نظریے کی نزاکتوں سے پاکستان ابھی تک فارغ نہیں ہوا۔ ملک کیوں بنا؟ قیام پاکستان کے مقاصد کیا تھے؟ وجودِ پاکستان کے اتنے سال بعد ایسے سوال اَب بھی پوچھے جاتے ہیں۔ اور سنجیدہ حضرات اب بھی مُصر ہیں کہ پاکستان ایک خاص مقصد کیلئے بنا۔ ورثے میں ملی بہت سی چیزوں کوہم تباہی کے دہانے تک پہنچا چکے لیکن اصرار پھربھی نظریے نہ کہ درست حکمت عملی پہ ہے۔ نظریہ والوں کا حصہ پاکستان کے بننے میں کچھ زیادہ نہ تھا۔ قائداعظم کی سیاسی سوچ بالکل مختلف نوعیت کی تھی جس کی واضح عکاسی اُن کی آئین ساز اسمبلی کے سامنے11 اگست 1947ء کی تقریر ہے، ایک ایسا خطاب جس سے نظریے والوں کے پیٹ میں مروڑ آ جاتے ہیں۔ بہرحال دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے عناصر کی شروع دن سے یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے مخصوص خیالات اور ترجیحات کی چادر نئے ملک پہ چڑھائیں۔ یہ ماننا پڑے گاکہ ایسے لوگ اپنی کوششوں میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ آج کا پاکستان قائداعظم کی سوچ کی عکاسی نہیں کرتا۔ جس قسم کی رجعت پسندانہ سوچ کا تسلط ہمارے معاشرے پہ قائم ہو چکا ہے یہ قائداعظم کی سوچ کی سراسر نفی ہے۔ کچھ تو قائد اعظم کے بعد ہمارے انگریزی دان لیڈر کمزور دل اور کمزور عقیدہ ثابت ہوئے۔ قائداعظم کی سوچ کی وہ صحیح پاسداری نہ کرسکے، دوسرا دائیں بازوکی سوچ کے حامل افراد اپنی اپروچ کے زیادہ پکے نکلے۔ قیام پاکستان پہ وہ اپنی تشریح تواتر سے ٹھونستے رہے حتیٰ کہ ریاست ان کی ہمنوا بنتی گئی۔
ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اور جنہوں نے یہاں اپنے نظریاتی قلعے قائم کرلیے۔ قیام پاکستان کے مخالف تھے، قائداعظم کے ذاتی طور پہ مخالف تھے، انہیں بُرا بھلا کہتے رہے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد یہاں آکے انہوں نے قیام پاکستان کی ایک نئی تشریح دینا شروع کر دی۔ تب اِس تشریح کو نظریہ پاکستان نہیں کہاجاتا تھا۔ یہ اصطلاح جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات میجر جنرل نوابزادہ شیر علی خان کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی‘ لیکن اصطلاح ایک طرف، بنیاد اس نظریے کی بہت پہلے ڈال دی گئی تھی۔ جنرل ضیاالحق کے زمانے میں یہ نظریہ مزید پختہ ہو گیا حتیٰ کہ جناح کا پاکستان بس نام کا رہ گیا۔
بلوچستان کے علاقہ مچھ میں جو کچھ ہوا‘ اُس کے بارے میں یوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشتگردی کے ایسے واقعات ہر ملک میں رونما ہو سکتے ہیں۔ ایک حد تک یہ درست ہے، امریکا میں ہوئے ہیں، نیوزی لینڈ میں بھی ایک بہت بڑا واقعہ ہوا، لیکن فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑی شدّومد سے ایک ایسا ماحول پیدا کیاگیا جس میں مذہب کی بنیاد پہ فرقہ واریت اورنفرت کو ہوا دی گئی۔ ریاست کی اعلان کردہ پالیسی یہ نہ تھی لیکن ضیاالحق کے زمانے میں عمومی ماحول جو بنتا گیا حکومتِ وقت نے اُس ماحول کو روکنے کے بجائے اُسے تقویت دی۔ پہلے وقتوں میں اِکا دُکا فرقہ وارانہ تصادم ہو جاتے تھے لیکن جیسی فرقہ واریت نے ضیا دور میں جنم لیا اور جو اَب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے‘ ایسے حالات پہلے نہیں ہوا کرتے تھے۔
ہماری تباہی کا سب سے بڑا فیکٹر تو نام نہاد افغان جہاد تھا۔ اُس جہاد کی قیادت خاص قسم کے فرقوں کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی نظریاتی سوچ وہی تھی جو نام نہاد مجاہدین کی تھی‘ اور ان کے پیچھے جو مسلم ملک اپنے دولت کے ساتھ کھڑا تھا اُس کی سوچ بھی نظریے کے اعتبار سے انتہا پسندی کی حامل تھی۔ نام نہاد افغان جہاد سے ہم نے کچھ حاصل کیا یا نہیں ہم نے افغانستان کے مسائل کو کھینچ کے اپنے ملکی وجود کا حصہ بنا ڈالا۔ اسلحہ اور ہیروئن تویہاں آئے ہی لیکن اس سے زیادہ مُہلک وہ روش تھی جس کے تحت پاکستان کی نظریاتی ہیئت انتہاپسندی کی طرف مزید جھک گئی۔ مچھ میں جو بدنصیب ہزارہ قبیلے کے کان کُن مارے گئے ہیں اُن کی ہلاکت کے پیچھے جس کسی کا بھی ہاتھ ہے یہ بات تو ہم جانتے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں کہ بلوچستان کے ہزارہ قبیلے کے لوگ انتہا پسندی کا نشانہ بنے ہیں۔ بحیثیت معاشرہ یہ ہماری ناکامی ہے کہ بلوچستان کے ہزارہ قبیلے کو ہم تحفظ فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ یہ تازہ ترین واقعہ ایک طویل اور اندوہناک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اوپر سے وزیر اعظم کا روّیہ سمجھ سے بالاترہے۔ ہزارہ قبیلے کے لوگوں نے وہاں جو دھرنا دیا ہوا ہے وہ کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ سربراہ حکومت انہیں دلاسہ دے، اُن کے آنسو پونچھے۔ اور وزیراعظم ہیں کہ اتنے دنوں سے صرف اتنا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اِن کے سیاسی مخالفین وہاں پہنچ گئے لیکن پتا نہیں کس بنا پہ اِن کے قدم رُکے ہوئے ہیں۔ جسے آپ انگریزی میں Failure of leadership یعنی قیادت کی ناکامی کہتے ہیں یہ اُس کا ایک افسوسناک مظاہرہ ہے۔ عمران خان کو تو وہاں پہلے دن پہنچ جانا چاہیے تھا۔ اُن کے نہ جانے پہ جو تحریر لکھی جانی چاہیے تھی وہ ہمارے دوست رؤف کلاسرا نے لکھ دی۔ مفصّل، موزوں اور برحق۔ الفاظ بھی نپے تُلے جن سے افسوس سے زیادہ صدمہ جھلکتا ہے۔ کیا وزیراعظم کو سمجھانے والا کوئی نہیں؟ آپ کی سکیورٹی کیلئے فوج، فرنٹیئر کور اور پولیس موجود۔ آپ نے وہاں جانا تھا تو حفاظتی گھیرے میں۔ المیہ ہوا ہے تو اُن بیچاروں کے ساتھ جو کتنے دنوں سے وہاں چوک میں بیٹھے المیے کے بعد سرد راتوں کا ستم بھی برداشت کررہے ہیں۔
پاکستان بننے کے محرکات جو بھی تھے، بیشک اس سوال پہ ہم بحث کرتے رہیں، لیکن جب نیا ملک حقیقت کا روپ دھار چکا تھا تو ہم پہ لازم نہ تھاکہ ہم ڈھنگ کی ریاست بناتے؟ جو ترقی ہونی چاہیے تھی وہ ہم کر نہ سکے‘ لیکن نظریاتی تشریح کرتے کرتے ہم نے ایک گھٹن زدہ معاشرہ بنا ڈالا۔ کیا قائداعظم ایساچاہتے تھے؟ اُن کی سوچ ایسی ارتقا کی اجازت دے سکتی تھی؟ اورہم نے کیا کرنا ہے، ہم سے صحیح تاریخ نہیں لکھی گئی۔ قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کے حوالے سے ہم نے ایسی ایسی کہانیاں مرتب کی ہیں جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جو تاریخِ پاکستان اور پاکستان سٹڈیز ہمارے سکولوں اورکالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں کیا وہ حقیقت کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں؟ متحدہ ہندوستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ مسجدوں پہ کوئی تالے یا پہرے نہیں لگے ہوئے تھے۔ یہ ایک سیاسی سوچ تھی کہ مسلمانوں کو سیاسی تحفظ کی ضرورت ہے۔ قائداعظم کا تصورِ پاکستان ایک ماڈرن ریاست کا تصورتھا۔ یہ تو نظریات کے ٹھیکیداروں نے اپنی اپنی تشریحات دینا شروع کردیں کہ پاکستان کا مطلب یہ اور فلاں تھا۔
بہرحال جو بھی ہوچکا، جتنا بھی ہم نے اپنا چہرہ بگاڑ لیا، اب وقت نہیں آگیا کہ ہم حالات کی درستی کی طرف چلیں؟ یہ ذہن میں رہے کہ نریندر مودی ہمارے راستے پہ چل رہا ہے۔ اچھی بات ہے چلتا رہے، ہم تو اپنا راستہ تبدیل کرلیں۔ فرقہ واریت اور نفرت یہاں بہت ہو چکی۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی عوام متعصب ذہنیت کے مالک نہیں۔ یہ تو معاشرے کے خود ساختہ لیڈر ہیں جو ایسی نفرتوں پہ اپنی بھونڈی دکانیں چمکاتے ہیں۔ ذہنوں پہ تالے بھی بہت ہو چکے، انہیں بھی اَب توڑنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو ایک بے خوف قیادت کی ضرورت ہے جو نفرت پھیلانے والوں کو للکار سکے اور جو مصلحتوں کی شکار نہ ہو۔ ایک اچھی بات ہوئی ہے کہ جن دوست ممالک کے گھناؤنے اور خطرناک سائے ہمارے قومی وجود پہ منڈلاتے رہے ہیں‘ وہ حالات کے جبر کے تحت ماند پڑ رہے ہیں۔ بیرونی محاذ پہ پاکستان نئی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ یہ درست سمت کی طرف ایک قدم ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اندرونی طور پہ بھی تعصب، نفرت اور تنگ نظری کی دیواریں منہدم ہوں۔