلی محلے میں گئی نہیں کہ پولیس کو اطلاع ہوجاتی ہے اورجہاں کمزور ی یا لاچاری نظر آئے پولیس کی پھرتیاں پھر دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ البتہ دیواریں اُونچی ہوں‘ گیٹ بڑے ہوں اور اُن پہ پہرے دار بھی متعین ہوں توپھر پولیس کا نظریۂ انصاف یکسر مختلف ہوتاہے۔ اول تو پولیس اُونچی دیواروں کے قریب بھٹکتی نہیں اورچھاپے کا تصور تو یکسر محال ہوتاہے۔ یعنی جیسے معاشرہ طبقات میں بٹہ ہوا ہے بالکل انہی لائنوں پہ فن کی نمائش کے تقاضے بھی طبقات کی بنیاد پہ متفرق پائے جاتے ہیں۔
اس ساری وضاحت کا حاصل یہ کہ شوق رکھنا کافی نہیں۔ شو ق کے پالنے کیلئے موزوں جگہ کا ہونا بہت اہمیت رکھتاہے۔ ہمارے وسطی پنجاب کے دوست کا بنگلہ لاہور کے آزاد علاقے میں ہے۔یعنی کسی قسم کی بدمزگی کا خطرہ وہاںہونہیں سکتا۔ ایک شام ہماری فن کی محفل ختم ہوئی تو میں نے میزبان سے پوچھا کہ فلاں فلاں چیز پہ کتنے پیسے لگے ہیں۔ یعنی شام آپ کو کتنے میں پڑی۔ آرٹسٹ بہت ہی خوب تھے اوراپنے فن پہ دسترس اُن کی مکمل تھی لیکن آپ اُنہیں ٹاپ رینکنگ نہیں کہہ سکتے تھے۔ اس لحاظ سے ان کا معاوضہ بھی وہ نہ تھا جو کہ ٹاپ رینکنگ آرٹسٹوں کا سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی ساراکچھ ملاکے‘ کھانا بھی کسی شنواری سے آیاتھا اورکھانے کے ساتھ جو لوازمات ضروری سمجھتے جاتے ہیں ظاہر ہے اُن کا بھی معقول بندوبست تھا‘ پھر بھی یہ درمیانے قسم کا خرچہ ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتاتھا۔ میرے جیسوں کیلئے ایک شام کا اتنا خرچہ بہت زیادہ لگتاہے۔ لیکن واقفانِ حال خوب جانتے ہوں گے کہ شوق کے اِس بازار میں ڈھائی لاکھ رقم کچھ بھی نہیں۔ ایسے ایسے خرچے اِن محفلوں کے اہتمام میں کیے جاتے ہیں کہ سُن کے انسان کے ہوش اُڑ جائیں۔ لیکن ایسا ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہرچیز زندہ ہے۔مختلف فنون زندہ ہیں اور فن میں مہارت رکھنے والوں کی تعداد بھی اتنی کم نہیں۔ یہ توآپ یوٹیوب پہ جاکے دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ایسے فن کا مظاہرہ کرنے والے ہیں کہ آدمی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لاہور میں تھیٹروں کی تعداد کم نہیں۔اِن میں جو آرٹسٹ لوگ پرفارم کرتے ہیں وہ بھی اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن حالات کا جبر ایسا بن چکاہے کہ یہ سارا سودا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ لندن کے ویسٹ اینڈ (West End)اورنیویارک کے براڈوے (Broadway) میں متوسط آمدن والے بھی ٹکٹ خرید کے ڈانس یا سٹیج کی پرفارمنس دیکھ سکتے ہیں۔ نائٹ کلب کھلے ہیں‘ اُن میں جانے پہ کوئی پابندی نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کیونکہ وہ حالات نہیں رہے جو بھلے زمانوں میں ہوا کرتے تھے تو سب کچھ انڈر گراؤنڈ چلا گیاہے۔
بہرحال اس صورتحال پہ اِتنا کیارونا۔جو حالات ہیں وہی رہیں گے اوراِنہی میں لوگوں کو اپنا راستہ تلاش کرنا ہے۔ ایک بات میں واضح کرتا چلوں کہ ہمارے وسطی پنجاب کے دوست کے ہاں کسی قسم کی نیچ حرکت یا بیہودگی نہیں ہوتی۔ فقط فن کی نمائش لیکن اس پائے کی کہ کئی دن اِس فن کے دیکھنے کا نشہ ذہن پہ رہتاہے۔ ایک دوروز ہوئے ہیں شام کو ترنگ کی کیفیت میں اپنے دوست کو فون کیاکہ نئے سال کی شام کو میرے گاؤں میں محفل کرتے ہیں۔آرٹسٹوں کا بلانا آپ کے ذمے لیکن خرچہ ہمارا ہوگا۔ باقی انتظام بھی ہمارا۔دوسرے دن حساب لگایا تو پتا نہیں کہاں تک پہنچ جاتاتھا۔ دوست کا فون آیا کہ کیا انتظامات کرنے ہیں۔ہم سے صرف اتنا کہنا ہوا کہ چھوڑو رات کی باتیں‘ رات گئی بات گئی۔