یہ ایئر پورٹ جو لاہور کے گلبرک تھری سے متصل ہے‘ اب ختم ہونے کو جارہاہے۔ اس کی جگہ وہ ہوگا جسے ہم پاکستان میں ڈویلپمنٹ کا نام دیتے ہیں‘ یعنی کچھ اونچی عمارتیں بن جائیں گی ‘ زیادہ نہیں تو ایک دو شاپنگ مالز تو ضرور ہوں گے کیونکہ اب لگتاہے کہ پاکستان کا گزارہ ان شاپنگ مالز کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ہماری قومی زندگی کا ایک جزو یہ مالز ہیں اور دوسرا جزو شادی ہال ہیں۔ تصورِ ریاست اب ان دوچیزوں کے بغیر ناممکن ہے۔
والٹن ایئرپورٹ پہ اب چھوٹے جہازوں کی ہی اڑان ہوتی تھی ۔ یہاں سے یہ کارروائی ختم ہوئی تو کہیں اورمنتقل ہوجائے گی۔ ہماری کچھ یادیں البتہ اس ایئرپورٹ سے منسلک ہیں۔ ہماری پرانی رجمنٹ 36لائیٹ کی لوکیشن اس ایئرپورٹ سے کچھ فاصلے پہ تھی ۔ اب بھی شاید رجمنٹ کا قیام وہیں پہ ہے ۔ جب 1971ء کی جنگ کا بِگل بجا تو ہم اسی لوکیشن سے آگے کی طرف گئے ۔ ہماری رجمنٹ کا دائرہ ٔذمہ داری بہت وسیع تھا۔ رجمنٹ کی ایک بیٹری کی تعیناتی وزیرآباد پُل پہ تھی ۔ ایک بیٹری ہیڈ سلیمانکی جو کہ دریائے ستلج پہ واقع ہے‘ کے دفاع پر مامورتھی۔ ایک بیٹری پرانے راوی پُل پہ متعین تھی ۔ اورجس بیٹری میں میں تھا اُس کو دریائے راوی اور بی آر بی کینال کے سنگم پہ واقع جو سائیفن ہے‘ اُس کے دفاع کی ذمہ داری دی گئی تھی ۔ یعنی ہماری تب حالت یہ تھی کہ سلیمانکی سے لے کر وزیرآباد پُل تک ایک ہی ایئر ڈیفنس رجمنٹ تھی جو اِن تمام مقامات کا دفاع کررہی تھی ۔
جنگ کے کچھ روز بعد جب ہندوستانی فضائی حملے زیادہ ہوگئے تو یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ کچھ فالتو توپیں بھی ہونی چاہیں جو اِدھر اُدھر جاسکیں۔ فالتو گنیں کیا ہونی تھیں ‘ رجمنٹ کے بیچ میں سے ہی آٹھ طیارہ شکن توپوں کو نکالا گیا اوراُن کی کمانڈ مجھے سونپ دی گئی ۔ پتوکی کے قریب ایک ریلوے پُل تباہ ہوا تو مجھے وہاں جانا پڑا ۔ ایک دو اورحملوں میں نقصان ہوا تو وہاں کا رُخ کرنا پڑا۔ ساری ساری رات بغیر لائٹوں کے دسمبر کی سردی میں ہماری کانوائے کو اِدھر سے اُدھر سفرکرنا پڑا۔ پھر مجھے حکم ملا کہ ہیڈ سلیمانکی کے قریب فرسٹ آرمڈ ڈویژن کا حملہ ہونا ہے ۔ جہاں سے دریائے ستلج کا عبور ہوگا وہاں طیارہ شکن توپوں کی ضرورت ہے ۔ ہیڈ سلیمانکی پہنچے ہی تھے کہ آرڈر ملا کہ حملہ یہاں سے نہیں ہونا بلکہ لاہور کے شمال سے ہوناہے ۔ وہاں کا رُخ کیا تو اُس رات جنگ بندی کا اعلان ہو چکاتھا۔ بہرحال جنگ ختم ہوتے ہی میرے لئے آرڈر آیا کہ اپنی گنیں لے کر لاہور کے والٹن ایئرپورٹ پر پہنچ جاؤں۔
اب یاد نہیں پڑتا کہ والٹن ایئرپورٹ پہ قیام کتنا لمبا تھالیکن دو تین ماہ کا تو ہوگا۔ سول ایوی ایشن والوں کا ایک کمرہ تھا اُس پہ میں قابض ہو گیا۔ ساتھ میرے ایک اور افسر بھی اُس کمرے میں رہے ۔ اب اُن کا نام بھی بھول گیا ہوں اورکام بھی لیکن اتنا یاد ہے کہ نہایت شریف النفس اورخوش مزاج انسان تھے ۔ وہاں کے قیام میں ہم نے تو اپنی حرکتیں شروع کردیں۔ کمرہ ایک ہی تھا جو کچھ ہوتا اُن کے سامنے ہوتا۔ شریک وہ کبھی نہ ہوتے لیکن منہ دیوار کی طرف کرکے ہنسنا شروع ہوجاتے ۔میری خوش قسمتی کہ باقی ساری رجمنٹ کی تعیناتی اِدھر اُدھر تھی صرف میں تھا جو لاہور میں رہ کر نسبتاً عیاشی کررہاتھا۔ عیاشی اس لحاظ سے کہ ٹینٹوں میں رہنے سے بہتر تو اُس کمرے میں قیام تھا۔ گلبرک تھری میں تب آبادی بہت کم تھی ۔ آدھا جنگل ہی لگتاتھا۔ جنگ کے دوران ایک بم والٹن ایئرپورٹ کی رن وے پہ گرا جس سے ایک بڑا گڑھا بن گیاتھا۔ راتوں کو بلیک آؤٹ ہوتالیکن سارا دن آس پاس کی گلبرک اور ماڈل ٹاؤن کی آبادیوں سے لوگ والٹن ایئرپورٹ پہ آتے۔ اُس گڑھے کو دیکھتے اورہماری توپوں کا ملاحظہ کرتے۔ جنگ کے فوراً بعد اور کوئی تفریح تھی نہیں تو لاہوریوں نے والٹن ایئرپورٹ کی سیر کو ہی تفریح بنالیا۔ ہماری عمر تب کیا تھی ‘ بمشکل اکیسویں سال میں پہنچے تھے ۔رنگ برنگے قسم کے لوگ وہاں آتے اورہم بھی یونیفارم پہنے مزے مزے لے کے اُنہیں دیکھتے رہتے۔اورکوئی کام تھا نہیں‘ دن اسی مصروفیت میں گزر جاتا۔
ایک شام سوٹ پہنے ہم شہر کی طرف نکل گئے ۔ایک ٹیکسی پکڑی اورٹیکسی ڈرائیور سے بات چیت میں معلوم ہوا کہ میکلورڈ روڈ پہ واقع لاہور ہوٹل کے سامنے مختلف فرائض پورے کرنے کیلئے سہولت کار موجود رہتے ہیں۔ وہاں چل دیے ۔نہایت ہی نفیس آدمی سے وہاں پالا پڑا۔ وہ ہمارے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ گئے اورسمن آباد لے گئے ۔ مختلف مقامات پہ گئے اوراس چیز سے متاثر ہوئے کہ اُس نفیس انسان کی معلومات بہت گہری ہیں ۔ بہرحال سیروتفریح کی غرض سے ہماری یاترا رائیگاں نہ گئی۔ یاد رہے کہ لاہور میں بلیک آؤٹ رہا کرتا تھایعنی پورے شہر میں شام ڈھلے کوئی بتی نہ جلتی ۔ اندھیرے میں سوٹ پہنے ہم ٹیکسی میں پھر رہے ہیں‘ کبھی ایک مقام پہ کبھی دوسرے پہ ‘ اورپھر رات گئے واپس والٹن ایئرپورٹ پہنچے۔ ہمارے کمرے کا ساتھی ہمیں دیکھ کے ہنسنے لگا لیکن اُس سے کیا فرق پڑتاتھا۔ ساری تفصیل میں جانا تو شاید مناسب نہ ہولیکن اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ والٹن ایئرپورٹ پہ وہ دوتین ماہ یادگار ثابت ہوئے ۔ زندگی میں بہت کچھ بھول چکے ہیں لیکن اُس تھوڑی مدت کی یادیں اپنے دل کا حصہ بن گئیں اور انہیں ہم کبھی نہ بھلا سکے۔
انسان کی بہت سی کمزوریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ بیشتر انسان وقت اورموقعوں کی قد ر نہیں کر پاتے۔ اچھا وقت کبھی آتاہے تو ہاتھوں سے نکل جاتاہے ۔ تب احساس نہیں ہوتاکہ وقت کچھ دیر تھم جائے۔ گزرجاتاہے تو پھر پچھتاوے کے سائے آن گھیرتے ہیں۔ اُس تھوڑے سے عرصے میں ایک دو دوستیاں بھی اچھی بنیں ۔ لیکن یہ ارمان رہے گا کہ اُن کی قدر نہ کی ۔ اتنا عرصہ گزر چکا لیکن اُن دوستیوں کی یادایک مستقل ارمان کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ وہ کیا گاناہے ''گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ‘‘۔ اس حقیقت کا احساس تو تب ہی ہوتاہے جب دل پہ کچھ گزری ہو۔
ایک دن ایسا بھی ہوا کہ والٹن ایئرپورٹ کے جو انچارج تھے ‘ایئرفورس کے غالباً ریٹائرڈ آفیسر تھے ‘ انہوں نے بلا بھیجا اورکہنے لگے کہ دیکھیے ہم نے آپ کو یہ کمرہ دیا ہواہے لیکن آپ کی سرگرمیاں یہاں کچھ اچھی نہیں۔ میں نے مسکرا کے پوچھا کہ کیسی سرگرمیاں ؟ کچھ وہ بھی مسکرائے‘ میں نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ اس پہ کوئی بحث کی جائے۔ اچھے وقت البتہ ہمیشہ کیلئے نہیں رہتے‘ ایک دن آرڈ ر ملا کہ والٹن ایئرپورٹ سے واپس سائیفن آجاؤ۔ بتاتا چلوں کہ سائیفن وہ مقام ہے جہاں بی آر بی کینال کو ایک سائیفن کے ذریعے دریائے راوی کے نیچے سے گزارا گیاہے۔ انڈین بارڈر وہاں سے بالکل قریب ہے ۔ جگہ اب بھی نہایت ہی دلکش اوردل کو موہ لینے والی ہے ۔ وہاں ایک ریسٹ ہاؤس تھا‘ اب بھی ہے ۔اُس میں ہم جا کے ٹھہر گئے اوروہاں بھی وقت اچھا گزرا۔ ہماری تو جنگ ایسی رہی ۔ باقی فوج کے کام کو نہایت ہی بور پایا ۔ دل لگتا ہی نہیں تھا۔ لیکن پوری فوجی نوکری میں جو دن اچھے گزرے اورجن کی یاد اب بھی تازہ ہے وہ ایک تو جنگ کے ایام تھے جب پوری پوری رات کا سفر کرنا ہوتا اورپھر جنگ کے فوراً بعد والٹن ایئرپورٹ پہ تعیناتی تھی ۔
پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکاہے لیکن اُن دنوں سے زیادہ والٹن ایئرپورٹ کی شامیں اورلاہور کا بلیک آؤٹ یادآتاہے۔