جو دو بلین ڈالر سعودی عرب نے پاکستان سٹیٹ بینک میں رکھوائے تھے اُن کا مطالبہ واپس کرنے کا ہوا تو بجا طور پر سمجھا گیا کہ اُن کی طرف سے یہ ناراضگی کا اظہار ہے۔ پچھلے سال 6 اگست کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سب کو حیران کر دیا تھا‘ جب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر اسلامی کانفرنس کشمیر پہ پاکستان کے مؤقف کے حق میں آواز نہیں اٹھاتی تو کیا پتا ضرورت اس امر کی ہو جائے کہ ایک نئے اسلامی بلاک کی تشکیل کرنی پڑے۔ یہ بات کئی جگہوں پہ قطعاً پسند نہ کی گئی اور اس کے بعد ناراضگی کا اظہار ہونے لگا۔ جمع کرائے گئے ڈالروں کی واپسی کا تقاضا ہوا۔ پاکستان نے ایک بلین ڈالر واپس کئے اور کچھ عرصے بعد دوسرا بلین ڈالر بھی واپس کر دیا۔ پاکستان کو دوست ملک سے لیٹ پیمنٹ پر پٹرول کی ترسیل کی سہولت بھی میسر تھی۔ عندیہ ہوا کہ یہ سہولت ختم کردی جائے گی۔ موجودہ حکومت نے اس کو بھی برداشت کیا۔ اس دوران پاکستان کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سعودی عرب گئے لیکن بظاہر ایسا ہی معلوم ہوا کہ دورہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ سمجھنے کی بات البتہ یہ ہے کہ پاکستان نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور اسلام آباد میں کچھ زیادہ تلملاہٹ کا مظاہرہ نہ ہوا۔ یہ ایک نئی بات تھی کیونکہ اس قسم کی ناراضگی کا خطرہ پاکستانی حکومتوں نے کبھی پہلے مول نہ لیا تھا۔ کسی وجہ سے بھی سعودی ناراضگی پاکستان کو قبول نہ ہوتی۔ اِس کی نظیر نہیں ملتی کہ اس طرف سے ایسی خفگی کا اظہار ہوا ہو اور ہم نے بغیر زیادہ پریشان ہوئے ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہو۔
پھر 21دسمبر 2020ء کو اسلام آباد میں سعودی سفیر نواف بن سعیدالمالکی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ اُن کے ہمراہ اُن کے چند معاونین تھے اور پاکستانی سائیڈ سے بھی دوسرے عہدیدار میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ میٹنگ وہیں اُس وسیع لان میں ہوئی جہاں سردیوں کی دھوپ میں وزیر اعظم بیٹھتے اور مہمانوں سے ملتے ہیں۔ میٹنگ کی کچھ ٹی وی کوریج بھی بعد میں دکھائی گئی اور وزیراعظم کی باڈی لینگوئج سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ کس انداز سے سعودی سفیر سے گفتگو کررہے ہیں۔ یوٹیوب پہ بہ آسانی یہ فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے۔ اس فوٹیج میں ایک وہ لمحہ بھی آتاہے کہ وزیراعظم اپنا دایاں ہاتھ کھڑا کرکے کسی نکتے پہ زور دے رہے ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان السعود پاکستان آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سارے عرصے میں چند عرب ممالک کے تعلقات اسرائیل سے استوار ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں اوریہ رپورٹیں بھی آئی ہیں جس کی سعودی عرب نے تصدیق نہیں کی کہ ایک خفیہ میٹنگ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان اوراسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی کسی مقام پہ ہوچکی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ کسی طرف سے پاکستان پہ دباؤ آیا ہوکہ اسرائیل کی طرف اپنے سخت رویے میں کچھ لچک پیدا کرے لیکن پاکستان نے واشگاف الفاظ میں کہاہے کہ فلسطین کے مسئلے کے حل ہونے سے پہلے پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کس بنا پہ پاکستان یہ سب پریشر برداشت کرگیا ہے؟ دو وجوہات بنتی ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان کی حکومت اور جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں‘ میں کوئی دراڑ نہیں۔ اسی وجہ سے اس صورتحال کے سامنے پاکستان کا ردِعمل ہمہ جہت رہا ہے۔ وزیراعظم کا بھی وہی مؤقف اور آرمی چیف کا بھی وہی۔ دوسری وجہ یہ کہ پاکستان کو چین کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اسی حمایت کی وجہ سے پاکستان سعودی رقم بہ آسانی واپس کر سکا ہے۔ سعودی وزیرخارجہ کے متوقع دورے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہاجا سکتاہے کہ جہاں پاکستان کی کوشش تھی کہ باہمی تعلقات میں زیادہ بگاڑ نہ آئے وہاں سعودی عرب کو بھی احساس ہورہاہے کہ پاکستان کے ساتھ ایک حد سے زیادہ تعلقات کا خراب ہونا اچھی بات نہیں۔
خارجہ محاذ پہ جہاں یہ سب کچھ ہورہا تھا اندرونی طورپہ اسی دوران پی ڈی ایم کی تحریک کو کھڑا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس تحریک کا پہلا بڑا معرکہ گوجرانوالہ کا جلسہ تھا۔ اس میں سب نے نوازشریف کی تقریر سُنی۔ جنرل باجوہ اورجنرل فیض کانام لے کر جس لہجے میں انہوں نے باتیں کیں اور جس قسم کے الزام لگائے اِس کی مثال ملکی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے جنرل یحییٰ خان کے بارے میں ایسا لہجہ کبھی نہ اختیار کیا۔ مشرقی پاکستان علیحدگی کے دہانے پر تھا لیکن پھر بھی ایسی زبان نہ استعمال کی گئی۔ یہ پوچھا تو جاسکتا ہے کہ نوازشریف نے کیوں ایسے لب ولہجہ کی ضرورت محسوس کی۔ ایک سال پہلے فوج کے سربراہ کی میعادِ ملازمت کی توسیع کا قانون قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو نون لیگ نے اُس کی بھرپور تائید کی تھی۔ لندن بھی انہیں جانے کا راستہ مہیا کیاگیا۔ وہاں بھی کافی عرصہ انہوں نے چپ سادھے رکھی۔ پھر اچانک ایسی کیا بات ہوئی کہ انہوں نے تمام احتیاط کی حدوں کو پھلانگنے میں ہی بہتری سمجھی؟ اُن کے ہمنوا کون ہیں؟ دواشخاص، ایک محمود خان اچکزئی اور دوسرے مولانا فضل الرحمن۔ اچکزئی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع آئے تو وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ لیکن مولانا جو زبان استعمال کررہے ہیں، اُس کے پیچھے کیا ہوسکتا ہے؟ مبصرین کسی ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے نہ بھی ملائیں تو سوال بہرحال ذہنوں میں اُبھرتے ہیں۔
یہ اور بات کہ پی ڈی ایم کی تحریک دم توڑ چکی ہے۔ بات کچھ بنی نہیں۔ نوازشریف اور مولانا کااحتجاج جلسوں تک ہی محدود رہا، نہ استعفوں تک بات پہنچی نہ سڑکوں پہ لوگ آنے کو تیار ہوئے۔ جیسے کسی کا حلق خشک ہو جائے‘ نوازشریف کا لہجہ بھی وہ نہیں رہا جو گوجرانوالہ کے جلسے میں تھا۔ جب بات ہی آپ نقطہ عروج سے کریں تو اُس سے آگے آپ کی بات نے نیچے کی طرف ہی جانا ہے۔ نوازشریف اورمولانا کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے۔
کسی حکومت کی کارگزاری پہ لاکھ تنقید ہوسکتی ہے۔ اگلے روز مجھے اتفاق ہوا ذوالفقار علی بھٹو کی ایک 1973ء کی تقریر سننے کا‘ جب انہیں اقتدار میں آئے بمشکل ایک سال ہواتھا۔ تقریر میں وہ استدلال دئیے جارہے تھے کہ مہنگائی کی ساری کی ساری ذمہ داری اُن کے کندھوں پہ نہیں ڈالی جاسکتی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہر حکومت کو مسائل کا سامنا ہوتاہے، خاص طورپہ ہمارے جیسے ممالک میں جہاں حکومتیں چیلنجز میں گھری رہتی ہیں۔ قیمتوں کے مسئلے میں موجودہ حکومت سے حماقتیں بھی سرزد ہوئی ہیں‘ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ بنیادی مسئلوں پہ جہاں حکومت ڈٹی ہوئی ہے‘ وہیں کھڑی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایک مثال ہیں۔ ہمارے لئے یہ نہایت ہی حساس معاملہ تھا‘ لیکن یہ اچھی بات نہیں ہوئی کہ عمران خان نے کوئی معذرت خواہانہ انداز نہیں اپنایا؟ پسینے حکومت کے نہیں چھوٹے۔ وَقتی دِقت ضرورہوئی لیکن اُسے عبور کرلیا گیااور اب تعلقات میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔
کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بنیادی طور پہ وزیراعظم اکڑ خان قسم کا آدمی ہے۔ مزاج آمرانہ ہے۔ ساری زندگی کسی کے پریشر میں نہیں آیا، کرکٹ کی کپتانی اپنے انداز میں کی، کیا اُس نے اِن پی ڈیم والوں کے پریشر میں آناہے؟ ایک لحاظ سے یہ پی ڈی ایم کی تھکی ہوئی تحریک حکومت کیلئے اچھی ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی چال میں زیادہ پھرتی اورتیزی آگئی ہے۔ تھکی ہوئی اپوزیشن جماعتیں لگتی ہیں۔ ابھی توسال کاآغاز ہوا ہے۔ سال کے ڈھلتے ڈھلتے اپوزیشن کی تھکاوٹ پتا نہیں کن انتہاؤں کو چھونے لگے۔ سیاست میں بنیادی نکتہ کسی ایشو کا ہونا ہے۔ پی ڈی ایم والوں کے پاس کوئی ایشو نہیں۔ عوام نے ان کی بات پہ کیا دھیان دینا ہے۔